Safety of Child's

 


عصر حاضر میں بچوں کی حفاظت کیسے کریں



 گزشتہ ایک دو سال سے معصوم بچوں /بچیوں کے ساتھ درندگی کے واقعا ت بہت زیادہ ہونے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرہ میں تشویش کی ایک خوفناک لہر پائی جاتی ہے۔ لمحہ فکریہ اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک مسلم معاشرہ ان شرمناک وقوعات کی زد میں ہے جہاں ایسے گھنائونے واقعات کا وقوع پذیر ہونا انتہائی اندوہناک امر ہے۔ قابل غوربات یہ ہے کہ ایسے واقعات اس طرح کثرت سے کیوں ہونے لگے ہیں ۔آئیے اس پہلو پر غور کرتے ہیں۔

٭سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت جہاں مدارس (سکولز) ،ٹیچرز کی ذمہ داری ہے وہاں سب سے اولین فرض والدین کا ہے۔ دورِ حاضر میں جب کہ میڈیا اپنے پوری آب و تاب کے ساتھ معاشرہ پر اپنے جملہ اثرات مرتب کرنے میں ہمہ وقت بر سرِ پیکار ہے اپنے معصوم بچوںاس کی منفی یلغار سے بچانا اور بہترین تربیت کرنا والدین خصوصاً والدہ کی ذمہ داری ہے ۔اسی لیے ماں کی گود کو اولاد کی پہلی درسگاہ کہا گیا ہے۔
٭ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سب سے پہلے آپ کو اپنے گھر اور گھر کے ماحول کا جائزہ لینا ہو گا ۔کہ آپ کے گھر کا ماحول ایسا ہے جس سے بچے کچھ اچھا سیکھ رہے ہیں کیوں بچے ہمیشہ اپنے والدین (بڑوں) سے سیکھتے ہیں اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں اس کا اثر جلد قبول کرتے ہیں۔ گھر میں لڑائی جھگڑا، آئے روز فتنہ فساد، ایک کچھائو تنائو کی کیفیت اور ایک دوسرے کے خلاف سرد جنگ جیسا ماحول اولاد کی ذہنی نشو و نما پر بہت برے اثرات مرتب کرتا ہے ۔


٭ والدین کی طرف سے بچوں کو مسلسل نظر انداز کرنا ،ان کی باتوں پر توجہ نہ دینا، ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو Ignoreکردینا اور ان کیلئے وقت نہ نکالنا ان کے ساتھ نہ بیٹھنا، گپ شپ نہ کرنا اور کھانا پینا وغیرہ جیسے تفریح کے مواقع بالکل مہیا نہ کرنے سے بچے اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگ جاتے ہیں جس سے ان میں احساس کمتری پیدا ہونے لگتا ہے اور ایک غیریقینی صورتحال کے تحت بے چینی، اضطراب اور اکتاہٹ کا شکار ہو کر بچے گھر سے باہر سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کئی خوفناک مسائل جنم لیتے ہیں۔اور اکثر اوقات ایسے معصوم، وحشت ناک درندوں اور معاشرہ کے ناسور ظالموں کا شکار ہو کرنہ صرف اپنی عزت و آبرو سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں بلکہ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
٭اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کو اپنے ملازمین یا دیگر رشتہ دار وغیر ہ کے پاس زیادہ وقت کیلئے چھوڑ ے رکھتے ہیں ان کے بچے صحیح تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں ۔
٭ بات بھی انتہائی قابل غو رہے کہ آپ دیکھیں آپ کے بچوں کا حلقہ احباب /دوست کیا ہے۔ کونسے لوگ ان کے دوستوں میں شامل ہیں ۔آپ کے بچوں کی دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ کونسی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ان امور پر نظر رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے ۔
٭ ایک ٹیچر کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کوتعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی تربیت پر بھی توجہ دے اور ان کے چال چلن پر بھی نظر رکھے خدانخواستہ کوئی کمی بیشی ہو تو فوراً والدین کو آگاہ کریں کہ آپ کے بچہ میں یہ عادات و اطوار ہیں یا یعنی وقت پرسکول نہیں آتا یا چھٹی سے پہلے سکول سے چلاجاتا ہے یا اس کے تعلقات آوارہ بچوں کے ساتھ بڑھ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ اگر ایک استاد صرف تعلیم اور ٹیوشن پر توجہ دیئے ہوئے اور وہ بچوں(طلبہ) کی تربیت صحیح نہیں کر رہا تو وہ بھی اپنے فرائض سے غفلت برت رہا ہے اور خیانت کررہا ہے جس کا اسے جوابدہ ہونا پڑے گا۔


٭ آج کے اس ملٹی میڈیا کے دور میں جبکہ کمیپیوٹر اور ٹی وی اور موبائلز وغیرہ ہر گھر بلکہ ہر ایک کے پاس دستیاب ہے دیکھنا ہو گا کہ تنہائی کے اوقات میں بچے اس میڈیا پر کیا کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اس میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جو کچھ آپ کے موبائل میں ہو گا وہ کچھ آپ کے بچے ضرور دیکھیں گے۔ اور اگر وہ اچھا دیکھیں گے تو اس کا اثر خود بخود اچھا ہو گا ورنہ بات بگڑسکتی ہے۔
٭ اولاد پر بے جا سختی اور ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ خصوصاً کسی رشتہ داروں یا ان کے دوستوں وغیر ہ کے سامنے اولاد کی بے عزتی کرنے سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے جس سے بظاہر تو بچے خاموش ہوجاتے ہیں مگر دل ہی دل میں جو لاوا پکتا رہتا ہے وہ ایک نہ دن خوفناک آتش فشاں بن کر پھٹ جاتا ہے جس کے اکثر مناظر آپ کی آنکھوں سے گزرے ہوں گے۔
٭اپنے بچوں کے اندر خوداعتمادی کو فروغ دیا جائے۔ ان کے ساتھ مشورہ کیا جائے ۔ان کی رائے لی جائے مختلف لوگوں کے متعلق دوستوں رشتہ داروں اور دیگر افراد کے متعلق ان سے مشورہ لیتے ہوئے ان کی رائے بھی لی جائے۔ چونکہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے اس لیے آپ کا بچہ آپ کو سب کچھ سچ سچ بتائے گا ۔
٭ معاشرہ میں ایسے درندہ صفت افراد جو معصوم اور نرم و نازک کلیوں کو مسل رہے ہیں حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ایسی عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ آئندہ کو درندہ ایسی گھنائونی حرکت کرنے کا تصور بھی نہ کر سکے۔
٭ شہوت انگیز خوراک جیسے (برائلر وغیرہ) اور شہوت انگیز موویز ،ڈراموں، دیگر شیطانی عوامل پر کنٹرول رکھا جائے تو بھی معاشرہ میں ایسی بے ضابطیگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔
٭ سب سے اہم بات بچوں کو دین اسلام سے آگاہی دیں۔ قرآن کی تعلیم دیں۔ سچ بولنا سکھائیں۔ اسلامی تہذیب سے روشناس رکھیں۔ نماز اور تلاوت قرآن جیسا ماحول اگر گھرمیں ہو تو یقینا بچے دیندار ہوں گے اور بہت سی برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔ دین کی تعلیم انسان میں حیا اور غیرت پیدا کرتی ہے ۔جس سے انسان میں جرات اور بہادری آتی ہے اور قوت ایمانی بلند ہوتی ہے۔


٭ کوشش کریں ہر وقت اپنے بچوں پر نظر رکھیں ان کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سکول اور اساتذہ کے ساتھ بھی رابطہ میں رہیں۔ سکول سے متعلقہ جتنے افراد مثلاً سیکورٹی گارڈ،بچوں کی وین(رکشہ ڈرائیور) وغیرہ جیسے لوگوں سے نہ صرف اچھا رابطہ ہو بلکہ ان کے متعلق آپ بہترین معلومات بھی رکھتے ہوں۔
٭ اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے صدقات وغیرہ کا اہتمام بھی بہت سی بلائوں کو ٹال دیتا ہے۔
دعا ہے خالق ہمارے نسل نو کی حفاظت کرے اور درندوں کے شر سے محفوظ رکھے۔

Ali

a fare looking young man with nice speaking and smile face

Post a Comment

Previous Post Next Post