ہمیں پتا ہے کہ پہلا پہلا پیار کتنی شدت سے ہوتا ہے۔ لوگ اس میں کتنے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ہم نے (ڈرامے میں) لڑکےاور لڑکی کی پہلی محبت کو پیش کیا ہے، جس میں بہت شدت ہے۔‘
یہ الفاظ اداکار خوشحال خان کے ہیں جو پاکستانی ڈرامہ سیریل ’محبت گمشدہ میری‘ میں صائم کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اُن کا یہ ڈرامہ آج کل یوٹیوب پر ٹرینڈ کرنے والے ڈراموں میں شامل ہے۔
ڈرامہ کی کہانی دو نوجوانوں صائم اور زوبیہ کی دوستی اور محبت کے گرد گھومتی ہیں۔ ڈرامہ میں خوشحال خان کے ساتھ دنانیر مبین، فرح حُسین، علی طاہر، نورین گُلوانی، عائشہ طور، لیلی زبیری اور عمیر رانا وغیرہ نے کام کیا ہے۔
’صائم کے رویے کو مرد سمجھ پائیں گے‘
خوشحال خان بلاشبہ اُن باصلاحیت فنکاروں میں شامل ہیں جنھوں نے انڈسٹری میں قدم رکھنے کے چند سال کے اندر اپنی ایک منفرد پہچان بنا لی ہے، یقیناً اس کا کریڈٹ اُن کے ٹیلنٹ اور محنت کے ساتھ ساتھ اُن پراجیکٹس کو جاتا ہے جن کا چناؤ خوشحال نے کیا۔
’محبت گمشدہ میری‘ بھی ایسا ہی پراجیکٹ ہے جس کے بارے میں بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ ’ایک ینگ لو سٹوری تھی۔۔۔ مثال کے طور پر اسے رومیو اور جولیٹ کہہ سکتے ہیں۔ یہ بہت تفریحی ٹیک تھا اور مجھے کردار بہت اچھا لگا۔‘
انھوں نے اپنے کردار صائم کی محبت میں شدت اور جنونیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کچھ بھی مبالغہ آرائی کی حد تک نہیں ہے۔ یہ چیزیں حقیقت میں ہوتی ہیں۔ اس میں شدت ہے، بچپنا ہے، تھوڑا جارحانہ پن ہے۔ میں کہوں گا کہ یہ آج کے اور اس نسل کے رومیو اور جولیٹ ہیں، (اور اس ڈرامے کو) اُن کا دیسی ورژن کہوں گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں بھی صائم جیسے کردار دیکھے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میرا ماننا ہے کہ ہر انسان جب عمر کے اس حصہ سے گزر رہا ہوتا ہے تو اُس میں صائم والی چیزیں ہوتی ہیں۔ میں خود بھی اور میرا خیال ہے جو لوگ دیکھ رہے ہیں وہ بھی اس سے ریلیٹ کر پائیں کہ کتنی جنونیت ہوتی ہے۔ مرد سمجھ پائیں گے اگر وہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ سمجھ پائیں گے کہ صائم کہاں سے آ رہا ہے، یا اُس کا جو رویہ ہے وہ ایسا کیوں ہے۔‘
لگے ہاتھوں میں نے پوچھ لیا کہ کیا خوشحال کو کبھی صائم جیسی محبت ہوئی تو تھوڑا جھجھکتے اور مسکراتے ہوئے بولے کہ ’نہیں مجھے کام سے محبت ہوتی ہے۔ میں محبت پر بہت پختہ یقین رکھتا ہوں، لیکن میری ساری توجہ کام کی طرف ہے۔‘
’ڈرون کھجوریں نہیں اٹھا پا رہا تھا‘
’محبت گمشدہ میری‘ میں خوشحال خان کے مقابل اداکارہ دنانیر مبین نے کام کیا ہے۔ شائقین کو سکرین پر اِن دونوں کی جوڑی بے حد اچھی لگ رہی ہے اور ناقدین کا ماننا ہے کہ ٹین ایج یعنی نوجوانی کی محبت کی اِس کہانی میں یہ دونوں اداکار عمر کے لحاظ سے انتہائی فِٹ بیٹھتے ہیں۔
خوشحال کے بقول وہ اور دنانیر انڈسٹری میں آنے سے پہلے یعنی سکول کالج کے زمانے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور دوست ہیں اور یہی دوستی سکرین پر بھی اچھے طریقے سے نظر آ رہی ہے۔
’کیونکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کمفرٹیبل ہیں، (چنانچہ) کام کرتے وقت آئیڈیاز دے رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کر کے کچھ نہ کچھ جادوئی سا نکل آتا ہے۔‘
انھوں نے اسی سیٹ سے رمضان کے دوران پیش آنے والا ایک واقعہ بتایا کہ وہ اسلام آباد میں پہاڑوں پر شاہ اللہ دتہ کے غاروں کے قریب زپ لائن پر ایک سین شوٹ کرنے کے بعد پہاڑ پر چڑھ گئے۔ اُن کی دیکھا دیکھی دنانیر بھی اپنا سین شوٹ کروا کے پہاڑ پر چڑھ گئیں۔
’نیچے سے مجھے ہلکی سی چیخنے کی آواز آتی ہے ’خوشحال‘۔ میں نے نیچے دیکھا تو جینا (دنانیر) چیونٹی کی طرح اوپر آ رہی ہے۔ اکیلے ہی اُس پہاڑ پہ جو سیدھا سیدھا تھا اور درخت و جھاڑیاں وغیرہ لگی ہوئی تھیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’اوپر پہنچے تو اندھیرا ہو رہا تھا تو ہم نے کال کی کہ آپ ڈرون سے اگر کوئی کھجوریں بھیج سکیں تو ہم روزہ وہیں پر کھول لیں۔ ہم نے روزہ نہیں کھولا کیونکہ ڈرون کھجوریں نہیں اٹھا پا رہا تھا۔ ہم نیچے آئے اور پھر ہم نے روزہ کھولا پھل وغیرہ کے ساتھ اور پھر ہم واپس گئے۔‘
انھوں نے ڈائریکٹر شاہد شفاعت کے بارے میں بتایا کہ ’وہ کہتے ہیں کہ آ جاؤ گیسٹ ہاؤس میں، تو سب ایک ساتھ مل کے کھانا بنا رہے ہوتے ہیں۔ دنبہ بناتے ہیں جو کہ ہمیں بہت پسند ہے۔ وہ اس طرح ہماری آؤ بھگت کرتے ہیں جو کہ بڑی ہی شاندار بات ہے۔‘
’میں رونے کے لیے وکس اور گلیسرین نہیں لگا سکتا‘
،تصویر کا ذریعہHUM TV
’محبت گمشدہ میری‘ میں خوشحال کی اداکاری کافی حد تک نیچرل نظر آتی ہے یا یہ کہیے کہ عام نوجوانوں میں اُن جیسی حرکات و سکنات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثلا زوبیہ کو اپنی محبت کےبارے میں بتانے سے صائم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر پہلے تیاری کرتا ہے اور خود کلامی کرتا ہے۔ خوشحال کہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔
’یہ چیزیں میں خود کرتا ہوں اپنے لیے۔عام طور پر (ڈراموں میں ) بیک گراؤنڈ میں جو وائس اوورز چلتے ہیں اُن کی جگہ ہم نے بول دیا اُس کو اُسی وقت۔ یہ زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ لگی۔‘
خوشحال بتاتے ہیں کہ اُن کے لیے جذباتی سین کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ انھیں مصنوعی انداز سے نہیں کر سکتے اور ایسے مناظر کےلیے اُنھیں اکیلے وقت درکار ہوتا ہے۔
’میں رونے کے لیے آنکھوں میں وکس اور گلیسرین نہیں لگا سکتا تو مجھے کوئی دس، پندرہ منٹ اپنے لیے چاہیے ہوتے ہیں۔ مجھ سے کوئی بات نہ کرے اور میں ایک کونے میں اندھیرے میں بیٹھ کر یا باتھ روم میں خود کو بند کر لیتا ہوں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’میں سکرپٹ کو یاد کرتا ہوں کہ کیا کیا چیزیں صائم کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ کس وجہ سے یہ رو رہا ہے۔ اس سین کا جواز کیسے نکالا جائے۔ اس میں کتنا رونا ہے، کتنا نہیں رونا ہے، رونا بھی ہے کہ نہیں رونا ہے۔‘
’محبت گمشدہ میری‘ میں ایک اچھی بات اُس کی فریش لوکیشن اور کیمرہ ورک ہے۔ حال ہی کی ایک قسط میں صائم اور زوبیہ کو اسلام آباد کی سڑکوں پر ہیوی بائیک چلاتے دیکھا گیا۔ اسی بارے میں خوشحال نے بتایا کہ ’ہم بس انجوائے کر رہے تھے اور وہ شاٹس لے رہے تھے۔ تو ہمارا بھی کام نکل گیا اُن کا بھی کام بن گیا۔‘
خوشحال نے خدا کا شکر ادا کیا کہ شائقین کو ان کا کام اور ڈرامہ پسند آ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ہمارے ڈرامے کا جو پیغام ہے وہ ہے محبت اور پیار، اور ہم اُس سے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ وہ آخر تک وہی ہے۔ سب نے جان ماری ہے۔‘
اُن کے بقول ’ناظرین کو کیمسٹری بہت اچھی لگ رہی ہے۔ ایکٹنگ اچھی لگ رہی ہے اور جو منظر کشی ہیں وہ چیز اُن کو بہت اچھی لگ رہی ہے، اُن کو متاثر کر رہی ہے اور سب سے اہم بات کہانی اچھی لگ رہی ہے۔‘
ماہرہ خان سے پہلی ملاقات: ’انھوں نے مجھے بُزرگوں والی عزت دی‘
خوشحال خان کے بقول انڈسٹری میں آنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے جس میں موقع ملنے سے لے کر قسمت اور ٹیلنٹ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اُن کے خیال میں جگہ بنانے کے لیے بے حد محنت درکار ہوتی ہے۔
انھوں نے پاکستان کی سپر سٹار ماہرہ خان کے ساتھ تھری سٹار جنرل نگار جوہر کی زندگی پر بننے والی ٹیلی فلم ’ایک ہے نگار‘ میں بھی کام کیا ہے۔ ماہرہ کے ساتھ اُن کی پہلی ملاقات کافی دلچسپ رہی۔
’میں اُس وقت اپنے پہلے پراجیکٹ ’قصہ مہر بانو‘ کا کام کر رہا تھا۔ جس دن میں لُک ٹیسٹ کے لیے گیا اُسی دن ماہرہ نے آنا تھا۔ ٹیسٹ میں مجھے ضعیف العمر دِکھانا تھا جس کے لیے مجھے مونچھیں وغیرہ لگا کے میک اپ اور گیٹ اپ کیا ہوا تھا سارا۔ جب میں لک دِکھانے کے لیے کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ماہرہ بیٹھی تھیں۔ میں نے سلام کیا تو وہ اُٹھ گئیں کہ بیٹھیں آپ۔ انھوں نے مجھے بُزرگوں والی عزت دی۔ میں نے کہا ’خوشحال‘ اور مونچھیں ہٹا کے کہا کہ دیکھیں یہ میں ہوں۔ وہ کہنے لگیں کہ میں آپ کو اس حُلیے کے ساتھ پہچان ہی نہیں پائی۔‘
خوشحال نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ’ میری پہلی ملاقات تھوڑی سی عجیب تھی لیکن اُس کے بعد پورے سیٹ پر وہ بہت خیال رکھتی تھیں، وہ مجھے بچے کی طرح ٹریٹ کرتی تھیں۔ جو مجھے بڑا پسند آتا ہے۔‘
’اس سے گھٹیا نہیں ہو سکتا، اتنی گندی اداکاری، اتنی بُری شکلیں بنا رہے ہو‘
،تصویر کا ذریعہHUM TV
نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ خوشحال نے لگ بھگ ساڑھے تین سال پہلے میڈیا میں قدم رکھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ بچپن میں والدہ سے چھپ کرفلمیں دیکھنے کا شوق پورا کیا کرتے تھے۔ اُن کے خیال میں وہ مزاج میں شرمیلے ہیں لیکن اداکاری کی طرف آنے سے پہلے اُنھیں یقین تھا کہ وہ کچھ کر جائیں گے کیونکہ وہ ماڈلنگ کرتے آ رہے تھے۔
’مجھے ہرگز یہ نہیں پتا تھا کہ اتنا مشکل ہوتا ہے۔ سکرین پر آیا تو رونے والی حالت ہو رہی تھی کہ شاید اداکاری میرے لیے نہیں ہے۔ میں جس پس منظر سے آیا ہوں، میں تو بہت دب کے رہنے والا شرمیلا سا ہوں، چوں بھی نہ کروں میں کسی کے سامنے، اور پوری کاسٹ اور کریو کے سامنے اتنا سب کچھ کھول کے سامنے رکھنا۔۔ یہ کیسے کروں؟ لیکن اُن تیس سیکنڈز کے بعد میں نے کہا کہ نہیں اب تو ہو گیا ہے اور اب کرنا ہے اور پورے طریقے سے کرنا ہے۔‘
جیسے ہی میں نے پوچھا کہ پہلی بار خود کو سکرین پر دیکھ کے اُنھیں کیسا لگا تو برجستہ بولے۔ ’میں نے کہا کہ اس سے گھٹیا نہیں ہو سکتا ۔اتنی گندی ایکٹنگ، اتنی بُری شکلیں بنا رہے ہو۔ مجھے خود پر غصہ چڑھ رہا تھا۔ میں نے کہا یہ میں کر کیا رہا ہوں۔‘
خوشحال نے بتایا کہ وہ کبھی ایکٹنگ سکول نہیں گئے۔ البتہ میڈیا میں آنے سے پہلے وہ بزنس کی تعلیم حاصل کرنے کا ادارہ رکھتے تھے اور جلد ہی اپنا بی بی اے مکمل کر لیں گے۔
’مجھے تھا کہ اپنا کاروبار کرنا ہے اور میں نے اُس کے ساتھ مختلف نوکریاں بھی کی ہیں۔ میں نے کافی عرصے کے لیے کال سینٹر میں کام کیا تھا، سکول میں پڑھایا تھا جس میں اکثر چپڑاسی والے کام کرنے پڑتے تھے کہ مارکیٹ سے چارٹس اور چیزیں لے کے آؤ، اِس کے علاوہ کُرم میں سیزن کے دوران تمباکو کی فیکٹری میں مہینہ دو مہینہ نوکری کی تھی۔ یہ میں اس لیے کرتا تھا کہ مجھے آڈیشنز اور دیگر کاموں کے لیے پیسے مل جائیں۔‘
خوشحال نے اُس دور کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’مزے کا دور تھا ابھی بھی یاد آتا ہے۔ سادہ وقت تھا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کوئی چیز نہیں بدلی۔‘