Imran Khan (Birth to till now)

0

لڑکپن میں انہیں ایسا خاموش اور شرمیلا لڑکا تصور کیا جاتا تھا، جو اکثر اپنے آپ میں ہی رہتا تھا۔


پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ — اب پاکستان کے 22 ویں وزیرِ اعظم بن رہ چکے ہیں۔
— عمران احمد خان نیازی 5 اکتوبر 1952 کو پنجاب کے شہر میانوالی کے ایک دولتمند پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان بعد میں لاہور میں مقیم ہوگیا جہاں انہوں نے اپنی جوانی کا زیادہ تر حصہ گزارا۔

اپنے والدین کا واحد بیٹا اور 4 بہنوں کے بھائی ہونے کے ناطے انہیں اکثر تند مزاج کہا جاتا تھا۔ عمران خان نے اس الزام کی ہمیشہ تردید کی ہے۔ اپنے لڑکپن میں انہیں ایسا خاموش اور شرمیلا لڑکا تصور کیا جاتا تھا جو اکثر اپنے آپ میں ہی رہتا تھا۔ اسکول میں بھی انہیں کرکٹ سے بے حد لگاؤ تھا۔



ان کا تعلق بھی ایک عظیم کرکٹر گھرانے سے تھا۔ ان کے دو ننھیالی کزن جاوید برکی اور ماجد خان ان سے پہلے آکسفورڈ اور پاکستان کی کپتانی کر چکے تھے۔

عمران خان نے ایچی سن کالج میں تعلیم حاصل کی اور پھر لاہور کے کیتھڈرل اسکول میں۔ اس کے بعد انہوں نے برطانوی شہر ورسسٹر میں رائل گرامر اسکول میں تعلیم حاصل کی۔

اس کے بعد انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج سے معاشیات میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ آکسفورڈ میں اپنے وقت کے دوران وہ 1974 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی تھے۔

عمران خان 1970 میں ملکہ الزبتھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے۔ فوٹو wikibio.in


اپنے کزنز کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عمران خان نے 13 سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کیا۔

ابتداً وہ اپنے کالج ٹیم کے لیے کھیلتے تھے اور بعد میں انگلش کاؤنٹی ورسسٹر کے لیے۔ انہوں نے پاکستان کی قومی ٹیم کے لیے اپنا پہلا میچ 18 سال کی عمر میں برمنگھم میں 1971 انگلش سیریز کے دوران کھیلا۔
─ تصویر بشکریہ پیٹرک ایگر، 1978



جلد ہی انہوں نے ٹیم میں مستقل جگہ حاصل کرلی۔

ایک حقیقی آل راؤنڈر کی طرح عمران خان نے مستقل مزاجی کے ساتھ کھیل کے تمام شعبوں میں اپنی جارحانہ بیٹنگ اور سوئنگ کی صلاحیتوں کی بدولت کارآمد حصہ ڈالا۔

عمران خان نے 75 ٹیسٹ میچوں میں آل راؤنڈرز ٹرپل حاصل کر لیا، اور انہیں انگلش کرکٹ ٹیم کے ایان بوتھم کے بعد دوسرا تیز ترین ریکارڈ بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

عمران خان 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد۔ — ڈان/فائل



پاکستان کو 1992 میں کرکٹ ورلڈ کپ کی پہلی اور آخری فتح دلوانے کے بعد انہوں نے اپنے اسپورٹس کریئر کے عروج پر کرکٹ چھوڑ دی۔ اس وقت تک وہ ٹیسٹ کرکٹ میں 362 وکٹیں لے اور 3807 رنز بنا چکے تھے۔

اپنی کرکٹ صلاحیتوں کے علاوہ عمران خان کو خواتین میں اپنی مقبولیت اور نائٹ کلبز میں باقاعدگی کی وجہ سے بھی جانا جاتا تھا۔



کرسٹوفر سینڈفورڈ نے اپنی کتاب عمران خان: دی کرکٹر، دی سلیبرٹی، دی پالیٹیشن میں لکھا کہ عمران خان برطانیہ اور آسٹریلیا کے تمام مشہور نائٹ کلبز کو جانتے اور وہاں جاتے تھے، اور انہیں خواتین سے ملنا اور ان کے ساتھ رومانس کرنا پسند تھا۔ وہ شراب نہیں پیتے تھے، مگر انہیں اپنے ٹیم کے ارکان کے ساتھ باہر جانے اور مزے کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

برطانوی مصنف ایوو ٹینینٹ اپنی کتاب میں مشہور مالیاتی صحافی پیٹرک سارجنٹ کی بیٹی آرٹسٹ ایما سارجنٹ، جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ ان کا  کے حوالے سے عمران خان کو 'مشرق اور مغرب کا بہترین امتزاج' کہتے ہیں۔
عمران خان فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے۔ — ڈان/فائل



1987 میں جب عمران خان نے پاکستان کو ہندوستان کے خلاف پہلی ٹیسٹ سیریز جتوائی تو فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے انہیں اپنی قائم کردہ پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل) میں عہدے کی پیشکش کی۔ عمران خان نے شائستگی سے یہ پیشکش رد کردی۔

بھلے ہی خان نے 1987 میں ورلڈ کپ کے دوران ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا مگر  کے بعد وہ کرکٹ میں واپس لوٹ آئے۔

25 مارچ 1992 کی اس تصویر میں عمران خان اپنی ٹیم کے ارکان کے ساتھ ورلڈ کپ جیتنے کا جشن مناتے ہوئے۔ — فوٹو اے پی



1992 کے ورلڈ کپ کے بعد کرکٹ سے اپنی حقیقی ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان سرگرم فلاحی شخصیت بن گئے۔

عمران خان فنڈز اکھٹے کرنے کی مہم کے دوران۔ — ہیرالڈ آرکائیوز۔



22 فروری 1996 کی اس تصویر میں عمران خان لیڈی ڈیانا کے ساتھ شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور کا دورہ کر رہے ہیں۔ — اے پی فوٹو



انہوں نے پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا کینسر ہسپتال قائم کرنے کے لیے مہم چلائی جہاں ضرورتمندوں کا مفت علاج کیا جائے۔

اسے عمران خان کی کینسر سے وفات پانے والی والدہ کے نام پر شوکت خانم میموریل کینسر ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر کا نام دیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب نواز شریف کی پہلی حکومت نے یہ باور کروایا کہ وہ انہیں حکمراں جماعت پی ایم ایل کے رکن بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
60منٹس آسٹریلیا کا 1992 میں عمران خان پر ایک سیگمینٹ۔



1992 میں پروگرام 60 منٹس کے ایک حصے (9 منٹ 20 سیکنڈ پر ویڈیو دیکھیں) میں نواز شریف کہتے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کو کئی سال قبل سیاست میں آنے کی پیشکش کی تھی "مگر انہوں نے ٹھکرا دی۔ مجھے ابھی بھی معلوم نہیں کہ کیوں۔ بہرحال، پیشکش اب بھی موجود ہے۔"

اس وقت عمران خان 41 سال کے تھے اور اب انہوں نے اپنا 'پلے بوائے' والا تاثر بتدریج کم کرنا شروع کر دیا تھا۔ انہیں میاں بشیر کی صورت میں ایک روحانی استاد بھی مل گیا تھا جنہوں نے عمران خان کے اپنی کتاب پاکستان: اے پرسنل ہسٹری میں دعوے کے مطابق شاکی جمائمہ گولڈ اسمتھ کی تین خفیہ خواہشات انہیں ان کے سامنے بتا کر انہیں چِت کر دیا تھا۔

مایہ ناز کاروباری و سیاسی شخصیت جیمز گولڈ اسمتھ کی بیٹی جمائمہ نے عمران خان سے 21 سال کی عمر میں پیرس میں 1995 میں شادی کرلی۔

عمران اور جمائمہ اپنی شادی کے دن۔ — فوٹو اے ایف پی



اس جوڑے نے دو بچوں سلیمان اور قاسم کو جنم دیا اور 9 سال ساتھ رہنے کے بعد ان کے درمیان طلاق ہوگئی۔ عمران خان اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ "طلاق سے پہلے تک کے 6 ماہ اور اس کے بعد کے 6 ماہ میری زندگی کا مشکل ترین عرصہ تھا۔"
عمران خان پاکستان میں اپنے بچوں کے ساتھ۔ وہ برطانیہ میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ — فائل فوٹو



طلاق کے وقت جاری کردہ اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ "جمائمہ نے یہاں رہ کر گھل مل جانے کی بھرپور کوشش کی مگر میری سیاسی زندگی کی وجہ سے ان کے لیے پاکستان کی زندگی سے ہم آہنگ ہونا مشکل تھا۔"

1993 میں معین قریشی کی نگراں حکومت کے دوران عمران خان کو سفیرِ سیاحت تعینات کیا گیا۔ اس عہدے کا رتبہ وزیر جتنا ہی تھا۔ انہوں نے تین ماہ بعد قریشی حکومت تحلیل ہونے اور نئے انتخابات ہونے پر یہ عہدہ چھوڑ دیا۔

1994 کے اواخر میں انہوں نے سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل حمید گل اور محمد علی درانی سے ہاتھ ملا لیے۔ درانی اس وقت جماعتِ اسلامی سے الگ ہونے والے ایک نوجوان دھڑے پاسبان کی قیادت کر رہے تھے۔

حمید گل اور عمران خان، ایک نئی شراکت۔ — ہیرالڈ آرکائیوز



ان کا منصوبہ ان کے الفاظ میں ایک 'پریشر گروپ' لانچ کرنا تھا۔ ایک سیاسی جماعت کے بجائے اسے ایک سول سوسائٹی کے طور پر کام کرنا تھا جس کا مقصد حکومت کے اقدامات پر نظر رکھنا ہوتا۔

ہیرالڈ میگزین کے فروری 1995 کے شمارے میں ان تینوں نے اظہارِ خیال کیا کہ کس طرح اس گروپ کو ایک سیاسی جماعت کے بجائے ایک سماجی تحریک ہونا تھا۔ انہوں نے اس کے ایک "تیسری قوت" اور "ملک کی پہلی مڈل کلاس تحریک" بننے کی پیش گوئی بھی کر ڈالی۔

پنجاب اسمبلی کے باہر پاسبان کا مظاہرہ۔ — ہیرالڈ آرکائیوز



پریشر گروپ کبھی نہیں بن سکا۔ ان تینوں کے منصوبے پر رپورٹ کرنے والے ہیرالڈ کے اسٹاف ممبر ضیغم خان کے مطابق عمران خان فوراً ہی جنرل حمید گل کے ہاتھوں میں ایک پتلے کی طرح نظر آنے کے تصور سے بے چین ہو گئے تھے۔

اسی سال (1995) کے اختتام تک ان کے دوستوں، بشمول ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نے انہیں سیاسی کریئر شروع کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔

25 اپریل 1996 کو عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھی۔ 1997 کے عام انتخابات، جو پی ٹی آئی کے پہلے انتخابات تھے، میں پارٹی نے کوئی بھی نشست نہ جیتی۔

کچھ سال بعد ریٹائرڈ فوجیوں نے پارٹی یہ کہہ کر چھوڑ دی کہ عمران خان کسی کی بھی نہیں سنتے۔ چند سال مزید گزرے تو یہی جذبات لیے چند مزید تجربہ کار سیاست دانوں نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔

1999 میں عمران خان جنرل پرویز مشرف کی حمایت کرنے لگے اور سابق فوجی ڈکٹیٹر کے تحت ہونے والے 2002 کے عام انتخابات میں ان کی جماعت نے ایک نشست، یعنی عمران خان کی اپنی نشست جیت لی۔

مگر خان کی پارٹی نے ان پر 2007 میں کراچی میں ہونے والے قتلِ عام کے بعد قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ بعد میں پارٹی نے 2008 کے انتخابات کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیا کہ ایک باوردی صدر کے ماتحت منتخب پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔

عمران خان 2008 کے انتخابات کے لیے اپنے کاغذاتِ نامزدگی پھاڑ کر بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے۔ — فوٹو اے ایف پی۔



2007 میں وکلاء تحریک کے خلاف مشرف کے کریک ڈاؤن میں عمران خان کو بھی اس وقت مختصراً گرفتار کر لیا گیا جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک مظاہرے کی قیادت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی گوناگوں آوازوں میں ایک ان کی بھی تھی۔

یہ 2011 تھا جب لوگوں نے عمران خان کو ایک بار پھر سیاست میں سرگرم دیکھا۔ کراچی اور لاہور میں ان کے جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگ آنے لگے، جن کی تعداد کا مقابلہ شاید صرف 1980 کی دہائی میں بینظیر کی وطن واپسی کے جلسوں سے کیا جا سکتا تھا۔

مگر 2013 کے انتخابات میں بھرپور مہم چلانے کے باوجود پارٹی مرکز میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی اور 32 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھ گئی۔ مگر یہ خیبر پختونخواہ میں جماعتِ اسلامی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔

اگلے 4 سال تک عمران خان اور پی ٹی آئی انتخابی دھاندلی اور حکومتی کرپشن کے خلاف مظاہرے کرتے اور سیاستدانوں کے احتساب کا مطالبہ کرتے رہے۔

2014 میں عمران خان دارالحکومت تک لانگ مارچ لے گئے اور 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف طویل ترین دھرنا دیا۔ انہوں نے اس دھاندلی کے لیے نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ دھرنے کے لیے انہوں نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری سے ہاتھ ملا لیے جو کہ ماڈل ٹاؤن سانحے کے متاثرین کو انصاف دلوانے کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔

عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری 2014 میں دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے۔ — ڈان/فائل



یہ دھرنا 126 دن تک جاری رہا، مگر اسے دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔ تجربہ کار سیاستدان جاوید ہاشمی، جو استعفیٰ دینے سے قبل تک پارٹی میں صدر کے عہدے پر تھے، نے عمران خان پر "غیر سیاسی قوتوں" اور "اسکرپٹ لکھنے والوں" کے ساتھ مل جانے کا الزام عائد کیا جو کہ ان کے مطابق حکومت کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔

عمران خان دھرنے کے شرکاء سے کنٹینر کے اوپر سے خطاب کر رہے ہیں۔ — رائٹرز/فائل



پی ٹی آئی کے سابق رہنما نے یہاں تک الزام لگایا کہ سینیئر پارٹی ارکان اس بات پر قائل نہیں تھے کہ 2013 کے انتخابات میں پنجاب میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی تھی، بھلے ہی پی ٹی آئی کا 2014 میں اپنے تاریخی دھرنے کے دوران عوامی مؤقف یہی تھا کہ وسیع پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے ہی ان کی جماعت ہاری تھی۔

ان الزامات کے حق میں کبھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

دھرنے کے چند دن بعد ہی عمران خان نے صحافی ریحام خان سے اپنی بنی گالا میں رہائش گاہ میں 8 جنوری 2015 کو ایک سادہ سی تقریب میں شادی کر لی۔

عمران اور ریحام بنی گالہ میں اپنی شادی کے موقع پر — اے ایف پی/فائل



بھلے ہی ان کی شادی کو بے حد عوامی توجہ ملی مگر اسے آرمی پبلک اسکول پر دہشتگرد حملے کے چند دن بعد ہی انعقاد پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا جس میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔

یہ تعلق صرف 9 ماہ تک ہی چل سکا اور عمران خان نے اسے "اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی" قرار دیا۔ ریحام خان نے بعد میں ایک انکشافی کتاب بھی لکھی جس میں انہوں نے عمران خان سے اپنی شادی کے دورانیے کی تفصیلات بتائیں۔ یہ کتاب 2018 کے عام انتخابات سے چند دن قبل ہی منظرِ عام پر آئی۔

مگر جب لگنے لگا کہ پی ٹی آئی اپنی مقبولیت گنوا رہی ہے، تب ہی اپریل 2016 میں پاناما پیپرز اسکینڈل سامنے آیا۔ عمران خان، جنہوں نے لیکس کو "خدائی کا بھیجا گیا" قرار دیا تھا، نے وزیرِ اعظم نواز شریف پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ اپنی دولت کا حساب دیں۔

بعد کے مہینوں میں حکومت اور اپوزیشن کا شریف خاندان کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی شرائطِ تحقیقات (ٹرمز آف ریفرینس) پر ڈیڈلاک برقرار رہا۔

جون 2016 میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں نواز شریف کے خلاف مبینہ طور پر اثاثے چھپانے کی بناء پر نااہلی کی درخواست دائر کر دی۔ یہ نواز شریف کے اختتام کا آغاز تھا۔

اس کے بعد سپریم کورٹ میں شریف خاندان کے خلاف کئی پٹیشنز دائر کی گئیں جن میں سب سے اہم پی ٹی آئی، جماعتِ اسلامی، پاکستان عوامی تحریک اور عوامی مسلم لیگ کی تھیں۔

جماعتِ اسلامی کے سربراہ سراج الحق میڈیا سے اپنی پاناما گیٹ کی پٹیشن شیئر کر رہے ہیں۔—فوٹو ڈان/فائل



عمران خان نے اپنے حامیوں سے کرپشن کے خلاف احتجاج جاری رکھنے کا کہا اور پھر کرپشن کے خلاف ایک اور طویل دھرنے کا تصور پیش کیا جسے 'اسلام آباد لاک ڈاؤن' کا نام دیا گیا۔

مگر 2 نومبر کو مجوزہ یہ دھرنا کبھی نہیں ہوا کیوں کہ اس سے ایک دن قبل ہی سپریم کورٹ نے پاناما گیٹ پر پٹیشنز کی سماعت کی اور الزامات کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز طلب کیے۔

پاناما کی کہانی بالآخر 6 جولائی 2018 کو اس وقت ختم ہوئی جب احتساب عدالت نے نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز، اور داماد کیپٹن صفدر کو کرپشن کرنے پر جیل بھیج دیا۔

مگر لیکس اور آخری فیصلے کے درمیان کے دو سال تفریق انگیز سیاست اور مقدمے بازی سے بھرپور رہے جس میں کئی سیاسی رہنماؤں کے خلاف کئی وجوہات کی بناء پر مقدمات پر مقدمات فائل کیے گئے۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے حنیف عباسی کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن پر پی ٹی آئی کے سربراہ کو سپریم کورٹ میں نااہلی کا سامنا تھا مگر عدالت نے عمران خان کے خلاف دسمبر 2017 میں ۔ ان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین نااہل قرار پائے۔

عمران خان اب بھی کئی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
عمران خان ہیلی کاپٹر سے اتر رہے ہیں۔ — یوٹیوب اسکرین شاٹ



ان میں سے دو مقدمات اسلام آباد اور پشاور ہائی کورٹس میں ہیں جن میں مختلف بنیادوں پر ان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں ان کی مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کو 2018 عام انتخابات کے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخواہ نیب میں ان کے خلاف 2013 سے 2018 کے دوران صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر کا ناجائز استعمال، اور اسلام آباد میں انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں اسلام آباد دھرنے کے دوران دارالحکومت میں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کا مقدمہ 2014 سے موجود ہے۔

عمران خان نے 2018 میں اپنی روحانی مرشد بشریٰ بی بی سے شادی کر لی۔ یہ عمران خان کی تیسری شادی تھی۔ بشریٰ بی بی پاک پتن سے تعلق رکھتی ہیں اور عمران خان دو سال سے ان کے پاس باقاعدگی سے جایا کرتے تھے۔ یہ شادی لاہور میں سادگی سے ہوئی۔

لاہور میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی تقریبِ نکاح۔ — ڈان نیوز ٹی وی



عمران خان کی مکمل پردے دار تیسری اہلیہ کے گرد جو اسرار اور افواہیں گھومتی ہیں، سے اشارہ ملتا ہے کہ وہی عمران خان کے صوفی ازم کی طرف مکمل طور پر آنے اور وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے پیچھے ہیں۔ مگر یہ سب صرف اندازے ہی ہیں۔

25 جولائی کے عام انتخابات سے ایک ماہ قبل عمران خان اور بشریٰ بی بی کو پاک پتن میں بابا فریدالدین گنج شکر کے مزار پر دعائیں مانگتے ہوئے دیکھا گیا۔

25 جولائی کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو بے مثال انداز میں قومی اسمبلی کی 116 نشستیں حاصل ہوئیں۔ دیگر جماعتوں نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ عمران خان پانچوں نشستوں سے کامیاب ہوئے جن پر انہوں نے انتخاب لڑا تھا۔

عمران خان 26 جولائی کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے۔ — فوٹو اے پی/فائل


قومی اسمبلی میں آزاد امیدواروں کو اپنے ساتھ ملانے اور مخصوص نشستوں پر اپنے امیدواروں کو نامزد کرنے، اور عمران خان اور دو دیگر ارکانِ قومی اسمبلی کی جیتی گئی اضافی نشستیں خالی کرنے کے بعد ان کا نمبر 152 تک پہنچ گیا۔ مگر پارٹی کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ اپنے اتحادیوں کی مدد سے پارٹی کو 180 سے زائد ارکانِ قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔

جیسے ہی انتخابات کے نتائج آنے شروع ہوئے تھے اور پی ٹی آئی اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی تھی تو عمران خان کو 'اگلا وزیرِ اعظم' کہا جانے لگا تھا جبکہ پارٹی سربراہ نے
عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا، "میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں سیاست میں کیوں آیا۔ سیاست مجھے کچھ نہیں دے سکتی تھی۔ میں صرف پاکستان کو وہ ملک بنانا چاہتا تھا جس کا خواب میرے رہنما قائدِ اعظم محمد 
علی جناح نے دیکھا تھا۔"
17 اگست 2018ء کو عمران خان 176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے جب کہ ان کے مد مقابل اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 96 ووٹ حاصل کیے۔[65] انہوں نے 18 اگست 2018ء کو حلف لیا۔[66] 18 اگست، کو انہوں نے بیس رکنی کابینہ کا اعلان کیا اور وزیر داخلہ اور وزیر پاور کا قلمدان خود کے لیے منتخب کیا۔[67] بعد ازاں کابینہ میں توسیع کی گئی اور انہوں نے وزیر پاور کا قلمدان عمر ایوب خان کو سونپ دیا۔
10 اپریل 2022ء: قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں سے منظور، عمران خان ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)