District Bhakkar short history (urdu)

0

ضلع بھکر ایک مختصر تعارف



بھکر پنجاب کاآخری مغربی شہر ہے۔ یہ ایک قدیم شہر ہے جودریائے سندھ کے بائیں کنارے پر واقع ہے۔ ضلع بھکر دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک دریائی میدان اور دوسرا صحرائی علاقہ۔ صحرائی علاقہ دریائی میدان کی نسبت زیادہ رقبہ پر پھیلا ہوا ہے جس میں تحصیل منکیرہ جو کہ پنجاب کی بڑی تحصیلوں میں شمار ہوتی ہے واقع ہے۔بھکر کی تہذیب و ثقافت انتہائی سادہ اور محبتوں بھری ہے۔ یہاں کے لوگ مخلص، سادہ،مہمان نواز، رحمدل، محنت کش اور زیادہ تر غریب ہیں۔ یہاں کا پانی خوشگوار، میٹھا اور شیریں ہے۔یہاں کے لوگ خوبصورت اور 
خودار ہیں۔





بھکر کو ضلع درجہ 1982ء میں دیا گیا۔ ضلع بھکر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سنگم پر واقع ہے۔
1998ءکی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 10لاکھ سے اوپر تھی سن 2017 کی مردم شماری کے مطابق بھکر کی کل آبادی 16 لاکھ سے اوپر تھی جس میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا رقبہ 8153 مربع ہیکٹر ہے۔ سطح سمندر سے اوسط بلندی 159 میٹر ہے۔ اسے بنیادی طور پر 4 تحصیلیں ہیں۔ تحصیل بھکر،تحصیل دریا خان،تحصیل کلورکوٹ اورتحصیل منکیرہ اس کی تحصیلیں ہیں۔ یہاں 56 فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ تعلیم کے لیے یہاں سرکاری اور پرائیویٹ سکول وکالج موجود ہیں۔ سن 2012 میں یونیورسٹی آف سرگودھا نے بھکر میں اپنا سب کیمپس قائم کیا۔ یہ بھکر کی تاریخ میں پہلا پوسٹ گریجویٹ ادارہ تھا۔ بھکر کے شہری علاقوں میں شرح خواندگی 55.13 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 30.07 فیصد ہے















جغرافیائی اعتبار سے یہ صحرائے تھل اور ساتھ ہی ساتھ صوبہ پنجاب کی بھی مغربی اختتامی پٹی پر واقع ہے جہاں سے دریائے سندھ کا ڈیلٹا شروع ہو جاتا ہے۔ سن 1975 تک دریائے سندھ کا ایک قابلِ ذکر ذیلی دریا ایک چھوٹی شاخ کی صورت میں بھکر شہر کے عین بغل میں بہتا تھا۔ اس دریا کی موجودگی اس صحرائی شہر کے باسیوں کے لیئے قدرت کا حسین اور شاندار تحفہ تھا۔ اسی دریا کے پانیوں نے جہاں سندھ کے ڈیلٹا میں رہنے والے یہاں کے باسیوں کو خوشحالی دی تھی ۔ بھکر شہر سمیت صحرائے تھل کو ہزاروں سال سینچنے والا یہ خوبصورت دریا، جس کا اپنا منفرد ایکو سسٹم تھا اور یہ دریا صحرا کے دامن میں بہنے والے دنیا کے محض چند دریاؤں میں سے ایک تھا۔ 1983 میں بننے والے ایک جدید پُل سے اِس دریا کی بربادیوں کی کہانی شروع ہوئی، اس دریا کو ڈیرہ اسماعیل خان اور بھکر کے درمیان بننے والے جدید پل کی نظر کر دیا گیا۔ افسوس کہ اس وقت کسی بھی شخص یا طبقے نے اس دریا کو ختم کرنے کی مخالفت یا کوشش نہیں کی ۔دریا کا راستہ اس نئے پل اور اسکے حفاظتی پشتے و حفاظتی بند بنانے کی خاطر مکمل طور پر خشک کر دیا گیا لیکن دریا کا راستہ صدیوں تک بہتے رہنے کے باعث چونکہ آج بھی موجود ہے لہذا اگر بھکر کے باسی کوشش کریں تو اس دریا کو ایک 



مرتبہ پھر سے رواں دواں کیا جاسکتا ہے۔
اگر تاریخی جاٸزہ لیا جاۓ تو تاریخی اعتبار سے بھکر ایک پرانا شہر ہے۔ اس کی تاریخ کے بارے میں بہت سی روایات ملتی ہیں۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ بھکر کا پرانا نام سکھر تھا جو بعد میں بھکر پڑ گیا۔ بعض کے مطابق اس کا نام ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک بلوچ سردار بکھر خان کے نام پر رکھا گیا۔ یہاں احمد شاہ ابدالی نے بھی یہاں پڑاﺅ کیا۔
برطانوی دور حکومت میں قصبہ بھکر،تحصیل بھکر کا ہیڈکوارٹر تھاجو کہ شمال مغرب ریلوے لائن پر واقع تھا۔ بھکر کی تاریخ میں بلوچ قوم کا کردار قابل ذکر ہے۔ بلوچ دو راستوں سے بھکر پر حملہ آور ہوئے۔ وہ بلوچ جو ڈیرہ اسمٰعیل خان سے دریائے سندھ کے راستے بھکر پر حملہ آور ہوئے انہیں ہووت بلوچ کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ رند بلوچ جن میں ممدانی اور جسکانی بلوچ ہیں ،کیچ مکھن اور سبی بلوچستان سے یہاں حملہ آور ہوئے۔ بلوچ خاندان نے یہاں بہت عرصہ حکومت کی۔ قلعہ منکیرہ ہیڈ کوارٹر تھا اور بھکر منکیرہ کے مقابلے میں ایک چھوٹا قلعہ تھا۔ بلوچ خاندان نے اٹھارہوں صدی تک یہاں پر حکمرانی کی۔ عبد الغنی کہلوڑا نے بلوچ خاندان کی حکمرانی ختم کر کے یہاں قبضہ کر لیا۔ اس کے دور حکومت میں بلوچ بکھر گئے، کچھ بلوچ لیہ،بہاولپور اور کالا موزہ چلے گئے جبکہ بعض نے جنگلوں کا رخ کر لیا۔ اس کے بعد نواب مظفر نے یہاں حکومت کی۔ بعد ازاں بلوچ لیڈر محمد خان نے تمام بلوچوں کو اکٹھا کیا اور دوبارہ بلوچ یہاں قابض ہو گئے۔1821 ءمیں یہاں سکھوں 






  نے حکمرانی کی۔
یہ ضلع تاریخی عمارات کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ دل کشا باغ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مغلوں کا باغ تھا جو مغل بادشاہ ہمایوں نے تعمیر کروایا تھا۔ تاریخ دان ہینری ریورٹی نے اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ ہمایوں کبھی یہاں آیا ہی نہیں۔ ہمایوں نے دوسرے بھکر گیا تھا جو صوبہ سندھ میں ہے۔ بھکر کے چاروں اطراف پہلے دیوار تھی۔ اس کے تین دروازے تھے جن میں تاویلا،امام والا اور کنگ گیٹ شامل ہیں۔ کنگ گیٹ برطانیہ دور حکومت میں تعمیر کروایا گیا اور اس کا نام وہاں کے ڈپٹی کمیشنر مسٹر خان کے نام پر رکھا گیا۔ بعد ازاں اس کا نام جناح گیٹ رکھ دیا گیا۔ شیخ راﺅ پل کے قریب بھکر کے بانی بھکر خان کا مزار موجود ہے۔ بلوچ فورٹریس کی جگہ اب پولیس سٹیشن ہے۔ قلعہ منکیرہ بھی اسی ضلع میں ہے،
یاد رہے پہلے بکھر میانوالی میں شامل تھا 1981ءمیں اسے میانوالی سے الگ کر کے ضلع کا درجہ دے دیا گیا تھا۔
اس ضلع میں قومی اسمبلی کے دوحلقے اورصوبائی اسمبلی کے چار حلقے شامل ہیں۔
بھکر کا تھل صحرا کیونکہ پانی کی بڑی موجودگی رکھتا ہے اس لیے یہ صحرا سر سبز ہے یہاں چنا بہت بڑی تعداد میں کاشت ہوتا ہے اور بڑی اچھی فصل دیتا ہے دیگر فصلیں بھی کاشت کی جاتی ہیں
اس کہ ہمسایہ۔میانوالی ۔خوشاب۔جھنگ۔لیہ۔اور ڈیرہ اسماعیل خان ہیں
آج بھکر بھی تعلیمی اور صحت کی تمام سہولیات رکھتا ہوا بڑا شہر ہے.

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)