Unmarraid Pragnent Female ........

 غیر شادی شدہ حاملہ خاتون صحافی مدد کیلئے طالبان کے پاس کیوں گئیں؟

شارلے کے مطابق ان کے ہاں بچے کی ولادت مئی میں متوقع ہے— فوٹو: شارلے انسٹاگرام
شارلے کے مطابق ان کے ہاں بچے کی ولادت مئی میں متوقع ہے— فوٹو: شارلے انسٹاگرام

نیوزی لینڈ کی غیر شادی شدہ حاملہ خاتون صحافی شارلے بیلس ان دنوں دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ضرورت کے وقت ان کے اپنے ملک نے مدد نہیں کی جس کے نتیجے میں انہیں طالبان سے مدد مانگنی پڑی۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ شارلے اور بیلجئم سے تعلق رکھنے والے ان کے بوائے فرینڈ، جو خود بھی فوٹو جرنلسٹ ہیں، گزشتہ برس افغانستان میں الجزیرہ چینل کے نمائندگان کے طور پر موجود تھے جہاں انہوں نے امریکی انخلا کی رپورٹنگ کی اور پھر دونوں قطر کے دارالحکومت دوحہ آگئے۔

دوحہ آنے کے بعد شارلے کے معلوم ہوا کہ وہ حمل سے ہیں جبکہ قطر میں شادی کے بغیر حاملہ ہونا اور بچے کو جنم دینا غیر قانونی ہے لہٰذا اگر انہیں بچے کو جنم دینا ہے تو قطر سے نکلنا ہوگا۔

شارلے نے اپنے حمل کو خفیہ رکھا اور نیوزی لینڈ واپسی کیلئے کوشش شروع کی لیکن کورونا کی سخت پابندیوں کی وجہ سے شارلے کو فوری طور پر ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی۔

شارلے کے مطابق ان کے ہاں بچے کی ولادت مئی میں متوقع ہے۔

نیوزی لینڈ کے سخت بارڈر کنٹرول کی وجہ سے شارلے کو استثنیٰ نہ مل سکا تو انہوں نے طالبان کے سینیئر رہنما سے رابطہ کیا جس کا انہوں نے نام ظاہر نہیں کیا۔

نیوزی لینڈ ہیرالڈ میں شائع مضمون میں شارلے نے کہا کہ ’نیوزی لینڈ کی حکومت نے گزشتہ ہفتے گھر واپسی کی میری درخواست مسترد کردی۔‘

شارلے کے مطابق اس کے بعد انہوں نے طالبان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا ایک غیر شادی شدہ حاملہ خاتون کو افغانستان میں قبول کیا جائے گا؟

شارلے اور ان کے بوائے فرینڈ کے پاس قطر کے علاوہ صرف افغانستان کا ویزہ موجود تھا کیوں کہ دونوں وہاں امریکی انخلا کے دوران قیام کرچکے تھے۔

طالبان نے کیا جواب دیا؟

شارلے کے مطابق ان کی درخواست پر طالبان رہنما نے کہا کہ ’آپ آسکتی ہیں اور آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، بس لوگوں سے یہی کہیے گا کہ آپ شادی شدہ ہیں ، پھر بھی اگر معاملہ بگڑے تو ہمیں کال کردیجئے گا۔‘

اس صورتحال کا موازنہ کرتے ہوئے شارلے نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’جب طالبان ایک غیر شادی شدہ حاملہ خاتون کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کریں تو سوچیں کہ آپ کی صورتحال کتنی خراب ہے۔‘

شارلے کا کہنا ہے کہ معاملہ دنیا کے سامنے آنے کے بعد ایک اور ملک نے انہیں پناہ کی پیشکش کی ہے۔

شارلے نے کہا کہ ’ضرورت کے وقت میرے ملک نے  میرا ساتھ نہیں دیا، کل تک میں یہ سوال اٹھارہی تھی کہ آیا طالبان لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے کیا کریں گے اور اب مضحکہ خیز طور پر یہی سوال اپنی حکومت سے پوچھ رہی ہوں۔‘

نیوزی لینڈ کی حکومت کا ردعمل

نیوزی لینڈ کی صحافی شارلے کا کہنا ہے کہ طالبان کی پیشکش کے بعد کیوی حکام نےان سے دوبارہ رابطہ کیا ہے اور ان کی مسترد کی گئی درخواست پر نظر ثانی کی جارہی ہے۔

اس حوالے سے نیوزی لینڈ کی حکومت پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ حاملہ خواتین کو ہنگامی بنیادوں پر وطن واپسی کی اجازت دے اور قرنطینہ سینٹرز میں جگہ فراہم کرنے کے معاملے میں انہیں فوقیت دی جائے۔

نیوزی لینڈ کے کووڈ 19 رسپانس منسٹر کرس ہِپکنز کا کہنا ہے کہ شارلے بیلس جیسی خواتین کیلئے رعایت کی گنجائش پہلے سے موجود ہے، ہم نے شارلے سے رابطہ کرکے انہیں کہا ہے کہ وہ ایمرجنسی کیٹیگری میں دوبارہ ویزہ کیلئے درخواست دیں۔

خاتون صحافی پر تنقید

دوسری جانب اس معاملے میں طالبان کو بیچ میں لانے اور انہیں اچھا بناکر پیش کرنے پر شارلے پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔

ایک خاتون نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ حکومت سے سوال کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں اس کیلئے طالبان کی تعریف ضروری نہیں۔

افغان نژاد آسٹرین صحافی عمران فیروز نے کہا کہ ’یہ اُسی کہانی کا ایک حصہ ہے کہ کس طرح طالبان افغانوں کے ساتھ سختی کرتے ہیں غیر ملکیوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔‘

Ali

a fare looking young man with nice speaking and smile face

Post a Comment

Previous Post Next Post