Generation Gap

0

جنریشن گیپ


(محمد عارف قریشی)

میرا بیٹا تو مجھے گھر سے نکالنے پر مُصر تھا لیکن بہو نے رازدارانہ لہجے میں اُس سے کہا ’’منے کو بہلانے کیلئے نوکر رکھنے سے بہتر ہے اس بڈھے کو ہی گھر میں پڑا رہنے دو، دو وقت کی روٹی ہی کھائے گا ناں اور چھ ماہ میں ایک جوڑا کپڑے، بلکہ اس کا کام تو تمہاری اترن سے ہی چل جائے گا۔ ہر ماہ تنخواہ کا مطالبہ تو نہیں کرے گا۔ ‘‘اور میرے بیٹے نے اپنی بیوی کی سفارش پر نوکر کی جگہ مجھے گھر میں رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ اب میں سارا دن پوتے کو اٹھاے پھرتا ہوں اور شام کو سٹور میں پڑ رہتا ہوں۔اس کے بدلے مجھے دو وقت کی روٹی اور چھ ماہ میں ایک جوڑا کپڑے مل جاتے ہیں۔ میں نے بھی اس لیے بیٹے اور بہو کی نوکری قبول کر لی ہے کہ ناکرتا تو جانے قسمت کہاں لے جاتی اور پھر میں بیٹے اور پوتے کو دیکھنے سے بھی محروم ہوجاتا۔ 

بوڑھے نے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو پونچھتے ہوئے اپنی مختصر کہانی ختم کی تو میں سوچنے لگا کہ آج کی نوجوان نسل اپنے بزرگوں سے اتنی بے زار کیوں ہے؟ کوئی ان کے کھانسنے اور جگہ جگہ تھوکنے پر معترض ہے ،کوئی ان کے بات بات میں مشورے دینے سے تنگ ہے ،کسی کو ان کے آمرانہ روّیے سے چڑہے۔ حالانکہ کھانسنا اور تھوکنا بالکل فطری ہے ۔بات بات پر مشورے دینا ان کا حق ہے اور آمریت ان کی روایت ہے۔ 

مغربی مفکرین اس صورتحال کو جنریشن گیپ کا نام دیتے ہیں لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اس کا علاج کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔ گویا ایک ناگزیر برائی کے طور پر اسے قبول کرلیا گیا ہے۔ اور مغرب نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ انہوں نے جگہ جگہ Old Peoples Home بنا دیئے ہیں۔ جہاں بزرگوں کو پھینک کر وقتی طور پر ان سے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ 

دو نسلوں کے درمیان نظریاتی خلیج ایک قدرتی بات ہے لیکن موجودہ صدی میں یہ خلیج بہت وسیع ہوگئی ہے۔ دراصل جدید سائنس نے اپنی نوع بہ نوع ایجادات سے انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ اب زیست کی اقدار پہلے کی نسبت بہت بدل گئی ہیں۔ آج اگر سو سال پہلے کا کوئی شخص جی اٹھے تو وہ اس زمین پر اس طرح حیران و پریشان پھرے گا جیسے وہ کسی دوسرے سیارے پر آنکلا ہو۔ ماضی کے مقابلے میں انسان کی زندگی اس قدر پُر تعیش اور مصروف ہو گئی ہے کہ گزرا ہوا زمانہ ایک خواب لگتا ہے۔ کچھ عرصہ بیشتر جو  تعیشات تھیں وہ آسائشات میں بدل گئی ہیں اور آسائشات ضروریات بن گئی ہیں۔ اس لیے انسان کی مصروفیات کا بھی شمار نہیں رہا۔ پہلے پورا خاندان ایک شخص کی کمائی پر پلتا تھا ۔جبکہ آج گھر کا ہر فرد کمانے والا ہے پھر بھی ہر گھر میں چخ چخ رہتی ہے۔اس کیفیت نے بڑے بوڑھوں کو ذہنی طور پر منتشر کر دیا ہے۔وہ اپنے دور کے مطابق زندگی گزارنے کے عادی تھے لیکن اس دور کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ چنانچہ وہ خود کو اس ماحول میں ڈھالنے پر آمادہ نہیں پاتے اس لیے بچوں کا نت نئے فیشن کرنا ،رات گئے تک گھر سے باہر رہنا ،اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا اور بزرگوں کی ضروریات کا خیال نہ رکھنا انہیں پسند نہیں۔ وہ وقت بے وقت اس پر اعتراض کرنے سے نہیں چوکتے مگر نئی نسل کی مشکل یہ ہے کہ وہ جدید دور کا ساتھ دینے پر مجبور ہے۔ ورنہ اسے جاہل، گنوار اور بیک ورڈ قسم کے خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی اس مشکل کا سہارا لے کر اپنی روایات کے امین بزرگوں کی نافرمانی کرے اور انہیں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر اپنے گھروں میں ان کا وجود بھی برداشت نہ کر سکے۔کتنا ستم ہے کہ ایک باپ تو دس بچوں کو پال لیتا ہے مگر دس بچے مل کر ایک باپ کو نہیں پال سکتے۔ اس دور کی تعمیر میں بہرحال ان بزرگوں کا بھی حصہ ہے بلکہ وہ تمام درخت جن کا ہم پھل کھارہے ہیں انہی کے لگائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ہمیں پال پوس کر جوان کیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں زندگی کی پُر پیچ راہوں پر سنبھل سنبھل کر چلنے کا شعور بھی دیا ہے۔ 

حاصلِ کلام بزرگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس دور کا مقابلہ اپنے دور سے نہ کریں۔ آج کی روایات اور اقدار ماضی سے بالکل مختلف ہیں۔ اس لیے انہیں بقول خلیل جبران صرف اپنے ورثے اپنی اولاد کو منتقل کرنے چاہیں اپنے خیالات نہیں کیونکہ وہ دوسرے دور کی ترجمان ہوگی۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)