لندن سے ہانگ کانگ تک جائیدادیں اور پرائیویٹ جیٹ: ایک آمر کی بیٹی نے لاکھوں ڈالرز کی جائیداد کیسے بنائی؟
- اینڈی ورائٹی
- معاشی نمائندہ، بی بی سی
ایک حالیہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک آمر کی بیٹی نے بطور ایک پاپ سٹار اور سفارتکار کام کرتے ہوئے لندن سے ہانگ کانگ تک جائیدادوں کی خریداری پر 240 ملین ڈالر خرچ کیے۔
’فریڈم فار یوریشیا‘ کی تحقیق کے مطابق گلنارا کریمووا نے رشوت اور بدعنوانی کے ذریعے حاصل کیے جانے والے فنڈز سے گھر اور جیٹ طیارہ خریدنے کے لیے برطانیہ کی کمپنیوں کا استعمال کیا ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ لندن اور برٹش ورجن آئی لینڈ کی اکاؤنٹنگ کمپنیوں نے اس سودے میں شامل برطانوی کمپنیوں کے لیے کام کیا ہے۔
یہ کہانی غیر قانونی دولت سے نمٹنے کی برطانیہ کی کوششوں کے بارے میں تازہ شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔
برطانوی حکام پر طویل عرصے سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ انھوں نے بیرون ملک مقیم مجرموں کو برطانیہ میں جائیداد خریدنے میں منی لانڈرنگ کے استعمال کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گلنارا کریمووا نے جس آسانی سے برطانیہ میں جائیداد حاصل کی وہ ’باعث تشویش‘ ہے۔
اس بات کی جانب بھی کوئی اشارہ نہیں ہے کہ ان سے منسلک کمپنیوں کے لیے کام کرنے والوں کو اس سے ان کے کسی تعلق کا علم تھا اور نہ ہی فنڈز کا ذریعہ مشکوک تھا۔ گلنارا کو برطانیہ میں خدمات فراہم کرنے والی کسی بھی کمپینی کے خلاف تفتیش یا جرمانہ نہیں کیا گیا ہے۔
ایک وقت تک گلنارا کریمووا کو اپنے والد اسلام کریموف کا جانشین بتایا جا رہا تھا جنھوں نے 1989 سے 2016 میں اپنی موت تک وسطی ایشیائی ریاست ازبکستان کے صدر کے طور پر حکومت کی۔ گلنارا ’گوگوشا‘ کے نام سے پاپ ویڈیوز میں نظر آئیں۔ اس کے علاوہ ان کی جواہرات کی کمپنی بھی رہی ہے اور انھوں نے سپین میں بطور سفیر خدمات انجام دی ہیں۔
لیکن پھر سنہ 2014 میں وہ عوام کی نظروں سے غائب ہو گئیں۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ انھیں اپنے والد کے دور حکومت میں ہی بدعنوانی کے الزام میں حراست میں لیا گیا جبکہ دسمبر 2017 میں انھیں سزا بھی سنائی گئی۔ 2019 میں انھیں نظر بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر جیل بھیج دیا گیا۔
استغاثہ نے ان پر مجرمانہ کاموں میں ملوث گروہ کا حصہ ہونے کا الزام لگایا۔ یہ گروہ برطانیہ، روس اور متحدہ عرب امارات سمیت 12 ممالک میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے اثاثوں کو کنٹرول کر رہا تھا۔
فریڈم فار یوریشیا کی رپورٹ پر تحقیق کرنے والوں میں سے ایک آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو ٹام مے کا کہنا ہے کہ گلنار کریمووا کا کیس اب تک کے سب سے بڑے رشوت ستانی اور بدعنوانی کے مقدمات میں سے ایک ہے۔
تاہم گلنارا کریمووا اور ان کے ساتھیوں نے مبینہ طور پر بدعنوانی والے فنڈز سے حاصل کردہ کچھ جائیدادیں پہلے ہی فروخت کر دی تھیں۔
فریڈم فار یوریشیا نے کم از کم 14 جائیدادوں کی نشاندہی کرنے کے لیے جائیداد اور لینڈ رجسٹری کے ریکارڈ پر تحقیق کی اور ان کے مطابق گلنارا کی گرفتاری سے قبل مبینہ طور پر مشکوک فنڈز سے برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، فرانس، دبئی اور ہانگ کانگ میں جائیدادیں خریدی گئی تھیں۔
منگل یعنی 14 مارچ کو شائع ہونے والی رپورٹ کا عنوان ’وھو اینیبلڈ دی ازبک پرنسس‘ ہے۔ اس میں لندن اور اس کے آس پاس خریدی گئی پانچ جائیدادوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور ایک اندازے کے مطابق ان کی مالیت 50 ملین پاؤنڈ بتائی جاتی ہے۔
ان پانچ جائيدادوں میں بکنگھم پیلس کے بالکل مغرب میں واقع بیلگراویا میں تین فلیٹ، مے فیئر میں ایک گھر اور 18 ملین پاؤنڈ کا سرے میں مینور ہاؤس جس میں ایک نجی بوٹنگ جھیل بھی شامل ہے۔
کریمووا کو حراست میں لیے جانے سے قبل بیلگراویا کے دو فلیٹ سنہ 2013 میں فروخت کر دیے گئے تھے۔ سنہ 2017 میں مے فیئر والے گھر، سرے مینشن اور بیلگراویا والے تیسرے فلیٹ کو سیریئس فراڈ آفس نے منجمد کر دیا تھا۔
فریڈم فار یوریشیا کی رپورٹ میں لندن اور برٹش ورجن آئی لینڈز کی فرموں کا بھی نام لیا گیا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ کریمووا یا ان کے ساتھیوں نے جرائم سے حاصل ہونے والی آمدنی کو جائیدادوں کے ساتھ ساتھ نجی جیٹ لائنر خریدنے پر بھی استعمال کیا۔
کریمووا کے بوائے فرینڈ رستم مدومعروف اور دیگر افراد کو، جن پر اب ان کے ساتھی ہونے کا الزام لگایا گیا ہے، سرکاری دستاویزات میں انھیں برطانیہ، جبرالٹر اور برٹش ورجن آئی لینڈ میں موجود کمپنیوں میں ’فائدہ مند مالکان‘ (یہ ایک قانونی اصطلاح ہے جو اس شخص کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کے کنٹرول میں جائيداد ہو) کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
بہرحال رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ کریمووا کے صرف پراکسی تھے، جنھوں نے ان فرموں کو لاکھوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا۔
کریمووا سے منسلک برطانیہ کی دو کمپنیوں پینالی لمیٹڈ اور اوڈنٹن مینجمنٹ لمیٹڈ کو ایس ایچ لینڈز ایل ایل پی نے اکاؤنٹینسی خدمات کی تھیں جو کہ پہلے لندن کی نیو آکسفورڈ سٹریٹ پر ہوا کرتی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
جولائی سنہ 2010 کے آخر میں ایس ایچ لینڈز نے ایک دوسری کمپنی کو رجسٹر کرنے یا حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کا مقصد تقریباً 40 ملین ڈالر میں ایک نجی جیٹ خریدنا تھا اور اس کا مالک مدومعروف کو قرار دیا گیا تھا۔ لیکن رپورٹ کے مطابق در حقیقت کریمووا ہی اس خریداری کے پیچھے تھیں۔
جب ان کے فنڈز کے ذرائع کے بارے میں پوچھا گیا تو ایس ایچ لینڈز نے جواب دیا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال میں ان کی ذاتی دولت سے متعلق سوال متعلقہ نہیں ہے۔ ایسا بظاہر اس لیے تھا کہ جیٹ خریدنے کے لیے رقم مدومعروف نے اپنے ذاتی فنڈز سے فراہم نہیں کی تھی۔‘
لندن میں قائم فرم نے بعد میں کہا کہ مدومعروف کی دولت جزوی طور پر ازبکستان میں واقع ایک موبائل فون کمپنی ازدونروبیتا سے آئی تھی۔ کریمووا سے اس کمپنی کے ممکنہ روابط کے بارے میں پہلے ہی سوالات اٹھائے گئے تھے۔
سنہ 2004 میں ماسکو ٹائمز کے ایک مضمون میں الزام لگایا گیا تھا کہ کریمووا نے جعلی رسیدوں کے ذریعے ازدونروبیتا سے تقریباً 20 ملین ڈالر نکالے تھے۔ ایک سابق مشیر نے کریمووا پر ’ریکیٹیرنگ‘ کا الزام بھی لگایا تھا۔
چونکہ یہ ایک بڑی رقم کا لین دین تھا جو ایک بڑے خطرے والے ملک ازبکستان سے منسلک تھا اس لیے رپورٹ کا استدلال ہے کہ ایس ایچ لینڈز کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ فنڈز کا ذریعہ جائز ہے اور مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل نہیں کیا گیا ہے اسے ’زیادہ مستعدی‘ کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔
ایس ایچ لینڈز نے پینلی لمیٹڈ کے لیے سنہ 2012 کے مالیاتی گوشوارے بھی جمع کرائے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ستمبر 2013 میں کریمووا کے ایک قریبی ساتھی گیانے آواکیان نے ان پر دستخط کیے تھے۔ اس وقت گیانے کی عمر 30 سال تھی۔
پچھلے سال بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں اواکیان جبرالٹر میں رجسٹر کمپنی تاکیلینٹ کے بینیفیشیل مالک تھے اور یہ کمپنی ازبیکستان میں ’کئی کروڑ ڈالر کے فراڈ اور بدعنوانی‘ کے مرکز میں تھی۔
ایک بیان میں سٹیون لینڈس نے بی بی سی سے بتایا کہ ’ایس ایچ لینڈز ایل ایل پی کی کبھی گلنارا کریمووا سے ربط نہیں رہا۔ ایس ایچ لینڈز ایل ایل پی نے رستم مدومعروف کے لیے کام کیا تھا۔‘
’ایس ایچ لینڈز ایل ایل پی نے اپنے تمام کلائنٹس پر کو باریکی سے دیکھا ہے اور متعلقہ ریگولیٹری حکام کو مطلع کیا ہے اور انھیں اس سے باخبر رکھا ہے۔‘
فریڈم فار یوریشیا کے ٹام مین نے کہا کہ کریمووا جس آسانی سے برطانیہ میں اتنی زیادہ جائیداد خریدنے میں کامیاب ہوئیں وہ باعث تشویش ہے۔
انھوں نے مزید کہا: ’حکام کو کچھ بھی کرنے میں 2017 تک وقت لگا جبکہ اس کے کئی سال پہلے ہی دوسرے ممالک نے ان کے بینک اکاؤنٹس اور جائیدادیں منجمد کر دی تھیں۔‘