آئیے انٹرنیٹ کو استعمال کرکے پیسے کماتے ہیں
21 برس کی امینہ کہتی ہیں کہ ’آپ کیا سرچ کرنا چاہتے ہیں، اس کا انتخاب آپ خود کر سکتے ہیں۔ اکثر اوقات میں بھول جاتی ہوں کہ میرے براؤزر پر سرف آن ہے اور پھر ایک ہفتے بعد چیک کرنے پر میرے پوائنٹس بڑھتے ہی رہتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’تمام ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیاں ہماری معلومات اکٹھی کر رہی ہیں، لیکن اہم یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے تجربات کو بہتر بنایا جائے۔
ہم آن لائن جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اس کی تفصیلات ایک بہت اہم ذریعہ ہیں۔
اشتہارات کی مد میں یہ ڈیٹا گوگل اور فیس بک جیسی کمپنیوں کو سالانہ اربوں ڈالر کمانے میں مدد دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اس ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کو ان کی دلچسپی کے اشتہارات دکھاتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ ایک جینز خریدنے کے لیے آن لائن کوئی فیشن سٹور تلاش کر رہے ہیں تو تھوڑی دیر بعد آپ کو اپنے کمپیوٹر کی سکرین پر ڈینم کے اشتہارات نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
اس سے قطع نظر کہ ہم کیا خریدنے کا سوچ رہے ہیں یہ ہم سب کے ساتھ کئی بار ہو چکا ہے۔
آن لائن ہمیں کس حد تک ٹریک کیا جا رہا ہے اس کی تفصیلات پریشان کن ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یورپ میں رہنے والے کسی شخص کے انٹرنیٹ کے استعمال کا ڈیٹا ایک دن میں اوسطاً 376 مرتبہ شیئر ہوتا ہے۔ امریکہ میں رہنے والوں کے لیے یہ تعداد تقریباً دوگنا ہو کر 747 ہو جاتی ہے۔
لیکن اگر ایسا ہو جائے کہ آپ ناصرف اپنے شئیر کیے جانے والے ڈیٹا پر مزید کنٹرول حاصل کر سکیں بلکہ اس سے حقیقت میں پیسہ کما سکیں؟
سرف نامی کینیڈین ٹیک فرم نے یہ وعدہ کیا ہے، انھوں نے گذشتہ برس اسی نام کا ایک براؤزر ایکسٹینشن شروع کیا تھا۔ یہ کمپنی لوگوں کو انٹرنیٹ سرفنگ یعنی انٹرنیٹ کے استعمال پر انعامات سے نوازتی ہے۔.
ابھی اس کا ’بِیٹہ ورژن‘ یعنی یہ سروس محدود پیمانے پر لانچ کی گئی ہے اور یہ گوگل جیسے سرچ انجن کو چھوڑ کر صارفین کا ڈیٹا براہِ راست ریٹیل برانڈز کو بیچتا ہے۔ بدلے میں سرف آپ کو پوائنٹس دیتا ہے جنھیں بچا کر آپ گفٹ شاپ سے کچھ خرید سکتے یا ڈسکاؤنٹ حاصل کر سکتے ہیں۔
اب تک سائن اپ ہونے والی کمپنیوں میں فٹ لاکر، دی باڈی شاپ، کروکس اور ڈائیسن شامل ہیں۔
سرف کے مطابق تمام ڈیٹا نامعلوم طور پر شئیر کیا جاتا ہے اور آپ کا ای میل اور ٹیلی فون نمبر شیئر نہیں کیا جاتا، جب آپ سائن اپ کرتے ہیں تو آپ کو اپنا نام بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم یہ آپ کی عمر، جنس اور پتا پوچھتا ہے، لیکن یہ تفصیلات فراہم کرنا لازمی نہیں ہیں۔
خیال یہ ہے کہ برانڈز سرف کے فراہم کردہ اس ڈیٹا کو استعمال کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ دیکھنے کے لیے کہ لاس اینجلس میں 18 سے 24 سال کے مردوں میں سب سے زیادہ مقبول ویب سائٹس کون سی ہیں۔ اور پھر اس کے مطابق اپنے اشتہارات دے سکتے ہیں۔
صارفین براؤزنگ سے کتنے پیسے کما سکتے ہیں، سرف نے اس کی تفصیلات جاری نہیں کیں ہیں۔ لیکن کمپنی کا کہنا ہے کہ اب تک صارفین مجموعی طور پر 97000 ڈالر (77000 پاؤنڈ) سے زیادہ کمانے کے قابل ہوئے ہیں۔
صارفین سرف کا استعمال اس چیز کو محدود کرنے کے لیے بھی کر سکتے ہیں کہ وہ کون سا ڈیٹا شیئر کر رہے ہیں، مثلاً وزٹ کی جانے والی کچھ ویب سائٹس کے بارے میں معلومات کو بلاک بھی کیا جا سکتا ہے۔
یارک یونیورسٹی کی طالبہ امینہ النور ایک سرف صارف ہیں، امینہ کا کہنا ہے کہ انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ایکسٹینشن نے انھیں اپنے آن لائن ڈیٹا پر ’کنٹرول واپس‘ دے دیا ہے۔
سرف کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو سوئش گوسوامو کا کہنا ہے کہ فرم ’انٹرنیٹ براؤزنگ پر انعامات‘ کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں ’پہلے دن سے ہم صارفین کو واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ ہم کیا شیئر کر رہے ہیں اور کیا نہیں، ہم انھیں اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنے ڈیٹا کو کنٹرول کر سکیں۔‘
’میرے خیال میں اگر آپ لوگوں کو اصل حقیقت بتاتے ہیں کہ آپ ان کا ڈیٹا برانڈز کے ساتھ شئیر کر رہے ہیں اور ایسا انھیں گمنام رکھتے ہوئے کر رہے ہیں اور انھیں اس کے کوئی منفی اثرات نہیں جھیلنا پڑیں گے کیونکہ ہمارے پاس ان کا پہلا یا آخری نام نہیں ہے، تب لوگ ’ہاں‘ کہنے اور ہمارے ساتھ زیادہ سے زیادہ شئیر کرنے میں اطمینان محسوس کرتے ہیں۔‘
سرف ایک ایسی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول دینا ہے اور ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین نے اسے ’ذمہ دار ٹیکنالوجی‘ کا نام دیا ہے۔
ایک اور ٹیک فرم کینیڈین سٹارٹ اپ ’ویورلی‘ ہے، جو صارفین کو گوگل اور ایپل نیوز کے ٹریکر اور ایڈورٹائزنگ پر مبنی الگورتھم پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی نیوز فیڈز کو خود بنانے کی اجازت دیتی ہے۔
ویورلی کا استعمال کرتے ہوئے آپ ان موضوعات کا انتخاب کر سکتے ہیں جن میں آپ کی دلچسپی ہو پھر اس کا آرٹیفیشل انٹیلیجنس سافٹ وئیر آپ کی دلچسپی کے حساب سے آرٹیکلز تجویز کرتا ہے۔ مونٹریال میں قائم اس فرم کے بانی فلپ بیوڈوئن ہیں جو پہلے گوگل میں انجنیئر تھے۔