جہاز رانی سمندر میں بنائی ویڈیوز
’ہفتوں، مہینوں سمندر میں گھر والوں سے دور کام کرتے ہوئے گزارنے پڑتے ہیں۔ اس دوران ہر کوئی کچھ نہ کچھ ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے میں نے اپنے لیے ایک مثبت سرگرمی تلاش کی۔ فارغ وقت میں ویڈیوز بناتا ہوں اور اپ لوڈ کردیتا ہوں۔ جس سے لوگوں کو اچھی معلومات بھی ملتی ہیں اور میں بھی مصروف رہتا ہوں۔‘
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی کے رہائشی انور علی سمندر، سمندری سفر، جہاز رانی، کے حوالے سے بنائی گئی اپنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی وجہ سے زیر بحث ہیں۔
انور علی تقریباً چودہ سال سے جہاز رانی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کے آباؤاجداد کا تعلق تو سوات سے ہے مگر ان کی اپنی پیدائش کراچی میں ہوئی۔ پشتو روانی سے بول لینے کے باوجود وہ خود کو ’کراچی والا‘ ہی کہتے ہیں۔
انور علی کہتے ہیں کہ جب انھوں نے پہلی ویڈیو بنائی تو انھیں امید نہیں تھی کہ لوگوں کا اتنا اچھا رد عمل آئے گا۔‘
’میری ایک ایک ویڈیو پر لاکھوں ویوز ہوتے ہیں‘
انور علی کہتے ہیں کہ سی مین کو جہاز رانی کے دوران اپنے لیے مثبت سرگرمیاں تلاش کرنی چاہیے۔
’فرائض ادا کرنے کا تو ایک وقت ہوتا ہے۔ اس وقت کے بعد تو بندہ فارغ ہوتا ہے۔ فارغ وقت میں تاحد نگاہ سمندر ہو اور کئی کئی دن سے ایک جیسے لوگ سامنے ہوں تو ہر بندہ اکتا جاتا ہے۔‘
انور علی کا کہنا تھا کہ سمندری سفر کے دوران مختلف مسائل سے واسطہ پڑتا ہے۔ ’کبھی کبھی طوفان بھی گھیر لیتے ہیں اور یہ کئی کئی دن تک رہتے ہیں۔ اس طوفان کے بھی لوگوں پر مختلف اثرات ہوتے ہیں مگر وہ لوگ ان مشکلات وغیرہ سے کم متاثر ہوتے ہیں جو میری طرح مثبت سرگرمیاں تلاش کر لیتے ہیں۔‘
انور علی نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے سنہ 2019 میں ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانا شروع کی تھیں۔ ’میری ایک ایک ویڈیو پر لاکھوں ویوز ہوتے ہیں۔ میری سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیو روس سے جنوبی کوریا جاتے ہوئے بنائی گئی تھی۔
انورعلی کا کہنا تھا کہ جہاز کا وزن زیادہ تھا، جس وجہ سے وہ تھوڑا سمندر کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔
’اتوار کا دن تھا کوئی ایمرجنسی بھی نہیں تھی۔ ٹھنڈ تو تھی مگر موسم بہت پیارا تھا۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ جہاز پر پانی کی ایک لہر آرہی ہے۔ وہ لہر آئی اور پھر چلی گئی، میں نے اس کی ویڈیو بنائی اور اس کو اپ لوڈ کر دیا۔‘
’اس کو لوگوں نے دیکھا اور پسند کیا اور یہ ہی میری سب سے سپر ہٹ ویڈیو ہے۔ اصل میں یہ قدرت کے انمول نظارے کی ایک ویڈیو تھی، جس کو بہت پسند کیا گیا۔ ‘
’مجھے قدرت سے عشق ہے‘
انور علی کہتے ہیں کہ انھوں نے تقریباً چودہ سال کے دوران متواتر 37 دن تک سمندر کا سفر کیا تھا۔ یہ سفر برازیل سے شروع ہوا اور افریقہ جا کر ختم ہوا تھا۔
انور علی نے ہمیں بتایا کہ وہ اب تک 74 ممالک دیکھ چکے ہیں اور ایسا شاید کسی اور کام سے وابستہ شخص کے لیے ممکن نہیں۔
’اس طرح مجھے قدرت کی خوبصورتی دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ قدرت، قدرت کے نظارے اور خوبصورتی میری کمزوری ہے۔ مجھے ان سے عشق ہے۔ میں نے منفی تیس ڈگری اور پچاس ڈگری میں بھی وقت گزارا۔ یہ تجربات شاید صرف جہاز رانی سے وابستہ لوگوں ہی کو ہوتے ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کئی مرتبہ سفر کے دوران اتنے خوبصورت جزیرے، مچھلیاں اور حیران کن چیزیں دیکھیں کہ لمحوں کے لیے خود بھی دنگ رہ گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید مشکلات کے باوجود سی مین کا شعبہ میرے لیے بہت ہی اچھا رہا کہ مجھے سیر کرنے، قدرت کے نظارے دیکھنے اور پھر اس کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔‘
انور علی نے بتایا کہ انھوں نے ایک اور ویڈیو مغربی افریقہ میں بنائی۔ ’یہ بڑا ہی خوبصورت اور عجیب وغریب نظارہ تھا، میں نے اس مقام کے بارے میں سنا تو تھا لیکن دیکھا تو دنگ رہ گیا ۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ کھارا اور میٹھا پانی ہے۔ جس کے رنگ کچھ الگ سے نظر آتے ہیں مگر یہ کھارا اور میٹھا پانی آپس میں ملتے نہیں۔
انور علی کہتے ہیں کہ ایک اور ویڈیو بھی لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ ’یہ جنوبی بحر اوقیانوس کی ویڈیو ہے۔ اس میں بارش ہو رہی ہے، سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ واہ کیا نظارہ تھا۔ جو بھی اس ویڈیو کو دیکھتا ہے، دنگ رہ جاتا ہے۔ سمندر، بارش اور سیاہ بادل ساتھ ساتھ تھے۔‘
’معلومات بھی فراہم کرتا ہوں‘
انور علی کا کہنا تھا کہ اکثر لوگ ان سے مختلف معلومات بھی لیتے ہیں۔ ’جیسے سمندر میں راستہ کیسے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ وہ کیسے جہاز رانی کے شعبے میں داخل ہو کر دنیا کی سیر کر سکتے ہیں۔‘
انور علی کا کہنا تھا کہ جہاز رانی کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے، جس میں زندگی اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔
انور علی کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص یورپ میں اب خواتین بھی اس شعبے میں ہیں۔
’کچھ عرصہ قبل ہمارے پاس سے ایک جہاز گزر رہا تھا تو اس کی سیکنڈ کپتان خاتون تھی۔ اس کی ویڈیو بنائی تو وہ بھی بہت مشہور ہوئی تھی۔‘
انور علی کہتے ہیں کہ لوگ ان کی ویڈیوز دیکھ کر سمندر کی سیاحت کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں۔
’میرا خیال ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی سہولت نہیں حالانکہ دنیا بھر میں اس وقت سمندری سیاحت بہت ترقی کر چکی ہے۔ سیاحوں اور مسافروں کے لیے بڑے شاندار سمندری جہاز تیار ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان جہازوں میں ایک، دو، تین، دس اور پندرہ دن کی سیاحت بھی کی جا سکتی ہے۔
انور علی کہتے ہیں کہ ’لوگ اس میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں مگر پاکستان میں ایسا کچھ نہیں۔ پہلے حج کے لیے جہاز استعمال ہوتے تھے مگر کئی سال ہوئے وہ اب بھی ختم ہو چکے ہیں۔ اگر پاکستان میں سمندری سیاحت کی جائے تو اس سے ایک نئی صنعت پیدا ہو سکتی ہے۔‘