INDIA & CHINA ...........What LIKE?

0

 

سٹرکیں، سرنگیں، ڈیم اور ریلوے لائن: کیا انڈیا اور چین ہمالیہ میں نئی آفات کو دعوت دے رہے ہیں؟

چین

،تصویر کا ذریعہ

BILLU KALAPURACKAL

  • مصنف,
    نوین سنگھ کھڑکا
  • عہدہ,
    نمائندہ ماحولیات، بی بی سی ورلڈ سروس

انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ اور اس کے آس پاس کی زمینوں میں تازہ دراڑیں نظر آ رہی ہیں، جس کی وجہ سے یہ ہمالیائی قصبہ سرخیوں میں ہے۔

یہ شہر کیوں ڈوب رہا ہے یہ بحث کا موضوع ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمالیہ کے کوہستانی سلسلے سے اس سے بھی زیادہ پریشان کن تصویریں سامنے آ رہی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور انڈیا جس رفتار سے ہمالیائی خطے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کر رہے ہیں اس سے قدرتی آفات کے خطرے میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گلوبل وارمنگ اس نازک خطے کو مزید غیر مستحکم کر رہی ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے گلیشیئرز اور پرما فراسٹ (مستقل طور پر منجمد برف) پگھل رہے ہیں۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں نئی شاہراہیں بنائی جا رہی ہیں، ریلوے ٹریک کے جال بچھائے جا رہے ہیں اور سرنگیں کھودی جا رہی ہیں۔ یہی نہیں ہمالیہ کے دونوں طرف ڈیم اور ہوائی پٹیاں بن رہی ہیں۔

اوسلو یونیورسٹی میں فزیکل جغرافیہ اور ہائیڈرولوجی کے پروفیسر آندریاس کاب کا کہنا ہے کہ ’بنیادی طور پر آپ خود کو خطرات کے قریب اور قریب تر لا رہے ہیں۔‘

پروفیسر اینڈریاس نے سنہ 2021 میں ریاست اتراکھنڈ کے چمولی ضلع میں ایک تباہ کن برفانی تودے کے گرنے کی وجوہات پر ایک بڑی رپورٹ کی مشترکہ تصنیف کی ہے۔

ان مطالعوں میں خصوصی انفرادی واقعات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، لیکن جب ان واقعات کو ملایا جاتا ہے تو یہ واقعات پورے خطے میں خطرات کے بڑھتے ہوئے پس منظر کو ظاہر کرتے ہیں۔

3500 کلومیٹر پر پھیلا یہ وسیع علاقہ انڈیا اور چین کے درمیاں منقسم ہے۔ اس علاقے میں دونوں ممالک کے درمیان ایک سرحد بھی ہے جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کہا جاتا ہے۔

ہمالیائی علاقہ

،تصویر کا ذریعہ

GETTY IMAGES

’ہر کلومیٹر پر لینڈ سلائیڈنگ‘

نیچرل ہیزرڈ اینڈ ارتھ سسٹم سائنس جریدے میں گذشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ستمبر اور اکتوبر 2022 کے دوران ریاست اتراکھنڈ میں این ایچ-7 (نیشنل ہائی وے سات) نامی قومی شاہراہ کے ساتھ ہر ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک جزوی یا مکمل سڑک بلاک کرنے والی لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی۔

دیگر مطالعات نے بھی اسی طرح کے خطرات کی نشاندہی کی ہے۔

یورپی جیو سائنسز یونین کی جانب سے شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ’ماحولیاتی حالات کے علاوہ نئی سڑکیں بنانے اور سڑکوں کو چوڑا کرنے کی کوششوں نے نئی لینڈ سلائیڈنگ میں حصہ ڈالا ہے، جو اکثر چھوٹے ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ کافی تباہ کن ہیں۔ ایسی لینڈ سلائيڈنگ بنیادی ڈھانچے اور ٹریفک کے نظام کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔‘

حالیہ برسوں میں لینڈ سلائیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے اور دیگر قدرتی آفات تیزی سے عام ہو گئے ہیں۔ اتراکھنڈ میں حال ہی میں تعمیر کی گئی چار دھام ہائی وے کے کچھ حصوں کو بھی پچھلے سال مون سون کی بارشوں کے دوران نقصان پہنچا تھا۔

چمولی میں برفانی تودہ گرنے سے 200 سے زائد افراد ہلاک اور دو زیر تعمیر پن بجلی گھروں کو شدید نقصان پہنچا۔

اس واقعے پر ایک رپورٹ تیار کرتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی آف انڈیا نے پایا کہ ضلعی حکام نے مستقبل کے آفات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے آب و ہوا اور بنیادی ڈھانچے سے وابستہ خطرات کو مدنظر نہیں رکھا۔

سیلاب

،تصویر کا ذریعہ

GETTY IMAGES

کتنا بڑا خطرہ ہے؟

انڈیا کی ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے ہمالیہ کے خطے کو خطرات سے دو چار کرنے والے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے بارے میں ہمارے سوالات کے جواب نہیں دیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی طرف ہمالیائی خطے میں قدرتی آفات کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہے جتنا کہ انڈیا میں۔ پرما فراسٹ کے پگھلنے سے اس خطے میں تعمیر شدہ انفراسٹرکچر کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہے۔

کمیونیکیشنز ارتھ اینڈ انوائرمنٹ جریدے میں گذشتہ سال اکتوبر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تبت کے کنگھائی سطح مرتفع میں تقریباً 9,400 کلومیٹر طویل سڑکیں، 580 کلومیٹر ریلوے، 2,600 کلومیٹر سے زیادہ بجلی کی لائنیں بچھائی گئی ہین اور ہزاروں عمارتیں پرما فراسٹ زون میں ہیں۔

جریدے میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2050 تک، 38.14 فیصد سڑکیں، 38.76 فیصد ریلوے، 39.41 فیصد بجلی کی لائنیں اور 20.94 فیصد عمارتیں زیادہ خطرے والے علاقوں میں پرما فراسٹ کے انحطاط سے خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

انڈیا کی مشرقی ریاست اروناچل پردیش اور سکم کے شمالی خطوں والا علاقہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دریاؤں کے اپنے قدرتی راستوں سے ٹوٹ کر باہر نکلنے کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔

کرایوسفیئر جرنل میں گذشتہ سال شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’خطے میں حالیہ دہائیوں میں برفانی تودے گرنے، گلیشیئر ٹوٹنے اور برفانی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

چین کی تعمیرات

،تصویر کا ذریعہ

GETTY IMAGES

چین تیزی سے تعمیر کر رہا ہے

رواں ماہ کے شروع میں، تبت کی میڈوگ کاؤنٹی میں ایک برفانی تودہ ایک سرنگ سے ٹکرا گیا، جس کے نتیجے میں 28 افراد ہلاک ہو گئے۔

سنہ 2020 میں، تبت کی بومی کاؤنٹی میں گذشتہ دہائیوں میں تعمیر کیے گئے تمام پل، سڑکیں اور ٹیلی کمیونیکیشن کی سہولیات کو ایک بہت بڑی لینڈ سلائیڈ نے تباہ کر دیا گیا۔

دی کرایوسفیئر میں شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’حکومت چین نے اس علاقے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، جس میں تیز رفتار سیشوان-تبت ریلوے کی تعمیر بھی شامل ہے۔‘

چینی حکام کا کہنا ہے کہ ریلوے 21 برف پوش پہاڑوں (سطح سمندر سے 4000 میٹر سے زیادہ بلند) اور 14 بڑے دریاؤں سے گزرے گی۔

یہ بھی پڑھیے

چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف ماؤنٹین ہیزرڈز اینڈ انوائرمنٹ کے چیف انجینئر یو یانگ نے چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کو بتایا کہ ’گھنے جنگلات والے علاقوں کے علاوہ ریلوے کو برفانی تودے، لینڈ سلائیڈنگ اور زلزلوں جیسے دیگر خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ نیینگچی اور شیگاستے جیسی جگہوں پر بستیوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ سڑکوں اور ٹیلی کمیونیکیشن سمیت انفراسٹرکچر کی ترقی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

لندن میں سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کے ایک پیشہ ور ریسرچ ایسوسی ایٹ روبی بارنیٹ نے چینی میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’چین نے سرحد کے ساتھ 624 نئی بستیاں تعمیر کی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کی بستیوں میں سڑکوں، بجلی اور پانی کی فراہمی جیسے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی سہولیات ہونی چاہییں۔‘

’بہت سے لوگ چار ہزار میٹر سے زیادہ کی غیر معمولی بلندی پر آباد ہیں، جہاں کبھی انسانوں کی رہائش نہیں رہی۔ ایسی جگہوں پر بڑے پیمانے پر تعمیرات، بغیر رسد کے، اگر ناممکن نہیں تو غیر عملی نظر آتی ہیں۔‘

چین کی ماحولیات اور آب و ہوا کی وزارت سے بات نہیں ہو سکی۔

جوشی مٹھ

،تصویر کا ذریعہ

GETTY IMAGES

گلیشیئر والی جھیل پھٹ سکتی ہے

جہاں چینی علاقوں کے جنوب میں نئی آبادیاں دیکھی گئی ہیں، وہیں انڈیا کی جانب اروناچل پردیش اور سکم جیسی ریاستوں میں ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے۔

لیکن یہ وہ ریاستیں بھی ہیں جن کی شناخت سینٹرل واٹر کمیشن آف انڈیا نے ایسے مقامات کے طور پر کی ہے جہاں گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے سنہ 2009 اور 2020 کے درمیان جھیلوں اور آبی ذخائر میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

امریکن جیو فزیکل یونین نے سنہ 2020 میں ایک مطالعہ شائع کیا جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انڈیا کی 23 برفانی جھیلوں میں سے 17 ریاست سکم میں ہیں۔

جب ایسی جھیلیں پگھلتے گلیشیئرز سے بھر جاتی ہیں تو ان کے پھٹنے اور بہہ نکلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

مودی اور شی جنپنگ

،تصویر کا ذریعہ

GETTY IMAGES

دوست بھی اور دشمن بھی

چین اور انڈیا نے اپنے مفادات کے دفاع کے لیے بین الاقوامی آب و ہوا کے مذاکرات کے دوران اکثر مل کر کام کیا ہے اور اکثر مغربی ممالک کے ساتھ جھڑپیں کی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمالیہ میں موسمیاتی تبدیلی یا دیگر ماحولیاتی انحطاط کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کارآمد نہیں ہے۔

اس کے بجائے ماہرین کا کہنا ہے کہ جغرافیائی سیاسی مسابقت اور دشمنی کی وجہ سے دونوں ممالک نے اس حساس علاقے میں تیزی سے فوجی سرگرمیاں بڑھانے کا کام کیا ہے۔

امریکی ماہر ارضیات جیفری کارگل نے ہمالیہ پر کئی سٹڈیز کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک بین الاقوامی بایوسفیئر ریزرو ہونا چاہیے تھا، جہاں کسی بھی غیر ضروری سرگرمی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آج ہم ہمالیہ میں بڑھتے ہوئے خطرات دیکھ رہے ہیں۔‘

’ہم یہاں بہت ساری آفات دیکھنے جا رہے ہیں۔‘

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)