The shocking story of the discovery of a ship that sank at sea 78 years ago

 

78 برس قبل سمندر میں ڈوبنے والے بحری جہاز کی دریافت کی حیران کردینے والی کہانی

 
سنہ 1944 میں دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی بحری جنگی جہاز ’یو ایس ایس جانسٹن‘ دنیا میں اب تک لڑی جانے والی سب بڑی بحری جنگ میں ڈوب گیا تھا۔
 
75 برس سے زیادہ عرصے کے بعد اس جہاز کا بچا کھچا ڈھانچہ سطح سمندر سے بھی چھ کلومیٹر گہرائی میں دریافت کر لیا گیا ہے۔
 
23 اکتوبر 1944 کو بحیرہ فلپائن کے ساتھ خلیجِ لیٹی میں جدید انسانی تاریخ کی سب سے بڑی بحری جنگ کا آغاز ہوا تھا۔
 
اگلے تین دنوں میں 300 سے زیادہ امریکی بحری جنگی جہازوں کا تقریباً 70 جاپانی جہازوں سے مقابلہ ہوا۔
 
سائنسدانوں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ آکسیجن اور زندگی کے وجود سے بھی پہلے وجود میں آنے والی پلبارا کی لوہے سے بھرپور چٹانیں دنیا کی قدیم ترین بالائی تہہ یعنی کرسٹ کی بہترین مثال ہے۔
 
امریکیوں کے پاس 34 طیارہ بردار بحری جہاز بھی تھے، جو آج دنیا بھر کے تمام کیریئرز سے تعداد سے کچھ کم ہیں۔ ان 34 بحری جہازوں پر تقریباً 1,500 طیارے موجود تھے۔ امریکی فضائیہ کی تعداد جاپانیوں کے مقابلے میں تناسب کے لحاظ سے پانچ کے مقابلے میں ایک تھی۔
 
جاپانی بحری طاقت کا خاتمہ
اس جنگ کے دو بڑے نتائج برآمد ہوئے تھے۔ ایک طرف جاپان فلپائن پر امریکی حملے کو روکنے کے قابل نہ رہا (جس پر تقریباً چار سال پہلے جاپانیوں نے قبضہ کر لیا تھا) اور دوسری طرف جاپانی بحریہ کو اس نوعیت کی شکست ہوئی کہ بقیہ جنگ کے دوران جاپانی بحریہ عملاً ناکارہ ہو کر رہ گئی تھی۔
 
اس جنگ میں تقریباً 30 جاپانی بحری جہاز ڈوب گئے تھے۔ بہت سے بحری جہازوں، بشمول جاپان کے سب سے بڑے جنگی جہاز ’یاماتو‘، کو اتنا نقصان پہنچا کہ وہ جنگ کے کے دوران بندرگاہ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔
 
اگرچہ اس جنگ میں امریکہ کی تعداد جاپانی بحری بیڑے سے زیادہ تھی لیکن اسی جنگ کی ایک اہم لڑائی ایسی بھی تھی جہاں معاملہ الٹ تھا۔ اس میں ایک چھوٹی امریکی ٹاسک فورس کی بڑی جاپانی بحری فارمیشن سے مُڈھ بھیڑ ہو گئی تھی۔
 
یہ جنگ ’جزیرہ سمر‘ کے قریب لڑی گئی تھی جس میں بڑے دشمن کے مقابلے میں اس چھوٹے امریکی بحری بیڑے نے سخت مشکلات کا مقابلہ کیا اور بہتر ہتھیاروں سے لیس جاپانی بحری جہازوں کا سامنا کیا۔
 
اس چھوٹے امریکی بحری بیڑے کی مزاحمت اس قدر شدید تھی کہ اس نے جاپانی کمانڈر، وائس ایڈمرل تاکیو کریتا کو اپنے بیڑے کا رُخ موڑنے پر مجبور کر دیا کیونکہ مزاحمت دیکھتے ہوئے انھیں لگا کہ اُن کا سامنا امریکی بحریہ کے مرکزی بیڑے سے ہوا ہے۔
 
چھوٹے امریکی جہاز جاپانی جنگی جہازوں کے جتنا ممکن ہو سکا، قریب آ گئے۔ اس حکمت عملی کا فائدہ یہ ہوا کہ جاپانی جہاز اپنی طاقتور لمبی رینج والی توپوں کو استعمال ہی نہیں کر سکے۔
 
امریکی بیڑے کو اس مزاحمت کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور اس جھڑپ کے دوران 13 میں سے پانچ امریکی بحری جہاز ڈوب گئے۔
 
جاپانی کپتان نے ڈوبتے امریکی جہاز کو سلامی دی
ان ڈوبنے والے بحری جہازوں میں سے ایک ’یو ایس ایس جانسٹن‘ تھا۔ صبح سات بجے جانسٹن جاپانی جہاز ’یاماتو‘ کے گولوں کی زد میں آ چکا تھا۔
 
گولوں کا نشانہ بننے کے باوجود جانسٹن بحری جہاز مزید دو گھنٹے تک لڑتا رہا اور دشمن کے بہت بڑے بحری جہازوں پر اپنی توپوں سے گولے برساتا رہا۔
 
اس کی کوششوں نے جاپانی بحریہ کے جہازوں کو ہلکے ہتھیاروں سے لیس امریکی طیارہ بردار جہازوں سے دور رکھا۔
 
دو گھنٹے کی مسلسل لڑائی کے بعد جانسٹن جاپانی بحریہ کے درجنوں گولوں کا نشانہ بن چکا تھا۔ عملے کے زندہ بچ جانے والے ارکان ٹوٹے ہوئے بحری جہاز کے عقبی حصے سے چمٹے ہوئے تھے۔
 
آخر کار جہاز عملے کے 327 اہلکاروں میں سے 186 اہلکاروں سمیت ڈوب گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے اطلاع دی کہ جاپانی بحری جہازوں کے ایک کیپٹن نے اس ڈوبتے ہوئے امریکی جہاز کی شاندار لڑائی پر اسے اُس وقت سلامی دی جب وہ سمندر کی لہروں میں غائب ہو رہا تھا۔
 
لیکن یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔
 
بیشتر ڈوب جانے والے بحری جہازوں کا ملبہ کم گہرے ساحلی پانیوں سے ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بحری جہاز بندرگاہوں کے قریب قریب تجارتی راستوں پر چلتے ہیں تاکہ اگر موسم خراب ہو جائے تو ساحلی پانی ان کی پناہ گاہ ہو۔ تو یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں زیادہ تر جہاز ڈوبتے ہیں۔
 
لیکن جانسٹن جس پانی میں ڈوبا وہ بہت مختلف معاملہ تھا۔ کسی قریبی ساحل کے پاس ڈوبنے کی بجائے وہ سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں تیزی سے گرتا چلا گیا۔
 
سمر جزیرہ ایک وسیع سمندری وادی کے کنارے پر ہے جسے فلپائنی خندق (ٹرینچ) کہا جاتا ہے۔ یہ فلپائن اور انڈونیشیا کے ساحل کے ساتھ تقریباً 820 میل (1,320 کلومیٹر) تک پھیلی ہوئی ہے۔
 
اس جگہ سمندر بہت ہی گہرا ہے۔ اگر آپ ماؤنٹ ایورسٹ کو فلپائنی خندق کے سب سے گہرے مقام، گالتھیا ڈیپتھ پر رکھیں تو اس کی چوٹی پھر بھی ایک میل (1.6 کلومیٹر) سے زیادہ گہرائی میں پانی کے اندر ہو گی۔
 
سمندر کی گہرائی میں وہ حصے جہاں زندگی ناپید ہو جاتی ہے
 
 
کوئی نہیں جانتا کہ یو ایس ایس جانسٹن کو سمندر کی تہہ تک پہنچنے میں کتنا وقت لگا ہو گا۔ وہ بحیرہ فلپائن کی گہرائیوں میں ڈوب گیا جن میں کچھ سرد اور کچھ مشکل ترین جگہیں تھیں، ایسی جگہیں جہاں زندگی کا امکان کم رہ جاتا ہے۔
 
سمندر میں 100 میٹر (328 فٹ) نیچے جائیں تو وہاں سورج کی روشنی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ مزید 200 میٹر (656 فٹ) نیچے جائیں تو روشنی ختم ہو جاتی ہے۔
 
یہ ایک وسیع تہہ تقریباً ایک کلومیٹر گہرائی میں ہے جو سمندر پر سورج کی روشنی کے اثر کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہے۔
 
جہاز جیسے جیسے ڈوبتا گیا درجہ حرارت مزید گرتا گیا۔ 1,000 میٹر (3,280 فٹ) پر جانسٹن کا ٹوٹا ہوا ہل جمنے سے صرف چند ڈگری اوپر گہرے پانی میں ڈوب گیا ہو گا جس کو سمندری ماہرین ’باتھال زون‘ کہتے ہیں، جسے ’نصف شب کا زون‘ بھی کہا جاتا ہے۔
 
یہاں کوئی پودا یا نباتات نہیں اُگتے کیونکہ سورج کی روشنی اتنی نیچے تک نہیں جا سکتی۔ یخ بستہ پانی والے اس گہرے علاقے میں زندگی موجود نہیں ہوتی، یہاں صرف وہی آبی جانور زندہ رہ سکتا ہے جو اندھیرہ اور شدید سردی برداشت کر سکے۔
 
یہاں پائی جانے والی مچھلیاں ان مچھلیوں جیسی چھوٹی دکھائی دیتی ہیں جو سطح کے قریب تیرتی ہیں۔ مگر وہ نرم ہوتی ہیں اور چھونے کی صورت میں پھسل جاتی ہیں۔ ان آبی مخلوقات میں سے کچھ اندھی ہیں اور کچھ تقریباً شفاف یعنی آپ ان کے آر پار دیکھ سکتے ہیں۔
 
دنیا کے سمندروں کی اوسط گہرائی 3,688 میٹر (12,100 فٹ) ہے، جو دو میل سے زیادہ گہرائی بنتی ہے۔
 
یہ اتنا ہی گہرا پانی ہے جس میں سنہ 1912 میں بدقسمت ٹائی ٹینِک اپنے پہلے سفر میں ڈوب گیا تھا۔ لیکن جانسٹن کی ’موت کا غوطہ‘ اس سے بھی کہیں زیادہ گہرائی تک تھا۔
 
4,000 میٹر (13,123 فٹ) سے مزید نیچے جائیں تو ’قعر بحر‘ (ابیسیل زون) ہے، جہاں پانی کا درجہ حرارت نقطہِ انجماد کے آس پاس ہوتا ہے اور سمندر کی سطح پر تحلیل شدہ آکسیجن صرف تین چوتھائی باقی رہتی ہے۔
 
پانی کا دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ زیادہ تر مخلوق یہاں رہ نہیں سکتی۔ وہ جو اپنے کم گہرے پانی والی مخلوقات سے تقریباً ہر لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں، مچھلیوں کے خون میں اینٹی فریز ہوتا ہے تاکہ یہ شدید سردی میں بھی بہتا رہے، جب کہ ان کے خلیوں میں خاص پروٹین ہوتے ہیں جو انھیں پانی کے شدید دباؤ کے خلاف مزاحمت کرنے میں مدد دیتے ہیں جو بصورت دیگر انھیں کچل دے۔
 
لیکن سمندر اس سے بھی زیادہ گہرا ہے۔
 
مزید نیچے جائیں تو ’ہڈل زون‘ (یا پاتال) ہے، ایک اور تہہ جو پانی کی سطح سے 6,000 میٹر (19,685 فٹ) نیچے پائی جاتی ہے۔ ہڈل زون سمندر کی گہری کھائیوں میں پایا جاتا ہے اور زیادہ تر بحرالکاہل میں، جہاں دیوہیکل ٹیکٹونک پلیٹیں لہروں کے نیچے ایک دوسرے کو دھکیلتی ہیں۔
 
ڈنمارک کے سمندری امور کے ماہر اینٹون فریڈرک برون نے یہ اصطلاح 1950 کی دہائی میں بنائی تھی جب ٹیکنالوجی ان آبدوزوں کی پہلی محتاط تلاش کے لیے کافی ترقی کر چکی تھی۔ ہڈل کی اصطلاح انڈرورلڈ کے قدیم یونانی دیوتا ہیڈز سے آئی ہے۔ یہ زون مکمل اندھیرے میں ہے، درجہ حرارت نقطہِ انجماد کے قریب ہے، اور دباؤ سطح سمندر سے تقریباً 1,000 گنا زیادہ ہے۔
 
اس زون کے سب سے گہرے حصے میں یہ وہ جگہ ہے جہاں فلپائنی خندق کا نچلا حصہ اُبھرتا ہے۔ اس کی لمبائی کے ساتھ ناپے جانے والے بہت سے پوائنٹس تقریباً 10,000 میٹر (32,808 فٹ یا 6.2 میل) گہرے ہیں اور اس کے سب سے نچلے مقامات سطح سمندر سے 10,540 میٹر (34,580 فٹ) تک گہرے ہیں۔
 
پانی کے اندر اس وسیع خندق یا گھاٹی کے اندر کہیں، یو ایس ایس جانسٹن آخر کار دفن ہو گیا۔ لیکن اس کے صحیح مقام کا اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔
 
سمندر کی سطح کسی بھی لحاظ سے بے شکل نہیں ہے، لیکن کیونکہ سمندروں میں مختلف مقامات کے نام نہیں رکھے جاتے ہیں اس لیے بحری لڑائیوں کے صحیح مقامات کو تلاش کرنا ایک مشکل کام بن سکتا ہے۔
 
اس لڑائی کے مقام کی کوئی یادگار نہیں ہے، اور زمین جیسی کوئی نقشہ سازی ’ٹوپوگرافیکل‘ کی خصوصیات نہیں ہیں جو شناخت میں مدد کرتی ہیں. اس کے علاوہ سمندری لہروں کے نیچے بہنے والے بڑے دھارے کسی جہاز کے ملبے کو اس جگہ سے بہت دور بہا کر کہیں اور لے جا سکتے ہیں جہاں وہ ڈوبا تھا۔
 
بحری جہاز کو 75 سال بعد دیکھنے والا پہلا فرد
جانسٹن بحری جہاز کو 75 سال بعد دیکھنے والے پہلے فرد وکٹر ویسکووو تھے۔
 
54 برس کے ویسکوو امریکی بحریہ کے سابق انٹیلیجنس افسر ہیں۔ اُن کو جانسٹن کو دریافت کرنے اور سمندری سائنس کا شوق تھا۔ وہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے علاوہ شمالی اور جنوبی قطب، یعنی دونوں خطوں کا دورہ کر چکے ہیں۔
 
یہاں پائے جانے والے مستقل آبشاروں، پانی کے چشموں اور نخلستانوں نے پِلبارا کے سخت بیرونی حالات کے پیش نظر اسے اور بھی بہت دلکش بنا دیا ہے۔
 
وکٹر ویسکوو ٹیکساس میں اپنے گھر سے بی بی سی فیوچر کو بتاتے ہیں کہ ’میں 20-25 برسوں سے ایک زبردست کوہ پیما رہا ہوں، اور جب میں نے وہ کام کر لیے جو میں کرنا چاہتا تھا، تو مجھے ایک مختلف چیلنج کی تلاش تھی۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ چلیں یہ کام کرتے ہیں، گہرے سمندروں میں چلتے ہیں۔ اور یہ پتہ چلا کہ کوئی بھی دنیا کے پانچوں گہرے سمندروں کی تہہ تک نہیں پہنچا ہے۔ وہ کبھی بھی ان چار کی تہہ تک نہیں گئے تھے۔‘
 
خود کو ’ایک تکنیکی ذہن والا‘ شخص بیان کرنے والے ویسکوو کا خیال تھا کہ مسئلہ ٹیکنالوجی کا نہیں بلکہ فنڈنگ کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ مشن واقعی مہنگا ہو گا لیکن یہ قابل عمل ہے۔‘
 
’لہٰذا میں نے رقم کا انتظام کر لیا، اور ٹیم کو اکٹھا کیا، اور اگلے تین برسوں کے لیے ہم نے تاریخ کی سب سے گہری ڈائیونگ آبدوز کو ڈیزائن کیا اور پھر اسے بنایا جو بار بار ڈائیو کرنے کے قابل ہو، ایسی آبدوز اس سے پہلے نہیں بنائی گئی تھی، اور پھر ہم اسے ساری دنیا میں لے کر پھرے۔‘
 
ویسکوو نے اپنی نئی آبدوز کا تجربہ کیا، جسے ’لِمیٹنگ فیکٹر‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پورٹوریکو ٹرینچ (خندق) کی تہہ تک اکیلے غوطہ لگا سکتی ہے جو کہ بحر اوقیانوس کی سب سے گہری جگہ اور دنیا کے سمندروں میں گہرے ترین مقام کی گہرائی کا دو تہائی حصہ ہے۔
 
سنہ 2020 کے اوائل میں ہی ویسکوو ایک فلپائنی سمندری ماہر کے ساتھ ایک سائنسی مشن میں حصہ لے رہا تھا۔ وہ فلپائنی ٹرینچ کی تہہ تک غوطہ لگانے والے پہلے لوگ بن گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا ہی ہوا کہ ایک دن شمال میں جزیرہِ سمر سے باہر جہاں میدان جنگ تھا۔ میں ایک ’فوجی مؤرخ‘ رہا ہو اس لیے میں اس جنگ کی تباہی کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا۔‘
 
 
گہرے سمندر میں امریکی بحری جہاز کو تلاش کرنے کی ویسکوو کی یہ کوشش پہلی نہیں تھی۔
 
جانسٹن کی کہانی نے کئی دہائیوں سے بہت سے کھوج لگانے والوں اور سمندری ماہرین کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا۔
 
’ولکن آرگنائزیشن کئی برسوں سے دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہونے والے بحری جہازوں کے ملبے کی تلاش کے لیے دنیا بھر میں تحقیق کا کام کر رہی تھی۔ لیکن وہ 6,000 میٹر (19,685 فٹ) سے زیادہ گہرائی تک جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، کیونکہ وہ صرف ریموٹ کنٹرولڈ روبوٹ یا گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن انھیں اس کا صرف ایک حصہ ملا اور یہ واقعی قابل شناخت نہیں تھا۔‘
 
جانسٹن کو تلاش کرنا مزید مشکل بنا دیا گیا تھا کیونکہ اسی طرح کا ایک تباہ کن جہاز یو ایس ایس ہوئل بھی اسی جنگ میں ڈوب گیا تھا۔
 
ویسکوو کا کہنا ہے کہ ’وہ مثبت طور پر شناخت نہیں کر سکے کہ یہ جانسٹن تھا۔ اور وہ زیادہ گہرائی میں نہیں جا سکے۔ ان کی ریموٹ سے چلنے والی گاڑی کے لیے ان کی حد 6,000 میٹر (19,685 فٹ) تھی۔ وہ دیکھ سکتے تھے کہ نیچے زیادہ ملبہ ہے، اس لیے انھوں نے اسے مزید 220 میٹر (656 فٹ) نیچے دھکیل دیا، لیکن وہ زیادہ تر ملبے کو نہیں دیکھ پا رہے تھے۔‘
 
ولکن کے مشن سے تقریباً یہ ثابت ہو چکا تھا کہ جانسٹن کہاں پڑا ہے، لیکن گہرے بحرالکاہل کے سنگین قسم کے دباؤ نے انھیں کسی بھی شک کو دور کرنے سے روک دیا تھا۔
 
ویسکوو کا خیال تھا کہ اس کی نئی ڈیزائن کردہ آبدوز اس بات کی تصدیق کر سکتی ہے کہ تہہ میں ملبہ جانسٹن کا ہے یا نہیں۔
 
اگرچہ ولکن ٹیم نے اس مقام کے بارے میں اپنی معلومات ویسکوو کو نہیں دیں۔ تاہم ویسکووو کا کہنا ہے کہ ’عام ذرائع سے حاصل ہونے والے اشارے کافی تھے جو میں نے اپنے انٹیلیجنس روابط کے ذریعے حاصل کیے تھے اور ہم اس جگہ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے جہاں شاید یہ ملبہ ہو سکتا تھا۔‘
 
ویسکوو اور بحریہ کے تاریخ دان پارکس سٹیفنسن ملبے کو تلاش کرنے کی امید میں آبدوز میں سمندر کی تہہ تک گئے۔
 
ویسکووو کا کہنا ہے کہ ’اس سے پہلے کبھی کسی آبدوز نے اتنے گہرے سمندر میں کوئی غوطہ نہیں لگایا تھا۔ میں نے اس سے کہا ’وہاں عجیب چیزیں ہوتی ہیں۔‘ مرئیت خوفناک ہے، ایک بار جب آپ 500 میٹر (640 فٹ) یا 1000 میٹر (2180 فٹ) سے نیچے جائیں تو یہ بہت پیچیدہ قدم ہے، آپ 6000 میٹر جتنے گہرے مقام کو تو چھوڑ ہی دیں۔ اور اس مشن کے لیے سب کچھ مشکل ہے۔‘
 
’ہماری پہلی غوطہ خوری پر ہم وہاں چار گھنٹے تک نیچے رہے اور ہمیں کچھ نہیں ملا۔'
 
دوسرا غوطہ بھی ملبے کی کوئی نشانی ظاہر کرنے میں ناکام رہا اس لیے وہ اپنے تیسرے غوطے کے لیے ایک نئے مقام پر گئے۔ یہ زیادہ کامیاب رہا اور انھوں نے سمندر کی گہرائی میں ڈوبے ہوئے جہاز کے ملبے کے خطے کو دوبارہ دریافت کیا جو ولکن آبدوز نے پہلے ہی تلاش کر لیا تھا۔
 
’اپنی آبدوز کے ساتھ میں اس سمندری راستے پر چلنے کے قابل تھا جہاں جہاز پانی کے اندر پہاڑی میں V کے جیسے مقام میں پھنسا ہوا تھا، اور ہم اس راستے پر مزید 500 میٹر (1650 فٹ) نیچے گئے اور اس وقت ہمیں جہاز کے اگلے حصے کا دو تہائی صحیح حالت میں ملا۔ اصل شکل میں وہیں (بحری شناخت) کے نمبر 557 کے ساتھ۔ یہ بالکل درست شناخت تھی۔‘
 
 
جانسٹن کا ملبہ چھ کلومیٹر (3.7 میل) سے زیادہ گہرائی میں موجود تھا۔ ویسکووو کا کہنا ہے کہ ’جتنی گہرائی میں ٹائی ٹینک ہے یہ اُس سے دگنی گہرائی ہے یعنی 4,000 میٹر۔ اس ملبے کے بارے میں کیا بات ایسی تھی جو بہت دلچسپ تھی، یہ ٹائی ٹینک کے سائز کا تقریباً بیسواں تھا اس لیے یہ بہت چھوٹا ہے۔‘
 
اتنی گہرائی میں ملبہ تلاش کرنا بہت سخت اور محنت طلب کام ہے۔ ویسکووو کا کہنا ہے کہ ’یہ سب کچھ خون کی پگڈنڈی‘ کہلانے والے راستے کی تلاش کرنے، ملبے کا ایک ٹکڑا تلاش کرنے اور دوسرے کو تلاش کرنے اور پھر اس کی مدد سے اصل ملبے کی نشاندہی کرنے کے بارے ایک کوشش کی کہانی ہے۔ کیونکہ سمندر واقعی، واقعی، واقعی بہت بڑا ہے اور ملبہ بہت، بہت، بہت چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں ہے۔'
 
دنیا کے سمندروں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ 6000 میٹر (19685 فٹ) سے زیادہ گہرا ہے۔ اس لیے انھیں دریافت کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کو فنڈ دینے کی بہت کم حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
 
ویسکوو کہتے ہیں کہ ’ہم جانسٹن کو تلاش کرنے جا رہے ہیں۔ ہم سونار کو دو بار چیک کرنے کے لیے استعمال کرنے جا رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ ٹھیک سے کام کر رہا ہے اور پھر ہم اسے مزید گہرائی میں لے جانے جا رہے ہیں، جہاں ہمیں پورا یقین ہے کہ گیمبیئر بے، ہوئل اور کچھ جاپانی (جہازوں کے) ملبے اس سے بھی زیادہ گہرائی میں ہوں گے۔ وہ 8000 میٹر (26,246 فٹ) کی گہرائی میں ہو سکتے ہیں، لیکن کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں، اور ہمیں امید ہے کہ ہم انھیں ڈھونڈنے کے سفر میں کامیاب ہوں گے۔‘
 
اگر آپ ماریانا ٹرینچ (گہرے سمندر میں ماریانا خندق) میں ’چیلنجر ڈیپ‘ سے ایک کشتی کے کنارے پر ایک کنکر گرائیں، سمندر کے سب سے گہرے مقامات تک، تو آخر میں اسے نیچے تک پہنچنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگے گا۔
 
(چیلنجر ڈیپ زمین کے کُرّہِ آب میں سمندری تہہ کا سب سے گہرا معلوم نقطہ ہے، جس کی گہرائی 10,902 میٹر سے 10,929 میٹر تک ہے جس کی براہ راست پیمائش ڈیپ ڈائیونگ آبدوزوں، ریموٹ کنٹرول سے انی کے اندر چلنے والی گاڑیوں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔
 
ویسکووو کا کہنا ہے کہ ’اس میں ہمیں (یعنی اس کیح آبدوز کو) ساڑھے چار (گھنٹوں) کا وقت لگتا ہے، اور آبدوز کو تیزی سے اوپر اور نیچے جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے! یہ ایک لمبا، لمبا راستہ ہے، اور جب آپ وہاں سے جاتے ہیں وہاں کا ماحول ناقابل یقین حد تک دشوار ہے۔ سطح سمندر سے بیرونی خلا تک، آپ فضا کے ایک دباؤ سے صفر پر جاتے ہیں، یہ ایک خلا ہے۔ جب آپ ماریانا ٹرینچ کی تہہ تک جاتے ہیں، تو آپ ایک فضا سے نمکین پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ہوئے 1100 درجہ دباؤ تک جا رہے ہیں، اور یہ سخت یخ ٹھنڈا ہے۔ یہ کسی بھی جسمانی چیز کے لیے صرف اذیت ہے۔'
 
ویکسوو کے سب سے بڑے چیلنج میں سے ایک یہ تھا کہ کس طرح اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سب میرین پر بیٹریوں سے لے کر پروپلشن سسٹم تک سب کچھ ایک غوطہ کے بعد تکرار کے ساتھ دوسرے غوطہ تک اس طرح کی کچلنے والی گہرائیوں پر کام جاری رکھ سکے گا۔
 
 
'لمیٹنگ فیکٹر' کے مشن کو اس دشوار گزار خفیہ دنیا تک جانے سے آہستہ آہستہ انسانوں کے ایسے چھوٹے کلب کو بڑھانے میں مدد ملی ہے جنھوں نے سمندر میں سب سے گہری جگہ کا مشاہدہ کیا ہے۔
 
وہ کہتے ہیں 'تین سال پہلے صرف تین لوگ ماریانا ٹرینچ کی تہہ تک پہنچے تھے جبکہ چاند کی سطح پر 12 افراد قدم رکھ چکے تھے۔ اب ہم نے اس صورتحال کو تبدیل کر دیا ہے۔ میں 15 لوگوں کو چیلنجر کی تہہ تک لے جانے میں کامیاب ہو چکا ہوں۔ اب چیلنجر کی تہہ تک جانے سے کہیں زیادہ لوگ خلا میں جا چکے ہیں، لیکن ہم کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ہماری تعداد بڑھتی رہے۔‘
 
ویسکووو کا کہنا ہے کہ ایک بار جب جہاز کٹی ہوئی سطح کے پانیوں کے نیچے ڈوب جاتا ہے، تو 'یہ غیر معمولی طور پر پرامن و ساکت ہو جاتا ہے۔ سطح پر، آپ گھوم رہے ہیں لیکن ایک بار جب آپ پانی کے نیچے آ جاتے ہیں تو یہ واقعی ساکت ہو جاتا ہے، آپ کو صرف پنکھوں کی آواز سنائی دیتی ہے، بہت اندھیرا ہو جاتا ہے، 500 میٹر (1540 فٹ) پر سورج کی روشنی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ حرکت کا کوئی احساس بھی نہیں ہوتا، آبدوز آہستہ سے گھوم سکتی ہے اور آپ کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔ اور آبی مخلوقات آبدوز سے دور رہتی ہے یا آپ انھیں نہیں دیکھتے ہیں کیونکہ یہ راستے بہت چھوٹے ہیں، لہذا ایسا لگتا ہے جیسے آپ ایک تھوڑی سی ٹائم مشین میں، اور آپ وہاں ساکت بیٹھے ہوئے ہیں۔
 
'میں ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہوں، اس بات کو یقینی بنا رہا ہوں کہ چیزیں ٹھیک ہو رہی ہیں، لیکن مسافر انتظار کرتے ہیں جب تک کہ ہم نیچے نہ پہنچ جائیں۔ ہمارا مذاق یہ ہے کہ جب آپ نیچے جاتے ہیں تو ایک منٹ پانچ منٹ لگتا ہے کیونکہ آپ وہاں جلدی پہنچنا چاہتے ہیں، اور وہاں پہنچنے کے لیے آپ پرجوش ہوتے ہیں۔ جب آپ نیچے پہنچتے ہیں تو ایک منٹ ایک سیکنڈ کی طرح محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہاں بہت کچھ ہو رہا ہے، آپ باہر دیکھ رہے ہیں، آپ پرجوش ہیں، اور پھر اوپر جانے کا ایک منٹ ایک گھنٹے کے برابر ہے، کیونکہ آپ صرف سطح پر جانا چاہتے ہیں۔'
 
جانسٹن جیسے طویل عرصے سے کھوئے ہوئے جنگی جہازوں کے لیے ویسکووو کے مشن ایک بہت ہی آسان اصول کی پیروی کرتے ہیں، انھیں دیکھیے، لیکن ہاتھ مت لگائیے۔
 
'کوئی بھی فوجی ملبہ اس ملک کی ملکیت رہتا ہے جس سے ان کا تعلق ہوتا ہے، چاہے وہ کہیں بھی ہوں، لہذا آپ ان سے کچھ نہیں لے سکتے جب تک کہ آپ ان کی اجازت نہ لیں۔ اس لیے ہمیں اس ملبے کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم نے اس مبلہ کو چُھوا نہیں، ہم نے کچھ نہیں لیا، لیکن لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ ٹائی ٹینک کا ملبہ ہے یا جانسٹن کا، یہ ملبے اتنے گہرے اور کھارے پانی میں زنگ آلود ہیں۔ یہ خالی مقبرہ ہے جو وہاں مرنے والوں کی علامت نشاندہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘
 
لیکن مرنے والوں کی تمام اولادیں نہیں چاہتی کہ ان کے رشتہ داروں کی آخری آرام گاہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے۔ ملبے سمندر کی سطح سے بہت نیچے، پوشیدہ ہو سکتے ہیں، لیکن مرنے والوں کے لواحقین میں بعض اوقات شدید جذبات ہوتے ہیں۔
 
 
'سمندر کی خوبصورتی اس لیے ہے کیونکہ یہاں ابھی بہت کچھ دریافت کرنا باقی ہے۔

Ali

a fare looking young man with nice speaking and smile face

Post a Comment

Previous Post Next Post