مظلوم کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کے کربلا میں آخری لمحات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (بشکریہhttps://www.erfan.ir/urdu/41629.html)
جب ہر ایک یک بعد دیگرے شہید ہوچکا،جب امام نے دیکھا کہ اب کوئی نہیں جو حرم رسول ۖ کی حفاظت کرے، اب کوئی نہیں جو حسین کی حمایت کرے،جو مددگار تھے وہ سب کہ سب اپنے خون میں غوطہ ور ہوچکے ہیں،جو حامی تھے وہ سب کہ سب اپنی جان کو فدا کرچکے ہیں، دوست واحباب بھی ساتھ چھوڑ کر چل بسے ہیں، اعزاء واقرباء بھی تنہا کرچکے ہیں،اب کوئی نہیں جو حسین کی نرغۂ اعداء میں دشمنوں سے حفاظت کرے،اب کوئی نہیں جو حسین کی اس مظلومی پر کچھ ترس کھائے۔
فرزند مصطفیۖ کربلا کے جنگل میں بے یارو مددگار گیاہے، دلبند زہرا نینوا کے بن میں اکیلا ہوگیا ہے، غریب الوطنی میں کوئی ملجا نہیں ہے، پردیسی کے عالم میں کوئی ماویٰ نہیں ہے فقط ایک جان ہے جو بدن میں باقی تڑپ رہی ہے گویاوہ بھی درد والم سے جسم کو چھوڑنا چاہتی ہے پھر ایسے عالم میں امام آخری وداع کے لئے خیمے میں آکر آواز دیتے ہیں: یَا سَکِیْنَةُ یَا فَاطِمَة ویَا زَیْنَبُ یَا اُمَّ کُلْثُوْمَ عَلَیْکُنَّ مِنِّی السَّلاَمُ۔ اے سکینہ وفاطمہ اور اے زینبۖ وام کلثوم تم پہ حسین کا آخری سلام ہو۔
یوسف زہرا کا آخری دیدار کرلو اور فرزند فاطمہ کو ایک نظر محبت دیکھ لو یہ آخری ملاقات ہے اس کے بعد پھر حسین کو نہ دیکھ سکوگی۔اب زہرا کا چاند صحرائے کربلا میں چھپ جائے گا اور خورشید امامت میں گرہن لگ جائے گا۔جناب سکینہ نے آواز دی: اَاَسْتَسْلَمْتَ لِلْمَوْتِ فَاِلیٰ مَنِ اتَّکَلْنَا؟کیا بابا آپ موت کے لئے آمادہ ہوگئے ہیں؟ اب کوئی چارہ نہیں ہے۔بابا جب آپ شہادت کے لئے تیار ہوگئے ہیں تو پھر ہمیں کس کے حوالے کررہے ہیں؟آنکھوں میں آنسو آگئے وَقَالَ:یَا نُوْرَ عَیْنِیْ! کَیْفَ لَا یَسْتَسْلِمُ لِلْمَوْتِ مَنْ لَا نَاصِرَ لَہُ وَلَا مُعِیْنَ؟وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَنُصْرَتُہُ لَا تُفَارِقُکُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَلَا فِی الْآخِرَةِ، فَاصْبِرِیْ عَلیٰ قَضَائِ اللّٰہِ وَلَا تَشْکِیْ، فَاِنَّ الدُّنْیَا فَانِیَة وَالْآخِرَةُ بَاقِیَة۔میری لعل وہ کیسے موت کے لئے آمادہ نہ ہو کہ جس کے پاس کوئی یارومددگار نہیں ہے۔ وہ کیسے اپنی زندگی کی امید کرسکتا ہے کہ جو دشمنوں کے بیچ اکیلا وتنہا رہ گیا ہے؟ پروردگار کی رحمت اور اس کی نصرت دنیا وآخرت میں تم سے جدا نہیں ہوگی پس تم پروردگار کے فیصلے پر صبر کرو اور شکوہ نہ کرو بیشک دنیا فانی اور جنت باقی ہے۔ تو دیکھ رہی ہے میری لال کہ اب نہ تو تیرا بھیا اکبر باقی ہے اور نہ ہی تیرے چچا عباس اس دنیا میں رہ گئے ہیں۔ موت سے انسان کو کہاں چھٹکارا ہے لیکن وہ موت کتنی اچھی ہے میری لال کہ جو اپنے پروردگار کی راہ میں شہادت کی صورت میں ہو۔ نہ جانے کتنے سورماؤں کو موت نے زمین کے اندر کردیا ہے اور نہ جانے کتنے بلوانوں کو زمین نے نگل لیا ہے۔ موت سے کسی کو کہاں فرار ہے۔جناب سکینہ نے کہا:رُدَّنَا اِلیٰ حَرَمِ جَدِّنَا۔بابا پھر آپ ہمیں مدینہ پہونچادیں، ہمیں یہاں پہ اکیلا نہ چھوڑیں۔امام نے کہا:ھَیْھَاتَ لَوْتُرِکَ الْقَطَا لَنَامَ۔ دور ہے میری لال اگر صیاد مرغ قطاکو چھوڑ دیتا تو وہ اپنے آشیانے میں آرام کی نیند سوتاپھر اس شعر کو پڑھا:
لَقَدْ کَانَ الْقَطَاةُ بِاَرْضِ نَجْدٍ
قَرِیْرَ الْعَیْنِ لَمْ یَجِدِ الْغَرَامَاً
تَوَ لَّتْہُ الْبُرَاةُ فَھَیَّمَتْہُ
وَلَوْ تُرِکَ الْقَطَا لَغَفَا وَنَامَا
سرزمین نجد پر مرغ قطا شادوآباد بغیر کسی تکلیف کے رہا کرتے تھے انھیں کسی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا لیکن درندے باز انھیں آوارہ ودربدر کردیئے اگر باز انھیں چھوڑ دیتے وہ بھی چین کی نیند سوتے۔(ناسخ التواریخ،ج١،ص٣٦١)
اس بات سے امام اپنی بچی کو بتانا چاہ رہے تھے کہ اگر یہ حسین کو چھوڑ دیتے تو پھر یہ سب دشواریاں کیوں لاحق ہوتیں۔اگر یہ حسین کے خون کے پیاسے نہ ہوتے تو پھر باغ زہرا کیوں تاراج ہوتی۔
پھر حسین کو اکبر کا داغ نہ سہنا پڑتااور نہ ہی قاسم کا پامال بدن دیکھنے میں آتا۔ بھیا عباس بھی زندگی کا سہارا ہوتا۔دوست واحباب کا بھی ہجوم ہوتامگر قسمت کا لکھا بھی کہیں پہ ٹلتا ہے مگر قضاء وقدر کا فیصلہ بھی کہیں پہ رکتا ہے۔(٥٥٣ سحاب رحمت۔ عباس اسماعیل یزدی)
جو لکھا ہے وہ ہوکے رہے گا جو مقدر میں ثبت ہوچکا ہے وہ انجام پاکے رہے گا۔
امام اپنی بیٹی سکینہ کو بہت چاہتے تھے جیسا کہ فرمایا ہے:
لَعَمْرُکَ اِنَّنِیْ لَاُحِبُّ دَاراً
تَکُوْنُ بِھَا سُکَیْنَةُ وَالرُّبَابُ
اُحِبُّھُمَا وَاَبْذُلُ جُلَّ مَالِیْ
وَلَیْسَ لَعَاتِبٍ عِنْدِیْ عِتَابُ
مجھے وہ گھر پسند ہے کہ جس میں سکینہ اور رباب رہتی ہیں میں ان دونوں کو چاہتا ہوں اور اپنی دارائی کو ان کی راہ میں خرچ کرتا درحالیکہ کوئی مجھ پر حق تندی نہیں رکھتا۔(ناسخ التواریخ،ج١،ص٣٦١)
امام نے تمام عورتوں ، بچوں اور بچیوں کو اپنے پاس بلایا اور ہر ایک کو صبر وحلم کی تلقین کی۔ غمزدہ دلوں کو آخرت کی نا تمام نعمتوں سے تسلی دی۔
ہر ایک امام کو گھیر کر کھڑا ہے اور امام وصیتیں کررہے ہیں۔ زبانیں تو بیبیوں کی خاموش ہیں لیکن ان کی آنکھوں سے اشکوں کے قطرات جاری ہیں۔ہائے کیسا وقت آیا کہ فرزند مصطفیۖ زندگی سے ناامید ہوکر مرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرتے ہوئے بی بیوں سے آخری وداع کررہے ہیں، زمانے نے کیسا ستم توڑ دیا ہے کہ دونوں جہان کا شہنشاہ اپنے بعدخواتین کو اسیری کی خبر دے رہے ہیں۔
ہر ایک کی نگاہیںمنبع اشک بن گئی ہیں کیونکہ دلبند زہرا مرنے جارہے ہیں، لخت دل مصطفیۖ قتل ہونے جارہے ہیں۔
فاطمہ کے لال کا آخری دیدار ہے
حشر کا ہنگامہ برپا ہے میان اہلبیت
سر شہیدان محبت کے ہیں نیزوں پر بلند
اور اونچی کی خدانے قدر وشان اہلبیت
ایسے میں جناب سکینہ نے آواز دی: بابا آپ ہمیں کس کے حوالے کرکے جارہے ہیں آپ نہ ہوں گے تو ہمارا کیا ہوگا بابا آپ نہ ہوں گے تو یہ ظالم ہمیں قیدی بنالیں گے بابا اگر انہوں نے ہماری چادریں چھین لی تو ہمارا کون مددگار ہوگااگر انہوں نے ہمیں تازیانہ لگائے تو پھر ہمارا کون پرسان حال ہوگا، کون ہوگا جو ہماری رہنمائی کرے گا کون ہوگا جو ہماری مصیبتوں پہ رحم کھائے گا، دنیا ہم پہ تاریک ہوجائے گی بابا، زمانہ ہم پہ دگر گون ہوجائے گا بابا۔
بچی کے بین نے باپ کے بدن کو لرزا دیا آنکھوں سے پرنالے کی طرح آنسو جاری ہوگئے۔ آواز دی: میری لال!
خدا سب کا مددگار ہے۔ وہی ہے غریبوں پہ رحم کرنے والا اور وہی ہے یتیموں کی دیکھ بھال کرنے والا، وہی مالک حشر ونشر ہے اور اسی کی بارگاہ میں سب کو جانا ہے۔ اس کی رحمت دنیا وآخرت میں تمہارے ساتھ ہے بیٹی۔
قضائے پروردگار پر صبر کرنا سکینہ، مقدر کے نوشتہ پہ شکیبا رہنا سکینہ اگر ظالم تجھے طمانچے لگائے تو بیقرار مت ہوجانا میری لال،اگر رسیوں میں جکڑ کے باندھ دیں تو نڈھال نہ ہوجانا میری لال، آفت وبلا میں گرفتار ہوکر دم نہ توڑ دینا سکینہ، مصائب وآلام میں مبتلا ہوکر جان نہ دینا میری جان۔ یہ ہمیشہ یاد رکھنا کہ خداتمہیں دیکھ رہا ہے اور تمہاری فریادوں کو سن رہا ہے یہ دنیا ہے جو عنقریب فنا ہوجائے گی اور اس کی لذتیں بھی اس کے ساتھ مٹ جائیں گی اور اس کے درد والم بھی اسی کے ساتھ ختم ہوجائیں گے مگر وہ آخرت ہے جہاں اس کی نعمتیں ہمیشہ رہیں گی کیونکہ وہ زوال نا پذیر ہیں ان کے اندر فنا نہیں ہے۔میری لال سختیوں کو تحمل کرلینا مگر کبھی بھی بد دعا نہ کرنا کہ تمہارے اخروی درجے میں کمی کا باعث بنے،رنج وتکلیف کو سہ لینا لیکن کبھی بھی نفرین نہ کرنا کہ تمہارے درجے کو گھٹا دے۔
اگر خدا راضی وخوشنو ہے تو پھر یہ دنیا ناراحت و ناراض ہوکے کیا کرے گی اور اگر وہی ناراحت وناراض ہے تو پھر یہ دنیا راضی وخوشنو ہوکے کیا کرے گی ۔ اپنے صبر وحلم سے مرضی خدا کو جذب کرنا سکینہ اور اپنی بردباری سے خدا کو خوش کرنا سکینہ۔الغرض امام سب سے رخصت ہوکے خیمے سے نکل رہے ہیں۔
شبیر برآمد ہوئے یوں خیمے کے در سے
جیسا کہ نکلتا ہے جنازہ کسی گھر سے
امام جب خیمے سے نکلنا چاہتے ہیںتو ان کے ہمراہ بی بیاں بچے بھی روتے ہوئے آرہے ہیں، سب جانتے تھے کہ اب حسین پلٹ کر نہیں آنے والے ہیں لہٰذا ہر ایک حسرت بھری نگاہوں سے مولا کو دیکھ کر آنسو بہا رہا تھا، صدائے فریاد آسمان کو چھو رہی تھی، نالہ وشیون سے زمین کربلا ہل رہی تھی، گریہ وبکا نے پہاڑوں کے اندر شگاف کردیا تھا، بچوں کا بلبلانا اور عورتوں کا گڑگڑانا حشر کا ہنگامہ برپا کئے ہوئے تھا، شدت غم سے حیوانوں میں بھی اداسی چھائی تھی، کوہ الم نے نباتات کو بھی پژمردہ کردیا تھا، درد ورنج نے جمادات کو بھی رلا دیا تھا، حشرات الارض بھی محوفغاں تھے اس لئے کہ حجت خدا کا سایہ سر سے اٹھنے والا تھا اور زہرا کا لال قتل ہونے کے لئے جانے والا تھا۔سہ سالہ بچی خیمے کے در کو گھیر کر کھڑی ہے، آنسوؤں سے چہرا بھیگ چکا ہے۔وہ انتظار کررہی ہے کہ اگر بابا میدان میں جانا چاہیں گے تو نہیں جانے دوں گی اور ان سے اپنی پیاس کی شکایت کروں گی عرض کروں گی :بابا ہمیں مدینہ پہونچا کر ان دشمنوں کے سامنے جانا،تم مر گئے تو میں بابا کسے کہوں گی تم کٹ گئے تو ہماری مرادیں کون پورا کرے گا۔میرے ارمانوں کی دنیا اجڑ جائے گی میرے پیار کی نگری ختم ہوجائے گی۔
جب امام نے خیمے سے نکلنا چاہا تو اس بچی نے باپ کے دامن کو پکڑ کر اپنی بہن کو آواز دی: آؤ بہن بابا کے دامن کو پکڑ لیتے ہیں تاکہ بابا میدان میں نہ جاسکیںہم جہاں رہیں بابا ہمارے ساتھ رہیں،ہمیں اس بن میں اکیلا نہ چھوڑیں۔
بچی کے اس جملے نے امام کے دل میں اضطراب پیدا کردیا۔بے ساختہ آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔فرط محبت سے بچی کو گلے لگا لیاآواز دی: میری لال کون اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے آتا ہے اور کون اس جہان میں جاودانہ زندگی کرتا ہے آج نہیں تو کل ہر ایک کو اس کی بارگاہ میں پلٹ کے جانا ہے۔
اب حسین بچی کو تسلی دے رہے ہیں اس کو سمجھا رہے ہیں ،پھسلا رہے ہیں تاکہ اس کا بے قرار دل اپنی جگہ پہ آجائے اور اس کو کچھ سکون مل جائے آواز دے رہے ہیں: میری لاڈلی پیاس بہت تیز لگی ہے نہ، ہاں بابا پیاس کی شدت سے منھ سوکھ چکا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے کلیجہ منھ کو آگیا ہے۔آواز دی:اِجْلِسِیْ عِنْدَ الْخَیْمَةِ لَعَلِّیْ آتِیْکِ بِالْمَائِ۔
میری لال خیمے کے پاس بیٹھ جاؤ شاید میں تیرے واسطے پانی لاسکوںلیکن وہ بچی کسی بھی صورت سے اپنی باہوں کو امام کے گلے سے باہر نہیں کرتی تھی جتنا امام تسلی دیتے تھے اتنا ہی اس کی گریہ میں اضافہ ہوتا تھاایسا تڑپ کے رو رہی تھی کہ اس کے رونے سے سنگدل اہل زمانہ کی بھی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔(٥٥٥ سحاب رحمت)فوج کفار میں بھی اک ہل چل مچ گئی تھی۔
یہی وجہ تھی کہ جب یزید نے شمر سے پوچھا یہ تو بتا کہ کربلا میں تیرا دل کبھی حسین پر نرم ہوا ہے؟کہاں ہاں اک جگہ ایسی تھی کہ جہاں میرا دل حسین کی مظلومی پہ رقت بار ہوا تھا۔
اس وقت کہ جب حسین آخری وداع کے لئے خیمے کے در پہ کھڑے تھے اور ان کی بچی اپنی باہوں کو حسین کے گلے میں ڈال کر ایسے رو رہی تھی کہ اس کے رونے سے اہل زمین کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے پر ہوگئی تھیں۔اتنا دل خراش بین کر رہی تھی وہ کہ اس کے بین سے اشیائے کائنات بھی محو فغاںہوگئی تھی جیسے زمین ہل رہی تھی اور آسمان لرز رہا تھاایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے پہاڑوں میں بھی شگاف ہورہا ہو۔
اور وہ بچی یہی کہہ رہی تھی کہ بابا ہمیں مدینہ پہونچا دیجئے ہمیں ان ظالموں کے درمیان ایسے نہ چھوڑیئے اور حسین جواب دے رہے تھے۔
سَیَطُوْلُ بَعْدِیْ یَا سَکِیْنَةُ فَاعْلَمِیْ
مِنْکِ الْبُکَائُ اِذِ الْحَمَامُ دَھَانِیْ
لَاتُحْرِقِیْ قَلْبِیْ بِدَمْعِکَ حَسْرَةً
مَادَامَ مِنِّیِ الرُّوْحُ فِیْ جُثْمَانِیْ
وَاِذَا قُتِلْتُ فَاَنْتِ اَوْلیٰ بِالَّذِیْ
تَبْکِیْنَہُ یَاخَیْرَةَ النِّسْوَانِیْ
(٥٥٤سحاب رحمت)
نہ رو میری لال اس لئے کہ میری موت کے بعد تمہارا رونا بہت لمبا ہوگا،میری شہادت کے بعد تمہیں قدم قدم پہ آنسو ہی بہانا ہوگا اپنے حسرت بھرے آنسوؤں سے حسین کے دل کو نہ جلاؤ، جب تک حسین کی روح اس کے جسم میں باقی ہے اپنے آنسوؤں سے اسے نہ تڑپاؤاس لئے جب قتل ہوجاؤں گا تو پھر تم سب سے زیادہ سزاوار ہوگی مجھ پہ آنسو بہانے کے لئے اور جب کٹ جاؤں گا تو تم سب سے زیادہ سزاوار ہوگی مجھ پہ نالہ وشیون کرنے کے لئے۔
امام سمجھا رہے ہیں لیکن اس بچی کو کیسے سکون ملے کہ جو موت کو اپنے سامنے دیکھ رہی ہے، اسے کیسے قرار آئے کہ جو دشمنوں کے شور وغوغا کو اپنے کانوں سے سن رہی ہے اس کے دل کی دھڑکنیں کیسے رک سکتی ہیں جو صبح سے لگا تار تیر وتبر کی صداؤں کو سن رہی ہو،اس کا خوف کیسے بر طرف ہوسکتا ہے کہ جو مسلسل لاشوں پہ لاشے دیکھے جارہی ہو۔
یہی وجہ تھی کہ بچی اپنی باہوں کو باپ کے گلے سے جدا نہیں کررہی تھی وہ جانتی تھی کہ اگر بابا گئے تو پھر واپس نہیں آئیں گے وہ جانتی تھی کہ اگر بابا گئے تو پھر قتل ہوجائیں گے، ذوالجناح تو پلٹے گا مگر بابا کو لے کے نہیں بلکہ بابا کی شہادت کی سنانی لے کے آئے گایہی تو تاریخ کی وہ بچی ہے کہ جس نے احساس یتیمی کو باپ کی زندگی میں درک کرلیا تھا،کوئی نہیں تھا جو بعد حسین اس کے سر پر دست شفقت کو پھیرتا، کوئی نہیں تھا جو اس یتیم بچی کو اپنے زانوپر بیٹھا کر کچھ پیار کرتا، کوئی نہیں تھا جو اس پیاسی کو اک گھونٹ پانی پلاتا۔ ہاں کچھ لوگ تھے جو دست شفقت کی جگہ طمانچے لگاتے تھے،پیار کی جگہ پر کوڑے برساتے تھے،پانی دینے کے بجائے گوشواروں کو گھسیٹ کر چھین لیتے تھے۔ وہ کمسن یتیم بچی کیا کرتی، بابابابا پکار کے رہ جاتی تھی اور اپنے آنسوؤں کے سیلاب میں دکھ درد کو بھی بہا دیتی تھی۔
آنحضرت کا اپنی بہن زینب سے رخصت ہونا
جس طرح سے ماں باپ کی محبت انسان کے اندر فطری طور پر ہوتی ہے اسی طریقے سے بہن بھائی کی محبت بھی فطری طور پر ہوتی ہے کیونکہ یہ خونی رشتہ ہے لہٰذا خون کی روانی کے ساتھ ان کی محبت بھی پورے وجود میں گشت کرتی ہے اگرچہ اس محبت میں پاک وپاکیزہ نسل کافی دخیل ہے جس کی نسل جتنی ہی بلند وبالا ہے اس کی محبت میں بھی اتنی ہی اوج وبلندی ہے اور جس کی نسل میں اصالت نہیں پائی جاتی ان کی محبت میں بھی کمی وکاستی ہے اب جو گھرانہ پیغمبرۖ کا خاندان ہو اس کی محبت کا کیا عالم ہوگا یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
شہر کنعان کے باہر ایک پیڑ تھا جس کو درخت وداع کہا جاتا تھا جب کوئی سفر پر جاتا تھا تو اس کے رشتہ دار اور دوست ویار اس کو اس درخت تک چھوڑنے جاتے تھے۔
جناب یوسف کی ایک بہن تھی جناب یوسف اور وہ دونوں ایک ماں سے تھے جو جناب یوسف کو بہت زیادہ چاہتی تھیں۔
یوسف کے بھائیوں نے جب اپنے پدر سے تفریح کی اجازت یوسف کے لئے لے لی اور جب یوسف کو اپنے ہمراہ لے کے جارہے تھے تو ان کی بہن اس وقت سو رہی تھیں خواب میں کیا دیکھتی ہیں کہ یوسف کے اوپر بھیڑیوں نے حملہ کردیا ہے، دل تڑپ گیا، مضطربانہ خواب سے بیدار ہوگئیں۔ ہر ایک سے پوچھ رہی ہیں کہ میرا بھائی کہاں ہے؟کہا گیا :وہ بھائیوں کے ساتھ صحرا گیا ہے۔ پوچھا بابا کہاں ہیں ؟کہا گیا :ان کو چھوڑنے کے لئے گئے ہیںپس وہ بہن بے تاب ہوگئیںدل ہی دل میں کہنے لگیںکہیں ایسا نہ ہو میرے بھائی کو سب چھوڑ کے کہیںچلے جائیں اور اس پہ بھیڑیا حملہ کردے،اگر بھیڑیہ نے بھائی پر حملہ کردیا تو پھر کیا ہوگا!اگر میرا بھائی مجھ سے چھوٹ گیا تو پھر کیا ہوگا!اس کی فرقت کی تو مجھے تاب نہیں،اس کی جدائی تو مجھ سے برداشت نہیں ۔
چادر کو سر پر ڈال کر بھائیوں کی تلاش میں نکل پڑیں۔درخت وداع تک جب پہونچی تو کیا دیکھا کہ اس کے بھائی وداع کرکے جاچکے ہیں دور سے ان کا سایہ نظر آرہا ہے جو صحرا کے راستے پر در حال حرکت ہے بس وہیں سے چلا رہی ہیں: اے بھائی تھوڑا سا رک جاؤ،تمہیں ایک نظر دیکھ لوں کہیں ایسا نہ ہو تم دیر میں پلٹو اور میں تمہارے انتظار میںکھو جاؤں۔
فریاد یں کررہی ہیں اور اضطراب وپریشانی کی حالت میں دوڑ رہی ہیں۔نگاہیں بھائی کی طرف ہیں اور قدم زمین پر پڑ رہے ہیں، کبھی ٹھوکریں کھا کر گر جاتی ہیں تو کبھی تھک کے بیٹھ جاتی ہیں۔
پوری تلاش ہے کتنی جلدی اپنے بھائی کے پاس پہونچ جاؤں،گرتے پڑتے دست وپا مجروح ہوچکے ہیں مگر وہ اپنی راہ کو ادامہ دیئے ہوئے ہیں۔ قریب پہونچی تو بھائی کے گلے میں اپنی باہوں کو ڈال کے ایک چیخ کے ساتھ بیہوش ہوگئیں۔ ہوش میں آئیں تو آواز دی: بھائی اپنی حفاظت کرنا۔اپنے کو درندوں سے بچائے رکھنا۔ بھائیوں سے جدا نہ ہونا کہ تم پہ کوئی وحشی اکیلا پاکر حملہ کردے۔دونوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل جاری ہے۔ بہن نے آواز دی: بھائی جارہے ہو تو جاؤ خدا حافظ.......مگر جلدی پلٹ کے آنا۔ یہ نگاہیںتمہارے انتظار میں باز ہیں بھائی،یہ دموع تمہاری آس میں جاری ہیں بھائی۔دونوں نے ایک دوسرے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا پھر آنسوؤں کی سوغات لئے ہوئے ایک دوسرے جدا ہوجاتے ہیں۔ (٥٥٧ سحابرحمت)
اب آپ ذرا تصور کریں یوسف کی بہن کو معلوم تھا کہ بھائی سیر وتفریح کے لئے صحرا جارہا ہے پھر اس کے بعد پلٹ کے آئے گا بس ایک خواب تھا جو بہن کو اتنا پریشان کئے ہوئے تھا۔
لیکن ذرااس بہن کے دل سے پوچھیئے جو جانتی ہے کہ بھائی جا تو رہا ہے لیکن پھر کبھی پلٹ کر واپس نہیں آئے گا، وہ بہن کہ جس کو اپنے بھائی کی لمحہ بھر کی جدائی برداشت نہیں ہوتی تھی آج اسی کے سامنے اس کا بھائی مقتل میں جارہا ہے اور ہمیشہ کے لئے اس سے رخصت ہو رہا ہے، سوچیں اس کے دل پر کیا گذری ہوگی جب اس کے بھائی نے اس سے کہا ہوگا:
لَاتَلْطِمِیْ یَابْنَةَ الزَّھْرَاء خَدَّکِ مِنْ قَتْلِیْ
وَاِنْ غَمَرَتْ اَعْضَاکِ اَشْجَانُ
وَلَا تَشُقِّیْ عَلَیَّ الْجَیْبَ صَارِخَةً
فَالشَّقُّ کَشْفُ وَنَشْرُ الشَّعْرِ خِذْلَانُ
لٰکِنْ اِذَا انْصَحْتُ فِی الرَّمْضَائِ مُتَجِدِّلاً
وَانْحَطَّ مِنْ شَامِخِ الْمَعْرُوْفِ بُنْیَانُ
حَنِّیْ حَنِیْنَ حَمَامِ الْاَیْکِ نَادِیَةً
وَاسْتَمْطِرِیْ الدَّمْعَ حَیْثُ السُّحْبُ اَعْیَانُ
وَاِنْ تَفَرَّقَتِ الْاَیْتَامُ فَابْتَذِیِْٔ
بِجَمْعِھَا فَالْجَزَائُ فِی الْبَعْثِ غُفْرَانُ
وَاِنْ یَّشُقَّ عَلَیْھَا سَیْرُ قَائِدِھَا
فَاسْتَرْفِقِیْہِ وَاِنْ عَازقَکِ اِحْسَانُ
وَاسْتَسْقِ مِنْ خَصِیْمِکِ الْمَائَ اِنْ شَکَتْ
عَطَشاً فَرُبَّمَا رَقَّ اِنَّ الشَّطَّ مَلَآنُ
ھَذَا عَلِیّ اَبُوْھَا اِنْ دَعَتْ بِاَبٍ
وَالْمُوْمِنُوْنَ لَھَا فِی اللّٰہِ اِخْوَانُ
١۔ائے خواہر!اے دختر زہراۖ! میرے قتل ہونے کی وجہ سے اپنے رخساروں پر طمانچے نہ لگانا،اگرچہ تمہارا غم واندوہ بہت زیادہ ہوگا،بہن جب میں قتل ہوجاؤں تو میرے غم میں اپنے چہرے کے اوپر سیلی نہ لگانا۔
٢۔اور نہ ہی بہن میری مصیبت میں اپنے جامہ کو پارہ کرناتاکہ تمہارا بدن مکشوف نہ ہو اور نہ ہی اپنے بالوں کو پریشان کرنا تاکہ باعث رسوائی نہ ہو۔
٣۔لیکن اے خواہر مہربان جب میں زمین پر گرجاؤں اور مجھے شہید کردیں اور میرے بدن کو پارہ پارہ کرکے زمین پر پھینک دیںتو جیسے کبوتر درخت کی شاخ کے اوپر بیٹھ کے نالہ کرتاہے اور جیسے آشکار بادل اپنی آنکھوں سے پے در پے آنسو بہاتا ہے ویسے ہی حسین کی مظلومی پر تم بھی آنسو بہا لینا۔
٤۔جب میرے یتیم بچے اس بیابان میں ظالموں کے خوف سے متفرق ہوجائیں تو تم ان کی مادری کرنا اور ان کو ایک جگہ پر جمع کرنا کہ قیامت کے دن یہ آمرزش کا باعث ہے۔
٥۔٦۔اے بہن! اگر اسیری کے وقت ظالم تمہیں سختی ا ور تندی کے ساتھ لے جائیں تو ان سے التماس کرنا کہ نرمی کے ساتھ پیش آئیں اگر چہ میں جانتا ہوں کہ ان کے دلوں میں رحم نہیں ہے اور احسان ومہربانی ان سے واقع نہیں ہوسکتی۔
٧۔بہن! اگر میرے بچے پیاسے ہوجائیں تو ان کے واسطے پانی مانگتا شاید ان کے اوپر وہ رحم کریں اور انہیں پانی پلادیں اس لئے کہ اس صحرا میں کہیں پانی نہیں ہے فقط شط فرات ہے کہ جو پانی سے پُر ہے۔
٨۔بہن! اگرمیرے یتیم بچے اپنے باپ کو تلاش کریں تو یہ میرا بیٹا علی ان کے لئے باپ ہے اور اگر بھائی کو تلاش کریں تو یہ مومنین ان کے لئے بھائی کی جگہ پر ہیں۔
بھائی کے کلام کو سنتے ہی بہن کا چہرہ متغیر ہوگیا، دل تڑپ گیا،لبوں پہ فریاد آگئی: بھیا !کیا زینب اسی دن کے لئے زندہ تھی، ائے کاش اس دن سے پہلے تیری بہن کو موت آگئی ہوتی!اے کاش اس دن سے پہلے یہ تیری زینب خاک کے اندر دفن ہوگئی ہوتی۔
وَااَخَاہُ لَیْتَ السَّمَائَ اِنْطَبَقَتْ عَلیٰ الْاَرْضَ وَلَیْتَ الْجِبَالَ تَدَکْدَکَتْ عَلیٰ السَّھْلِ۔(٦٠٣)
اے وائے بھائی! کاش یہ آسمان زمین کے اوپر گر پڑتا،کاش یہ پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بیابانوں میں بکھر جاتا،کیوں نہیں زمین پھٹ جاتی اور کیوں نہیں فضا میں آندھیا چل جاتیں، سمندروں میں تلاطم کیوں نہیں برپا ہوتا،نظام ہستی میں خلل کیوں نہیں واقع ہوتا ،مظلوم کربلا اس دکھیاری کو سمجھا رہے ہیں،غمزدہ دل کو تسلی دے رہے ہیں: بہن اپنے کو اسیری کے لئے آمادہ کرلواورجو لباس اسیری کے لائق ہے اسے زیب تن کرلو۔
اِسْتَعِدُّ لِلبَلاَئَ واعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ حَافِظُکُمْ وحَامِیْکُمْ وَسَیُنْجِیْکُمْ مِنْ شَرِّ الْاَعْدَائِ وَیَجْعَلُ عَاقِبَةَ اَمْرِکُمْ اِلیٰ خَیْرِ وَیُعَذِّبُ اَعَادِیْکُمْ بِاَنْوَاعِ الْبَلاَئِ وَیُعَوِّضُ کُمُ اللّٰہُ عَنْ ھٰذِہِ الْبَلِیَّةِ اَنْوَاعَ النِّعَمِ وَالْکَرَامَةِفَلَا تَشْکُوْا وَلَا تَقُوْلُوا بِاَلْسِنَتِکُمْ مَا یَنْقُصُ قَدْرَکُمْ۔(٥٩٣ سحاب رحمت)
بہن مصیبت وآلام کے لئے آمادہ ہوجاؤمگر یہ ذہن میں بات رہے کہ خدا تمہارا محافظ ومددگار ہے وہ عنقریب تمہیں دشمنوں کے شر سے نجات دے گا اور تمہارے اعمال کی عاقبت کو ختم بخیر کرے گا، تمہارے دشمنوں کو گونا گون عذابوں میں مبتلا کرے گا، تمہاری اس مصیبت کے بدلے تمہیں مختلف نعمتوں اور کرامتوں سے نوازے گا،بہن !دامن صبر کو ہاتھوں سے مت چھوڑنا اور کبھی بھی اپنی زبان سے ایسی باتیں نہ کرنا جو تمہاری قدر ومنزلت کو گھٹا دے اور تمہارے مقام میں کمی کا باعث بنے۔
بھائی وصیتیں کرکے بہنوں اور بی بییوں کو تسلی دے کے میدان کی طرف جانا چاہ رہا ہے،ہر ایک اشکبار روتے دلوں سے الوداع اور الفراق کی صدائیں بلند کرہے ہیں۔ بچوں کی فریادیں اور عورتوں کے آہ وبکاء نے قیامت کاسماں پیش کر رکھا ہے، امام کا ایک ایک قدم جیسے میدان کی طرف بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ان کے دلوں میں اضطراب کا عالم بڑھا جارہا ہے۔
ابھی تھوڑی دو رپہونچے تھے کہ بہن کو ماں کی وصیت یاد آگئی،بھائی کو آواز دینا چاہتی ہے تو صدا نکل ہی نہیں رہی ہے۔ شدت آہ وزاری نے گلے کو جام کر رکھا ہے جب بہن نے دیکھا کہ آواز ساتھ نہیں دے رہی ہے تو خود ہی بھائی کے پیچھے چل پڑیں، بھائی نے جب آہٹ محسوس کی تو دیکھا کہ بہن روتے ہوئے پیچھے پیچھے چلی آرہی ہے اور آواز دے رہی ہے:
مَھْلاًیَا اَخِیْ تَوَقَّفْ حَتّی اَتَزَوَّدَ مِنْ نَظَرِیْ
اِلَیْکَ فَھٰذَا وِدَاعُ لَا تَلاَقَ بَعْدَہُ
فَمَھْلاً یَا اَخِیْ قَبْلَ الْمَمَاتِ ھُنَیْئَةً
لِتَبْرُدَ مِنِّیْ لَوْعَةُ وَغَلِیْلُ
(٥٦٠ سحاب رحمت)
بھائی جلدی نہ کرو۔ تھوڑا سا رکو ذرا میں جی بھر کے تمہیں دیکھ لوں اور تیرے دیدار سے اپنے بے چین دل کو تسلی دے لوں اس لئے کہ یہ آخری وداع ہے پھر اس کے بعد زینب کو تمہاری ملاقات نصیب نہ ہوگی۔
بھائی تھوڑا صبر کرو اس سے پہلے کہ تیرے دیدار سے محروم ہووں، سوزش دل کو تیرے نظارہ سے کچھ تسکین کرلوں۔
آواز دی: بہن کیا ہوا کہ تم خیمے سے باہر نکل پڑی؟ ابھی تو تیرا بھائی زندہ ہے، ابھی تو حسین کی روح اس کے بدن میں باقی ہے، بہن اپنے کو اتنا زیادہ پریشان مت کرو۔ آج نہیں تو کل ہر ایک کو ایک دوسرے سے جدا ہونا ہے۔آخر موت نے کسی کو چھوڑا ہے۔آخر مرگ نے بھی کسی کو مہلت دی ہے!بہن نے آواز دی: بھائی زینب اپنے خیمے سے باہر نہ آتی مگر کیا کرے اماں کی وصیت یاد آگئی۔اک دن تھا جو شبیہ عاشورا تھا،فراق کا عالم تھا ماں نے آواز دی: میری لال! میں تو نہ رہوں گی مگر ہاں اک وقت آئے گا کہ جب میرا حسین نرغۂ اعدا میں گھرا ہوگا،دشمن اس کے خون کے پیاسے ہوں گے، ایسے میں وہ تم سے وداع کے لئے آئے گا تو میری لال بھولنا نہیں،بوسہ گاہ رسول کو میری طرف سے چوم لینا،بھائی یہ بہن آئی ہے تاکہ ماں کی وصیت کو پورا کردے۔ (٥٦٦ سحاب رحمت)
بیکسی کے عالم میں ماں کی یادنے حسین کو تڑپا دیا،بے ساختہ دل کی گہرائیوں سے پکار اٹھے ۔ماں! ائے کاش تم کربلا میں ہوتی تو دیکھتی یہ نانا کی امت اس کے نواسے کے ساتھ کیسا سلوک کررہی ہے۔ ماں اگر آج تم اس جنگل میں ہوتی تو دیکھتی کہ یہ اشقیا حسین کو کیسا تڑپا کر مار رہے ہیں۔
حسین کی مظلومی پہ تمہاری آنکھوں سے آنسو نہیں رکتاماںاور تجھے اپنے لال کی غریبی پہ سکون نہیں ملتا ماں، تمہاری آنکھیں خون کے آنسو بہاتیں،تمہاری فریادیں زمین کربلا کو ہلا دیتیں۔
بہن نے ماں کی وصیت کو پورا کیا،آشکبار آنکھوں سے بھائی کے چہرے کو دیکھا،آواز دی: بھائی جارہے ہو...... جاؤ خداحافظ مگر یاد رکھنا آپ کے بعد اس بہن کی زندگی پہ خاک ہے۔آپ کے بعد اس زندگی کو سکون نہیں ملے گا بھائی۔
یہ آنکھیں تیری جدائی میں اشکبار ہیں بھیا،یہ جان تیرے فراق میں غمخوار ہے بھیا،حسرت بھری نگاہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آنسو ؤں کے ارمغان کے ساتھ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔
وَلِمِثْلِھِمْ فَلْتَذْرَفِ الدُّمُوْعُ وَالْیَبْکِ الْبَاکُوْنَ وَلْیَنْدُبِ النَّادِبُوْنَ وَلْیَصْرُخِ الصَّارِخُوْنَ وَیَضِجَّ الضَّاجُّوْنَ وَیَعِجَّ الْعَاجُّوْنَ۔(٥٦٦ سحاب رحمت)
آنسوؤں کو ان کے اوپر اور ان کے مانند کے اوپر جاری ہونا چاہیئے، بکاء کرنے والوں کو ان کے اوپر گریہ کرنا چاہئے ،بین کرنے والوں کوان کی مصیبتوں کو بیان کرنا چاہیئے، فریاد کرنے والوں کو ان کے اوپر رونا چاہیئے، غم کے ماروں کو انھیں یاد کرنا چاہیئے،سوگواروں کو ان کے غم میں نالۂ وشیون کرنا چاہئے۔ (نوحہ پڑھنے والوں کو ان کے اوپر نوحہ پڑھنا چاہیئے اور ماتم کرنے والوں کو ان کے اوپر ماتم کرنا چاہئے۔)
مرحوم نوری میرزایحیی نے ابھری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے عالم رؤیا میں علامہ مجلسی کو دیکھا کہ حضرت سید الشہدائ کے صحن مطہر میں درس دے رہے ہیں،شاگردوں کا ہجوم ہے کہ جن کی جمعیت تقریباً پانچ سو افراد پر پھیلی ہوئی تھی اور علامہ مجلسی منبر پر بیٹھ کر درس دے رہے تھے،اثنائے درس میں موعظہ کیا اور جب چاہا کہ مصائب پڑھے تو کسی نے آکے کہا :بی بی فاطمہ فرما رہی ہیں:اُذْکُرِ الْمَصَائِبَ الْمُشْتَمِلَةَ عَلیٰ وِدَاعِ وَلَدِیْ الْحُسَیْنِ الشَّہِیْد۔(٥٦٧سحاب رحمت)
میرے فرزند شہید کے وداع کے مصائب کو پڑھو، ان مصیبتوں کو پڑھو جب میرا بیٹا حسین خیمے میں بی بییوں سے خدا حافظی کررہا تھا،جدائی کے وقت حسین پہ کیا گزر رہی تھی ذرا اس کیفیت کو بیان کرو،فراق کے وقت بی بییوں اور بچوں کا کیا عالم تھا ذرا اس منظر کو سناؤ۔علامہ مجلسی نے بی بی کی فرمایش کے مطابق امام کے وداع کو پڑھا۔جمعیت کے اندر تاب تحمل نہ رہی ،صدائے فریاد سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے فضا بھی ان کے ہمراہ نالۂ وشیون میں مشغول ہے۔ایسی پر شکوہ مجلس ابھی تک میری نظروں کے سامنے نہیں ہوئی تھی،مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے اور جب تک عمر باقی رہے گی وہ منظر یاد رہے گا۔
اربعین حسینیہ میں امام صادق سے روایت ہے کہ انہوں نے مظلوم کربلا کے وداع میں بہت ہی دردناک جملات بیان کئے اور بے انتہا آنسو بہائے۔
اور آواز دی افسوس ہے اس پر کہ جو امام حسین کے وداع کو سنے اور محزون نہ ہو، تف ہے اس پر کہ جو مظلوم کربلا کی جدائی سنے اور اس کا دل غمزدہ نہ ہو۔
یوں تو سبھی مصیبتیں دلوں کو محزون کردیتی ہیں اور آنسوؤں کو جاری کر دیتی ہیںمگر حسین کا وداع اور حسین کی آخری ملاقات وہ مصیبت ہے جو نہ فقط دلوں کو محزون کرتی ہیں اور نہ فقط آنسوؤں کو جاری کرتی ہیں بلکہ غمزدہ دلوں میں آگ لگا دیتی ہے۔
اور عاشقوں کی زبان پر فریاد جاری کرد یتی ہے یہی تو وہ مقام ہے جہاں حسین کی مظلومیت پر آسمان کے ملائکہ نے آنسو بہایا ہے اور یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں پر ظالموں کو بھی صبر حسین پر تعجب ہوا ہے،فرشتوں نے بھی اپنی انگلیوں کو شگفتی کے عالم میں اپنے دانتوں کے تلے دبایا ہے اور جناتوں نے بھی صبر حسین پر نوحہ پڑھا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں پر ارواح انبیاء کے درمیان ہمہمہ مچ گیا ہے، اشیائے کائنات بھی مرجھا گئی ہے یہی وہ مقام ہے جہاں کیلئے امام نے فرمایا ہے:لَقَدْ عَجِبَتْ مِنْ صَبْرِکَ مَلَائِکَةُ السَّمٰواتِ۔ یا ابا عبد اللہ الحسین تیرے صبرپر تو آسمان کے ملائکہ کو بھی تعجب ہوا ہے۔
عجب عالم تھا امام کا آخری دیدار بہت ہی دردناک تھا، ہماری زبانیں بیان سے قاصر ہیں،کوئی کیسے بیان کرے، کوئی کیسے اس منظر کو اپنی زبان پر ڈھالے،اس زبان کے اندر وہ توانائی نہیں اور نہ ہی خامہ کے تحریر کرنے کی تاب ہے۔
ذرا انسان تصور توکرے، ذرا انسان تفکر تو کرے،عالم تخیلات میںاپنی فکر کو گردش تو دے اور اپنی فکری نگاہ سے دیکھے تو سہی کہ وہ کیسا منظر رہا ہوگا کہ جب بی بیاں بچے ہر ایک مانند پروانوں کے شمع امامت کو گھیر کر آنسو بہا رہے تھے، ہر ایک فریاد کررہا تھا امام کو سب تسلی دے رہے تھے ایک کو سمجھاتے تو دوسرا چیخ مار کے روتا تھا،آنسوؤں کے قطرات بارش کی طرح ان کے رخساروں پر سے گزر رہے تھے اور ایسے میں امام صبر وحلم کی وصیت فرما رہے تھے کبھی بچوں سے مخاطب ہوتے تھے تو کھی بی بیوں سے اور کبھی روکر فرماتے تھے:وَکَاَنِّیْ بِکُمْ غَیْرَ بَعِیْدٍ کَالْعَبِیْدِ یَسُوْقُوْنَکُمْ اَمَامَ الرِّکَابِ وَیَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْئَ الْعَذَابِ۔
بہن گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بہت جلد تم لوگوں کو یہ ظالم غلاموں اور کنیزوں کی طرح اسیر کرکے اپنے گھوڑوں کے سامنے دوڑا رہے ہیں اور تازیانوں سے مار رہے ہیں اور بہت ہی دردناک طریقے سے تم لوگوں کو لے جارہے ہیں۔
کبھی بیبیوں سے مخاطب ہوکر فرما تے تھے کہ اب اسیری کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرلو اور اپنے لباسوں کو بدل کے پھٹے پرانے کپڑوں کو زیب تن کرلو،جو کپڑے اسیری کے لائق ہے اسے پہن لو۔
امام کے اس جملے نے بیبیوں کے اندر اک کہرام مچا دیا، ہر ایک کی زبان پر فریاد ہے اور ہر ایک کے لب پہ بین، جب صدائے گریہ بہت بلند ہوگئی تو امام نے آواز دی:مَھْلاً مَھْلاً فَاِنَّ الْبُکَائَ اَمَامَ کُنَّ۔صبر کرو چپ ہوجاؤ ابھی تم لوگوں کو بہت رونا ہے ابھی گریہ تو تمہارے سامنے ہے،ابھی فریادیں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔
اِیْتُوْنِیْ بِثَوْبٍ عَتِیْقٍ لَا یُرْغَبُ فِیْہِ اَجْعَلُہُ تَحْتَ ثِیَابِیْ لَئَلّاَ اُجِرَّ دَ بَعْدَ قَتْلِیْ۔فَاِنِّیْ مَقْتُوْل مَسْلُوْب۔بہن کوئی کہنہ پیراہن لاؤ کہ جس میں کسی کو رغبت نہ ہو، میں اس کو اپنے کپڑوں کے نیچے پہن لیتا ہوں شاید میرے قتل کے بعد مجھے برہنہ نہ کریں اس لئے کہ جیسے ہی میں قتل ہوں گا میرا لباس بھی یہ لوگ میرے بدن سے اتار لیں گے۔
بہن نے ایک پھٹا پرانہ جامہ دیا،امام نے اس جامے کو بھی کئی جگہ سے پارہ کیا اس کے بعد اسے زیر لباس پہن لیا۔
فَلَمَّا قُتِلَ جَرَّ دُوْہُ مِنْہُ.لیکن جب حسین شہید ہوگئے تواس جامے کو بھی لعینوں نے بدن سے اتار لیا اور حسین کا بدن تپتی زمین پر عریان چھوڑ دیا، اپنے مقتولوں کو دفن کردیا مگر فرزند مصطفیۖ کو ویسے ہی بے گوروکفن کربلا کے جنگل میں چھوڑ دیا۔
مَنْ مُخْبِرُ الزَّھْرَائِ اَنَّ حُسَیْنَ ھَا
بَیْنَ الْوَریٰ عَارٍ عَلیٰ تَلْعَاتِھَا
وَرُؤُوْسُ اَبْنَاھَا عَلیٰ سُمْرِالْقَنَا
وَبَنَاتُھَا تُھْدِیْ اِلیٰ شَامَاتِھَا
یَا فَاطِمَةُ الزَّھْرَائُ قُوْمِیْ وَانْدُبِیْ
اَسْرَاکِ فِی اَشْرَاکِ ذُلِّ عِدَائِھَا
(٥٦٢سحاب رحمت)
کون ہے جو زہراۖ کو بتائے کہ اس کے حسین کو عریان بیابانوں کے درمیان پھینک رکھا ہے۔
کون ہے جو زہراۖ کو خبر دے کہ اس کے بچوں کے سروں کو نیزے پر چڑھا کے، اس کی بچیوں کو شام لے جایا جارہا ہے۔
ائے بی بی فاطمہ ۖ اٹھیں روئیں اور نوحہ پڑھیں اپنے غریب اور اسیر بچوں پر کہ جو دشمنوں کے مکرو فریب میں مبتلا اور ذلت وخواری میں گرفتار ہوگئے ہیں۔
جناب علی ثمری اپنی کتاب شرح شمع میں لکھتے ہیں کہ امام نے اپنے اہل حرم سے سات بار وداع فرمایا:
امام کا پہلا وداع اور آنحضرت کا مدد طلب کرنا
جب دشمنوں کا شور وغل حد سے زیادہ بڑھ گیا اور محاصرہ کافی تنگ ہوگیا تو امام نے سپاہ اعداء پر حملہ کیا اور تلۂ زینبیہ کو اپنا محل استقرار بنایا۔ پھر دشمنوں کے قلب لشکر پر حملہ کیا جب سب پراکندہ ہوگئے تو امام دوبارہ اپنے محل استقرار (تلۂ زینبیہ) پر آئے اور نیزہ کو زمین پر مارکر اتمام حجت کے لئے بلند آواز میں فرمایا:ھَلْ مِنْ ذَابٍّ یُذُبُّ عَنْ حَرَمَ رَسُوْلِ اللّٰہِ؟ھَلْ مِنْ مُوَحِّدٍ یَخَافُ اللّٰہَ فِیْنَا؟ھَلْ مِنْ مُغِیْثٍ یَرْجُوْ اللّٰہَ فِی اِغَاثَتِنَا؟ھَلْ مِنْ مُعِیْنٍ یَرْجُوْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ فِیْ اَغَاثَتِنَا؟
کوئی ہے جو حرم رسول کا دفاع کرے؟ کوئی خدا پرست ہے جو خڈا سے ڈرے اور ظلم وستم کو ہم سے دور کرے ؟کوئی دیندار ہے جو ہماری فریاد رسی کرکے خدا سے اس کی پاداش چاہے؟کوئی ہے جو ہماری مدد کرکے خداوند علم کے اجر وثواب کی امید رکھے۔
امام کی نصرت کے واسطے جنی قبائل کا آنا
طریحی نے اپنے منتخب میں لکھا ہے کہ جیسے ہی امام نے صدائے استغاثہ بلند کی، جنی قبائل حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:یا ابا عبد اللہ ہم سب آپ کے انصار ہیں۔ اگر اجازت دیں ہم میدان میں جائیں اور ان کافروں کو درک واصل کریں اس طرح سے کہ کوئی بھی زندہ باقی نہ بچے۔ امام نے انھیں اپنی دعائے خیر میں یاد کرتے ہوئے فرمایا:اِنِّیْ لَا اُخَالِفُ قَوْلَ جَدِّیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ، حَیْثُ اَمَرَنِیْ بِالْقُدُوْمِ عَلَیْہِ عَاجِلاً۔ وَاِنِّیْ الْآنَ لَقَدْ رَقَدْتُ سَاعَةً، فَرَأیْتُ جَدِّیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَدْ ضَمَّنِیْ اِلیٰ صَدْرِہِ وَقَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیَّ وَقَالَ لَیْ:یَا حُسَیْنُ! اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَائَ:اَنْ یَّرَاکَ مَقْتُوْلاً،مُلَطَّخاً بِدِمَائِکَ، مُخَضِّباً شَیْبُکَ بِدَمَائِکَ، مَذْبُوْحاً مِنْ قَفَاکَ، فَقَدْ شَائَ اللّٰہُ! اَنْ یَّرَیٰ حَرَمَکَ سَبَایَا عَلیٰ اَقْتَاالْمَطَایَا،وَاِنِّیْ وَاللّٰہِ سَاَصْبِرُ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ بِاَمْرِہِ وَھُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِیْنَ۔میں رسول خداۖ کے فرمان کی مخالفت نہیں کروں گا۔انہوں نے شتابانہ مجھے طلب فرمایا ہے،ابھی تھوڑی دیر پہلے میں سوگیا تھا کہ خواب میں دیکھا،آنحضرتۖ نے مجھے گلے لگایا اور میری پیشانی کو بوسہ لیتے ہوئے فرمایا:حسین ! خداوند عالم چاہتا ہے کہ تجھے مقتول اپنے خون میں لت پت دیکھے۔ تیرا سر تن سے جدا اور تیرے محاسن کو تیرے خون میں خضاب ہوتے دیکھے۔ وہ چاہتا ہے کہ تیرے اہل بیت کو اسیر اور انھیں بے کجاوہ اونٹ پر بیٹھتے دیکھے۔میں بھی قضائے پروردگار پر راضی ہوں اور جس چیز پر اس نے حکم دیا ہے اس پر صابر ہوں کیونکہ وہ بہترین حکم کرنے والا ہے۔(ناسخ التواریخ، ج١، ص٣٥٨)
مقتل خوارزمی میں لکھا ہے کہ رسول خداۖ نے امام حسین سے فرمایا: اِنَّ لَکَ فِی الْجَنَّةِ دَرَجَةً لَنْ تَنَالَھَا اِلَّا بِالشَّھَادَةِ۔ تیرے واسطے جنت میں ایک مقام ہے کہ جسے بغیر شہادت کے حاصل نہیں کرسکتے لہٰذا روز طف تیر وسناں کے زخموں پر صابر رہنا۔
یہی وہ امام کی وہ صدائے استغاثہ تھی کہ جسے سنتے ہی سید سجاد بستر علالت کو چھوڑ دیتے ہیں اگرچہ ناتوانی کی وجہ سے اتنی طاقت نہیں تھی کہ تلوار ونیزہ اٹھاتے لیکن پھر بھی نیزہ پکڑ کر اور دوسری روایت کے مطابق تلوار اٹھا کر گرتے پڑتے میدان کی راہ جانے لگے جناب ام کلثوم نے انھیں پیچھے سے آواز دی: بھتیجے! پلٹ آؤ۔فَقَالَ:یَا عَمَّتَا! ذَرِیْنِیْ اُقَاتِلْ بَیْنَ یَدَیْ ابْنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۔پھوپھی اماں! مجھے چھوڑدیں تاکہ فرزند پیغمبرۖ کے سامنے جہاد کروں۔ فَقَالَ الْحُسَیْنُ: یَا اُمَّ کُلْثُوْمَ! خُذِیْہِ لَئَلَّا تَبْقیٰ الْاَرْضُ خَالِیَةً مِنْ نَسْلِ آلِ مُحَمَّدٍ۔ امام حسین نے فرمایا:ام کلثوم اسے خیمے میں لے جاؤ تاکہ زمین نسل آل محمدۖ سے خالی نہ ہو۔(ناسخ التواریخ،ج١،ص٣٥٩)
ادھر امام کے استغاثہ کا بلند ہونا تھا ادھر ان کی غربت پر اہل حرم کا دامن صبر ہاتھوں سے چھوٹ جاتا تھا ،نالۂ وشیون کی صدا سربفلک گونج اٹھی خیام حسینی میں ایک کہرام مچ گیا ۔بعض نے لکھا ہے کہ یہی وہ وقت تھا جب شیر خوار نے اپنے آپ کو گہوارے سے گرایا تھا بے زبان بچے کا خود جھولے سے گرادینا مزید بیبیوں کے آہ وزاری کا سبب بنا کیونکہ بیبیاں سمجھ گئیں کہ یہ بھی اپنے مولا کی اتنی کمسنی کے باوجود امداد کرنا چاہتا ہے۔بیبیوں کے دلخراش بین نے مجبور کیا کہ امام پھر خیمہ میں جاکر ان کی احوال پرسی کریں۔
امام کا دوسرا وداع اور شیر خوار کی شہادت
امام در خیمہ پر آئے،بیبیوں کی دلداری فرمائی، عازم میدان ہوتے وقت امام کو شیر خوار کی یاد آئی فرمایا: نَا وِلُوْنِیْ بِوَلَدِیَ الرَّضِیْعَ حَتّٰی اُوَدِّعَہُ۔میرے شیر خوار کو لاؤ تاکہ اس سے بھی وداع ہولوں۔جب جناب علی اصغر کو امام کے پاس لایا گیا ۔ کیا دیکھا کہ شدت عطش سے بچے کے اندر رمق بھی باقی نہیں ہے بالکل بے آب مچھلیوں کی طرح کبھی منھ کو بند کرتے ہیں تو کبھی کھولتے ہیں۔ دل تڑپ گیا ،آنکھوں سے آنسوں ٹپک پڑے، پھر پدری نے جوش مارا، فرط محبت سے بچے کو اپنی عبا کے دامن میں چھپایا۔ کہیں ایسا نہ ہو کڑکتی دھوپ سے بچہ جاں بلب نہ ہوجائے۔ بیٹے کی حالت نے سوال آب پر مجبور کردیا، دل کہہ رہا ہے کہ پانی نہیں ملے گا لیکن وہیں پر امید کہہ رہی ہے ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل میں رحم آجائے اور وہ اصغر کو پانی پلادے۔اگر کسی نے پانی نہیں پلایا تو کم از کم اپنی طرف سے حجت تو تمام ہوچکی ہوگی۔ بچے کو عبا کے دامن میں لپیٹے ہوئے فوج اشقیاء کی طرف بڑھے۔ حمید بن مسلم نقل کرتا ہے:ہم نے سمجھا کہ حسین قرآن لا رہے ہیں تاکہ ہمیں قرآن کی قسم دیں لیکن جب انہوں نے عبا کے دامن کو ہٹایا تو سب نے دیکھا کہ وہ اپنے شیر خوار کو ہاتھوں پر سنبھالے ہوئے لائے ہیں۔فوج اشقیاء کو خطاب کرکے فرمایا:یَا قَوْمِ! اِنْ لَمْ تَرْحَمُوْنِیْ فَارْحَمُوْاھٰذَا الطِّفْلِ اَمَا تَرَوْنَہُ کَیْفَ یَتَلَظّیٰ عَطَشاً۔ائے لوگو!اگر تم مجھ پر رحم نہیں کرتے ہو تو کم سے کم اس بچہ پررحم کرو۔ کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ شدت عطش سے یہ کس طرح بے آب مچھلیوں کی طرح تڑپ رہا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر فوج اشقیاء میں بھی ہلچل مچ گئی بعض نے کہا ایک چلو پانی پلا دینے سے کیا ہوجائے گا قریب تھا کہ ان کے تفرقہ ہوجائیں کہ اتنے میں عمر سعد نے حرملہ سے کہا: تو کیوں نہیں حسین کی باتوں کا جواب دیتا۔ فَرَمَاہُ حَرْمَلَةُ بْنُ کَاھِلِ الْاَسَدِیْ بِسَھْمٍ فَذَبَحَہُ مِنَ الْاُذُنِ اِلیٰ الْاُذُنِ فِی حِجْرِ الْحُسَیْنِ۔(شرح شمع،ص٢٣٨)
پس حرملہ نے بچے کو ایسا تیر کا نشانہ بنایا کہ ششماہہ باپ کی آغوش میں ذبح ہوگیا۔بیٹے کا ہاتھوں پر منقلب ہوجانا باپ کو بے قرار کردیتا ہے۔ پانی کے سوال پر کیا جواب ملا کہ بیٹے کو پوری زندگی پامال ہوگئی بے ساختہ ہاتھ جانب آسمان بلند ہوگئے:اَلّٰلھُمَّ احْکُمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمٍ دَعَوْنَا لِیَنْصُرُوْنَا فَقَتَلُوْنَا۔پروردگار تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ کر کہ انہوں نے ہمیں دعوت دی تاکہ ہماری مدد کریں اور اب ہمیں کو قتل کررہے ہیں۔ابن جوزی کہ جو اہل سنت والجماعت کے مشہور ومعروف علماء میں سے ہیں ان کی روایت کے مطابق اس وقت آواز غیب آئی:دَعْ یَا حُسَیْنُ فَاِنَّ لَہُ مُرْضِعاً فِی الْجَنَّةِ۔حسین ! تم علی اصغر کو ہم پر چھوڑ دو ہم نے بہشت میںاس کے لئے ایک دائی کا انتظام کردیا ہے۔(ناسخ التواریخ،ج١،ص٣٦٤)
امام نے فرمایا: ھَوَّنَ مَا نَزَلَ بِیْ اِنَّہُ بِعَیْنِ اللّٰہِ تَعالیٰ اَلّٰلھُمَّ لَا یَکُوْنَ اَھْوَنَ عَلَیْکَ مِنْ فَصِیْلٍ، اَلّٰلھُمَّ اِنْ کُنْتَ َ حَبَسْتَ عَنَّا النَّصْرَ فَاجْعَلْہُ لِمَا خَیْر مِنْہُ وَانْتَقِمْ لَنَا مِنَ الظَّالِمِیْنَ وَاجْعَلْ مَاحَلَّ لَنَا فِی الْعَاجِلِ ذَخِیْرَةَ فِی الْآجِلِ۔ پروردگارا چونکہ تو دیکھ رہا ہے لہٰذا جو بھی مجھ پر گذرے سب آسان ہے۔ معبود میرا شیر خوار تیرے نزدیک ناقۂ صالح سے کم نہیں تھا اگر تونے اس وقت ہماری مدد کرنے میں مصلحت نہیں سمجھی تو ہمارا انتقام اس ظالم قوم سے لینا اور جو دنیا میں ہمارے ساتھ ہورہا ہے اسے آخرت میں ہمارے لئے ذخیرہ قرار دینا۔
امام کاتیسرا وداع اور ان کا بہر فرات میں داخل ہونا
بیٹے کی دردناک شہادت نے سخت صدمہ پہونچایا۔ طریحی کا بیان ہے:اس وقت حسین کبھی کھڑے ہوتے تھے تو کبھی بیٹھ جاتے تھے۔ شاید بیٹے کے سوگ نے باپ کو ناتوان کردیا تھا یا بیٹے کا پچھلا زمانہ یاد آگیا تھا، اصغر کا ہمک کر گود میں آنا اور آغوش میں محاسن کے ساتھ کھیلنا یا پھر روز عاشورہ شدت تشنگی سے لبوں کو کھولنا بند کرنا اور تیر سہ شعبہ کا نشانہ بن جانا نظروں میں گھوم رہا تھا۔ پھر ایک بار غضبناک شیر کی طرح لشکر کے مد مقابل آکر عمر سعد کو طلب کیا آواز دی: تین فیصلوں میں سے ایک کو انتخاب کرو۔
ایک: تو ہمیں چھوڑدے تاکہ ہم مدینہ جائیں اور اپنے نانا رسول خداۖ کے دیار میں رہیں؟ عمر سعد نے کہا: یہ نہیں ہوسکتا۔
دو: ہمیں پانی دے کہ شدت عطش سے ہمارا جگر منھ کو آگیا ہے؟عمر سعد نے کہا: یہ بھی ممکن نہیں۔
تین:میں تنہا ہوں اور تم سے تنہا جنگ کر رہا ہوں تم بھی یک بعد دیگرے تنہا تنہا مجھ سے نبرد کرو؟ عمر سعد نے کہا:یہ ہوسکتا ہے۔بس شیر خدا کے شیر نے میدان قتال میں قدم رکھا، شجاعت حیدری پورے وجود میں سماگئی، بی بی زہراۖ کا پاک وپاکیزہ لہو رگوں میں دوڑ گیا۔رسول اعظمۖ کی گھٹی میں چوسی ہوئی زبان کی جلوہ گری ہوئی اور پھر ان کے آتشیں خطبوں کی طرح رجز کی صورت میں یوں گویا ہوئی:
اَنَا ابْنُ عَلِیِّ الطُّھْرِمِنْ آلِ ھَاشِمٍ
کَفَانِیْ بِھٰذَا مُفْخَراً حِیْنَ اَفْخَرُ
وَجَدِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَکْرَمُ مَنْ مَشیٰ
وَنَحْنُ سِرَاجُ اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ یَزْھَرُ
وَفَاطِمُ اُمِّیْ مِنْ سُلَالَةِ اَحْمَدِ
وَعَحَّیْ یُدْعیٰ ذَا الْجَنَاحَیْنِ جَعْفَرُ
وَفِیْنَا کِتَابُ اللّٰہِ اُنْزِلَ صَادِقاً
وَفِیْنَا الْھُدیٰ وَالْوَحْیُ بِالْخَیْرِ یُذْکِرُ
وَنَحْنُ اَمَانُ اللّٰہِ لِلنَّاسِ کُلِّھِمْ
نُسِرُّ بِھَذَا فِی الْاَنَامِ وَنُجْھِرُ
وَنَحْنُ وُلَاةُ الْحَوْضِ نَسْقِیْ مُحِبَّنَا
بِکَاسِ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَا لَیْسَ یُنْکَرُ
اِذَا مَا أَتیٰ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ظَامِئاً
اِلیٰ الْحَوْضِ یَسْقِیْہِ بِکَفَّیْہِ حَیْدَرُ
اِمَام مُطَاع اَوْجَبَ اللّٰہُ حَقَّہُ
عَلیٰ النَّاسِ جَمْعاً وَالَّذِیْ کَانَ یَنْظُرُ
وَشِیْعَتُنَا فِی النَّاسِ اَکْرَمُ شِیْعَةٍ
وَمُبْغِضُنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَخْسَرُ
فَطُوْبیٰ لِعَبْدٍ زَارَنَا بَعْدَ مَوْتِنَا
بِجَنَّةِ عَدْنٍ صَفْوُمَالَا یُکَدَّرُ
حضرت سید الشہداء کے رجز سے ذہن ملتا ہے، چونکہ کوفیوں نے ان سے کہا تھاکہ ہم تمہارے باپ کے کینہ کی وجہ سے تمہیں قتل کررہے ہیں۔ آنحضرتۖ نے اپنے رجز میں اپنے باپ کے فضائل ومناقب بیان کرکے بتانا چاہا ہے کہ تمہاری آنکھیں اندھی ہوں مجھے ایسے باپ پہ بہت فخر ہے۔
١۔میں پاک وپاکیزہ علی کا بیٹا خاندان بنی ہاشم سے ہوں۔ اگر میں اس پر فخر ومباہات کروں تو یہ میرے افتخار کے لئے بس ہے۔
٢۔بعض مقاتل نے مشی کی جگہ مضی لکھا ہے۔من مشی سے کنایہ تمام لوگ ہیں اور من مضی سے مراد گذشتگان ہیں۔
٣۔میری ماں فاطمہۖ دختر خاتم الانبیاء ہیں اور میرے چچا جعفر کو ذوالجناحین(دوبال وپر والا) کہا جاتا ہے۔ چونکہ جناب جعفر کے دونوں بازوجنگ موتہ میں شہید ہوگئے تھے لہٰذا نبی کریمۖ نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ جعفر کو خدا نے دو بال وپر عطا کئے ہیں کہ جن کے ذریعہ وہ فرشتوں کے دوشادوش پرواز کرتے ہیں۔ جبھی سے ان کا لقب ذوالجناحین پڑگیا۔
٤۔بیشک کتاب خدا ہماری شان میں نازل ہوئی ہے اور ہدایت وحی ہمارے متعلق خیر ونیکی کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔
٥۔ہم تمام لوگوں کے لئے عذاب خدا سے اللہ کی پناہ ہیں اس مطلب کو ہم کبھی لوگوں سے چھپاتے ہیں تو کبھی آشکار کرتے ہیں۔(یا اس لئے ہم کبھی لوگوں میں چھپے ہیں تو کبھی آشکار ہیں)
٦۔ہم حوض کوثر کے مالک ہیں ہم رسول خداۖ کے جام سے اپنے چاہنے والوں کو سیراب کریں گے یہ وہ سخن ہے کہ جس کا انکار ناممکن ہے۔
٧۔جب ہمارے چاہنے والے تشنہ کام حوض کی طرف آئیں گے میرے بابا حیدر کرار خود انھیں اپنے ہاتھوں سے پانی پلائیں گے۔
٨۔وہ امام ہیں اور رہبر کہ جن کے حق کو خداوند عالم نے تمام لوگوں پر واجب قرار دیا ہے وہی کہ جو سب کا نگہبان ہے۔
٩۔ہمارے پیرو ہمارے شیعہ لوگوں کے درمیان بہترین پیرو ہیں اور ہمارے دشمن قیامت کے دن اہل خسران، نقصان اٹھانے والے ہیں۔
١٠۔پس سعادتمند ہے وہ بندہ کہ جو ہماری موت کے بعد ہماری زیارت کرے اور بدلے میں بہشت بریں کو حاصل کرے کہ جس کی خالص نعمتیں کبھی خراب نہیں ہوں گی۔
رہوار کو ایڑ لگائی اور تلوار سے غلاف ہٹلائی،مرتجزنے کبھی دلکی کبھی طوفانی چال سے فضا کو گردوغبار کا بھنور بنادیا، قرار داد کے مطابق یک بعد دیگرے میدان میں آکر اپنی حرب وضرب کا جلوہ دنیا پر عیاں کریں۔ سب سے پہلے تمیم بن قحطبہ کہ جو شام کے نامی گرامی پہلوانوں میں سے تھا ہاتھی کی طرح دہاڑتا اور چیتے کی طرح چنگھاڑتا ہوا میدان کا رزار میں اترا۔ اس بے خبر کو نہیں معلوم تھا کہ جب بجلیاں کڑک کر گرتی ہیں تو موت پہلے آتی ہے اور موت کا احساس بعد میں ہوتا ہے۔ابھی وہ اپنے فیل ہیکل پر اترا ہی رہا تھا کہ شیر ذوالجلال کے شیر ببر نے ایسا برق خاطف کی طرح اسے اپنی زد میں لیا کہ سر پہلے ہوا میں اڑا اور دم بعد میں راہیٔ عدم ہوا۔ پھر یک بعد دیگرے باری باری مشہور ومعروف پہلوانوں کو موت میدان میں کھینچتی رہی اور وہ سب کے سب سالار شہیدان کے ہاتھوں دار البوار کا ایندھن بنتے رہے۔ یہاں تک کہ صحرائے لق ودق لالہ زار میں تبدیل ہوگیا اور مقتولین کی تعداد ، شمار کے باہر ہوگئی۔ عمر سعد سمجھ گیا کہ دشت خلقت کی وسعتوں میں کسی کے اندر اتنی تاب وتوان نہیں کہ جو حسین کے ساتھ تنہا مقابلہ کرسکے۔ اگر ایسے ہی نوبت دار سپاہی ان سے نبرد پر جاتا رہے تو پورا لشکر ہی تار ومار ہوجائے گا لہٰذاعہد شکنی کا بیڑا اٹھایا اور اپنے قول سے مکرتا ہوا لشکر والوں پر بانگ لگانے لگتا ہے:وَقَالَ:وَیْل لَکُمْ،أَتَدْرُوْنَ لِمَنْ تُقَاتِلُوْنَ؟ھٰذَا ابْنُ الْاَنْزَعِ الْبَطِیْنِ ھٰذَا ابْنُ قُتَّالِ الْعَرَبِ،فَاحْمِلُوْا عَلَیْہِ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ۔کہا:تف ہو تم لوگوں پر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم کس سے پیکار کررہے ہو! وہ انزع بطین(مولائے کائنات کا لقب ہے انزع:جس کے دوطرف پیشانی پر بال نہ اگا ہو، بطین:جس کا شکم بزرگ ہو)غالب کل غالب علی بن ابی طالب کا فرزند ہے یہ اس کا بیٹا ہے کہ جس نے عرب قوم کے کسی شجاع ودلیر کو باقی نہیں چھوڑا ہے بلکہ سب کو تن تنہا تہ تیغ کیا ہے۔ لہٰذا ایک ساتھ مل کر اس پر حملہ کرو۔ تیس ہزار کا لشکر،دریا کی طغیانی کی طرح حرکت میں آیا۔ حسین کہ جو یگانۂ شہسوار عرب وعجم کے بیٹے شمشیر پروردہ تھے اپنے بابا کی طرح اپنی جگہ پر ثابت کھڑے رہے۔ اسلحوں میں غرق امنڈتا ہوا تیس ہزارہ لشکری طوفان، حسین کے قدم کو ڈگمگانہیں سکا اور نہ ہی سورج کی حرارت ، بھوک وپیاس کی شدت، بال بچوں کی رقت اور صبح سے لے کر عصر عاشورہ تک کی تھکاوٹ، حسین کے قدم کو ہلا سکی، بس دشت نینوا میں حسین تھے اور نرغۂ اعداء ،صحرائے کربلا میں زہراۖ کا لال تھا اور چاروں طرف اشقیائ، جبیں پر غضب کی سلوٹیں چڑھیں، شیروں کی طرح زئیری آواز میں یوں رجز پڑھا:
کَفَرَ الْقَوْمُ وَقِدْماً رَغِبُوْا
عَنْ ثَوَابِ اللّٰہِ رَبِّ الثَّقْلَیْنِ
قَتَلَ الْقَوْمُ عَلِیّاً وَابْنَہُ
حَسَنَ الْخَیْرِ کَرِیْمُ الطَّرَفَیْنِ
حَنَقاً مِنْھُمْ وَقَالُوْا اَجْمِعُوْا
اُحْشِرُوْا النَّاسَ اِلیٰ حَرْبِ الْحُسَیْنِ
یَالْقَوْمٍ مِنْ اُنَاسٍ رُذَّلِ
جَمَعُوْا الْجَمْعَ لِاَھْلِ الْحَرَمَیْنِ
ثُمَّ سَارُوْا وَتَوَاصَوْا کُلُّھُمْ
بِاجْتِیَاحِیْ لِرِضَائِ الْمُلْحِدِیْنِ
لَمْ یَخَافُوْا اللّٰہَ فِی سَفْکِ دَمِیْ
لِعُبَیْدِ اللّٰہِ نَسْلِ الْکَافِرَیْنِ
وَابْنُ سَعْدٍ قَدْرَ مَانِیْ عَنْوَةٍ
بِجُنُوْدٍ کَوُکُوْفِ الْھَاطِلَیْنِ
لَالِشَیْئٍ کَانَ مِنِّیْْ قَبْلَ ذَا
غَیْرِ فَخْرِیْ بِضَیَائِ الْفَرْقَدَیْنِ
بِعَلِیِّ الْخَیْرِ مِنْ بَعْدِ النَّبِی
وَالنَّبِیِّ الْقُرَشِیِّ الْوَالِدَیْنِ
خَیْرَةُ اللّٰہِ مِنَ الْخَلْقِ اَبِیْ
ثُمَّ اُمِّیْ فَاَنَا ابْننُ الْخَیْرَ تَیْنِ
فِضَّة قَدْ خَلَصَتْ مِنْ ذَھَبٍ
فَاَنَا الْفِضَّةُ وَابْنُ الذَّھَبَیْنِ
مَنْ لَہُ جَدّ کَجَدِّیْ فِی الْوَرَی؟
اَوْ شَیْخِیْ فَاَنَا ابْنُ الْعَلَمَیْنِ
فَاطِمُ الزَّھْرَائُ اُمِّیْ وَاَبِیْ
قَاصِمُ الْکُفْرِ بِبَدْرٍ وَحُنَیْنِ
عَبَدَ اللّٰہَ غُلَاماً یَافِعاً
وَقُرَیْْش یَعْبُدُوْنَ الْوَاثَیْنِ
یَعْبُدُوْنَ الْلاَتَ وَالْعُزّیٰ مَعاً
وَعَلِیّ کَانَ صَلّٰی الْقَبْلَتَیْنِ
فَاَبِیْ شَمْس وَاُمِّیْ قَمَر
وَاَنَا الْکَوْکَبُ وَابْنُ الْقَمَرَیْنِ
وَلَہُ فِیْ یَوْمِ أُحْدٍ وَقْعَة
شَفَتِ الْغِلَّ بَغَضِّ الْعَسْکَرَیْنِ
ثُمَّ فِی الْاَحْزَابِ وَالْفَتْحِ مَعاً
کَانَ فِیْھَا حَتْفُ اَھْلِ الْفَیْلَقَیْنِ
فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ مَاذَا صَنَعَتْ
اُمَّة السُّوْئِ مَعاً بِالْعِتْرَتَیْنِ؟
عِتْرَةُ الْبِرِّ النَّبِیِّ الْمُصْطَفیٰ
وَ عَلِیِّ الْوَرْدِ یَوْمَ الْجَحْفَلَیْنِ
حضرت سید الشہداء کے اشعار کا ترجمہ ایک ایک شعر کا جداگانہ کیا ہے مگر جہاں پر دو اشعار کے درمیان معنوی ارتباط ہے ان دونوں اشعار کا ترجمہ ایک ہی شمارہ میں کیا ہے۔
١۔یہ قوم بے دین ہوگئی اور پہلے ہی سے خداوند عالم کہ جو جن وانس کا پروردگار ہے اس کے ثواب سے روگردان ہوگئی۔
٢۔اس قوم نے بغض وکینہ کی وجہ سے علی کو اور اس کے نیک بیٹے حسن کو کہ جس کے ماں باپ دونوں برزگوار ہیں قتال کیا اور کہا:محکم ارادہ کرو اور حسین سے جنگ کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کرو۔(بعض مقاتل میں آخری مصراع''نفسک الان جمیعاً بالحین'') ذکر ہوا ہے۔
٣۔ائے قوم! فریاد تو ان پست وحقیر لوگوں سے ہے کہ جو اہل مکہ ومدینہ پر گروہ گروہ لوگوں کو جمع کیا۔
٤۔پھر روانہ ہوئے اور دو بے دین(یزید وابن زیاد) کی خوشنودی کے لئے مجھے قتل کرنے کی ایک دوسرے سے سفارش کی۔
٥۔دوکافر زادہ عبید اللہ کی خاطر میرے خون بہانے میں وہ لوگ خدا سے نہیں ڈرے۔
٦۔اس شعر کا دو معنی کیا جاسکتا ہے۔(١)پسر سعد مجھ پر ظلم وستم کرنے کے لئے تیز بارش کی طرف ایک لشکر لے کر مجھ پر ٹوٹ پڑا۔(٢)پسر سعدظلم وستم کرنے کے لئے ایک لشکر کے ساتھ بارش کی طرح مجھے سخت تیر باران کیا۔معنائے اول کی بنا پر حرف(بائ) تعدیہ کے لئے ہے اور رمانی سے متعلق ہے اور دوسرے معنی کی بنا پر وہ(مع) کے معنی میںاس تیر کی طرف اشارہ ہے جو عمر سعد صبح عاشور امام کی طرف کی تھی۔
٧۔(ان کا کینہ میرے متعلق) کوئی(گناہ وجنایت) کی وجہ سے نہیں ہے کہ جو مجھ سے پہلے ہوا ہو بلکہ فقط میرا افتخار کرنا ان تابان دوستاروں کی روشنی پر ہے:ایک پیغمبرۖ کہ جن کے ماں باپ قریشی ہیں اور دوسرے علی کہ جو پیغمبرۖ کے بعد بہترین فرد ہیں۔
٨۔لوگوں کے درمیان خدا کا پسندیدہ اور محبوب میرے بابا اور پھر میری ماں ہیں پس میں خدا کے دو محبوب کا بیٹا ہوں۔
٩۔(فضہ کہ جس کے معنی چاندی کے ہیں اس سے مراد خودآنحضرتۖ ہیں اور ذھب کہ جس کا معنی سونا ہے)یا فضہ سے مراد ان کی ماں زہراۖ ہیں اور ذھب یعنی سونا سے مراد رسول خداۖ ہیں پس پہلے احتمال کی بناء پر شعر کا معنی اسی طرح سے ہوگا)میں وہ چاندی ہوں کہ جو سونا سے اخذ کیا گیا ہے، پس میں دو طلا کا بیٹا ہوں۔
١٠۔لوگوں میں کون ہے جس کے نانا اوربابا میرے نانا اور بابا جیسے ہوں پس میں دوسرور کا بیٹا ہوں۔
١١۔میری ماں فاطمہ زہراۖ اور میرے بابا جنگ بدر وحنین کے کفر شکن ہیں۔
١٢۔میرے باپ بچپنے اور جوانی دونوں میں خدا کی پرستش کرتے تھے اور بیت المقدس اور کعبہ کے مد مقابل نماز پڑھا کرتے تھے در حالیکہ قریش لات وعزی کی پوجا کرتے تھے۔
١٣۔پس میرے باپ آفتاب(فلک امامت وولایت) اور میری ماں مہتاب(آسمان عفت وطہارت) ہیں اور میں وہ ستارہ ہوں جو چاند وسورج سے وجود میں آیا ہوں۔(یعنی نور ولایت اور عصمت کو ان دوبزرگواروں سے کسب کیا ہوں)
١٤۔میرے بابا نے جنگ احد میں کفارواشرار کے لشکر کو پراکندہ کرکے اہل ایمان کے دلوں سے غم وغصہ کو دور کیا اور اس طرح سے شفا بخش موقعیت حاصل کی۔
١٥۔پھر جنگ احزاب اور فتح مکہ میں دوسری موقعیت حاصل کی کہ جہاں دوبیکراں لشکر کی ذلت آمیز موت ہوئی۔
١٦۔(یہ سب کام)خدا کی رضایت کے لئے تھا لیکن اس بدکردار امت نے خاندان پیغمبرۖ، برگزیدۂ پروردگار اور خاندان علی ، شیر کارزار کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا۔
طریحی اور ابن شہر آشوب کی روایت کے مطابق درج ذیل اشعار بھی امام نے اپنے اس رجز میں پڑھا ہے:
فَاطِمُ الزَّھْرَائِ اُمِّیْ وَاَبِیْ
وَارِثُ الرُّسُلِ وَمَوْلیٰ الثَّقْلَیْنِ
طَحَنَ الْاَبْطَالَ لَمَّا بَرَزُوْا
یَوْمَ بَدْرٍ وَبِاُحُدٍ وَحُنَیْنٍ
وَاَخُوْ خَیْبَرَ اِذْبَارَزَھُمْ
بِحُسَامٍ صَارِمٍ ذِیْ شَفْرَتَیْنِ
وَالَّذِیْ اَوْدَیٰ جُیُوْشاً اَقْبَلُوْا
یَطْلُبُوْنَ الْوِتْرَ فِی یَوْمِ حُنَیْنِ
مَنْ لَہُ عَمّ کَعَمِّیْ جَعْفَر
وَھَبَ اللّٰہُ لَہُ اَجْنِحَتَیْنِ
جَدِّیْ الْمُرْسَلُ مِصْبَاحُ الْھُدیٰ
وَاَبِیْ الْمُوْفِیْ لَہُ بِالْبَیْعَتَیْنِ
بَطَل قَرْم ھِزَبْر ضَیْغَم
مَاجِد سَمْح قَوِیُّ السَّاعِدَیْنِ
عُرْوَةُ الدِّیْنِ عَلِیّ ذَاکُمْ
صَاحِبُ الْحَوْضِ مُصَلِّیْ الْقِبْلَتَیْْنِ
مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ سَبْعاً کَامِلاً
مَعَ قُرَیْشٍ مُذْنَشَا طَرْفَةَ عَیْنٍ
وَاَبِیْ کَانَ ھِزَبْراً فَسُقُوْا
یَاخُذُ الرُّمْحَ فَیَطْعَنُ طَعْنَتَیْنِ
کَتَمَشِّیْ الْاُسُدِ بَغْیاً فَسُقُوْا
کَاسَ حَتْفٍ مِنْ نَجِیْعِ الْحَنَظَلَیْنِ
١۔میری ماں فاطمہ زہراۖ اور میرے بابا وارث انبیائ، جن وانس کے مولا ہیں۔
٢۔جنگ بدر واحد وحنین کے دن بڑے بڑے پہلوانوں کو اپنے نیزے سے غربال کیا۔
٣۔اور خیبر والوں کے ساتھ اپنی دودھاری تلوار کے ساتھ مبارزہ کیا۔
٤۔اور وہ سپاہی کہ جو جنگ حنین کے دن انتقام لینے کے لئے آگے تھے انھیں تارومار کیا۔
٥۔کون ہے کہ جو میرے چچا جعفر کے مانند ہو کہ جنھیں خدا نے دوبال وپر بخشے ہیں۔
٦۔میرے نانا خدا کے بھیجے ہوئے چراغ ہدایت ہیں اور میرے بابا بیعت عقبہ اور رضوان کو تہہ دل سے ان کے لئے وفا کرنے والے ہیں۔
٧۔میرے بابا بہادر، سردار، غضبناک شیر، بزرگوار، سختی اور قوی بازو والے ہیں۔
٨۔وہ علی (کہ جن پر میں افتخار کرتا ہوں) دین کی مضبوط ریسمان، حوض کوثر کے مختار اور وہ ھستی ہے کہ جس نے سات سال پیغمبرۖ کے ساتھ بیت المقدس اور کعبہ کے مد مقابل نماز پڑھی در حالیکہ ان دونوں کے علاوہ کوئی اور مرد اس زمین پر نماز پڑھنے والا نہیں تھا۔
٩۔جس وقت سے انہوں نے اس سنسار میں قدم رکھا، بتوں کو دور پھینکا اور قریش کی ہمراہی میں پلک جھپکنے کی مقدار میں بھی ان بتوں کے برابر سجدہ نہیں کیا۔
١٠۔(تلنیۂ''طعنة''کہ جوشعر میں طعنتین کی صورت میں استعمال ہوا ہے یا مجرد تاکید کے لئے ہے یعنی بہت زیادہ نیزہ مارنے والا یا اس سے مراد شمشیر ونیزہ کی ضربت ہے باب تغلیب کے عنوان سے یااس سے مراد پیغمبرۖ کے زمانے کے کفار اور ناکثین و قاسطین ومارقین آنحضرتۖ کے بعد والے ہیں کہ جن کے سینوں کو اپنے نیزے سے حضرت اسد اللہ الغالب نے زخمی کیا۔حنظل:بہت تلخ میوہ ہے کہ جسے ابو جہل کا تربوزہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی تثنیہ کہ جو شعر میں حنظلین کی صورت میں استعمال ہوئی ہے فقط تاکید کے لئے ہے۔)
١١۔ان دونوں بیتوں کا معنی:میرے بابا غضبناک شیر تھے کہ جو شیروں کی طرح شکار کی طلب میں حملہ کرتے تھے اور اپنے نیزے کے وار سے انھیں تار ومار کرتے تھے پھران کے دشمن موت کا تلخ وناگوار مزہ چکھتے اور پر خون جام سے سیراب ہوتے۔
ابو مخنف نے ان اشعار کو بھی امام ہی کی طرف منسوب کیا ہے:
ذَھَب مِنْ ذَھَبٍ فِیْ ذَھَبٍ
وَلُجَیْن فِیْ لُجَیْنٍ فِی لُجَیْنٍ
فَلَہُ الْحَمْدُ عَلَیْنَا وَاجِب
مَا جَریٰ بِالْفُلْکِ اِحْدیٰ النَّیِّرَیْنِ
خَصَّہُ اللّٰہُ لِفَضْلٍ وَ تُقیٰ
فَاَنَا الزَّاھِرُ وَابْنُ الْاَزْھَرَیْنِ
تَرَکَ الْاَصْنَامَ مُنْذُ خَصَّہُ
وَرَقَا بِالْحَمْدِ فَوْقَ النَّیِّرَیْنِ
وَاَبَا دَ الشَّرْکَ فِیْ حَمْلَتِہِ
بِرِجَالٍ اُتْرِفُوْا فِی الْعَسْکَرَیْنِ
وَاَنَا ابْنُ الْعَیْنِ وَالْاُذْنِ الَّتِیْ
اَذْعَنَ الْخَلْقُ لَھَا فِی الْخَافِقَیْنِ
نَحْنُ اَصْحَابُ الْعَبَاخَمْسَتُنَا
قَدْ مَلَکْنَا شَرْقَھَا وَالْمُغْرِبَیْنِ
ثُمَّ جِبْرِیْلُ لَنَا سَادِسُنَا
وَلَنَا الْبَیْتُ کَذَا وَالْمَشْعَرَیْنِ
وَکَذَا الْمَجْدُ بِنَا مُفْتَخِر
شَامِخاً یَعْلُوْ بِہِ فِی الْحَسَبَیْنِ
فَجَزَاہُ اللّٰہُ عَنَّا صَالَحاً
خَالِقَ الْخَلْقِ وَمَوْلیٰ الْمَشْعَرَیْنِ
عُرْوَةُ الدِّیْنِ عَلِیُّ الْمُرْتَضیٰ
صَاحِبُ الْحَوْضِ مُعِزُّ الْحَرَمِیْنِ
یَفْرِقُ الصَّفَّانِ مِنْ ھَیْبَتِہِ
وَکَذَا اَفْعَالُہُ فِی الْخَافِقَیْنِ
وَالَّذِیْ صَدَّقَ بِ الْخَاتَمِ مِنْہُ
حِیْنَ سَاویٰ ظَھْرَہُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ
شَیْعَةُ الْمُخْتَارِ!طِیْبُوْا اَنْفُساً
فَغَداً تُشْقَوْنَ مِنْ حَوْضِ الُّلجَیْنِ
فَعَلَیْہِ اللّٰہُ صَلّٰی رَبُّنَا
وَحَبَاہُ تُحْفَةً بِالْحَسْنِ
(ناسخ التواریخ،ج٢،ص٣٧٢،عاشورا، ریشہ ھا انگیزہھا، رویدادھا، پیامدھا،ص٤٦٨)
١۔وہ سونا ہے جو ہر سونا ہے سونے کے معدن میں، وہ چاندی ہے جو ہر چاندی ہے چاندی کی کان میں۔
٢جب تک چاندوسورج کے درمیان گردش باقی ہے خداوندعالم کی حمد وثناہم پر واجب ہے۔
٣۔کیونکہ اس خداوندعالم نے میرے باپ کو فضل وتقویٰ جیسی خصوصیت سے نوازا ہیں میں تابناک اور دوتابناک کا بیٹا ہوں۔
٤۔وہ جب سے خداوند عالم کی خاصی توجہات کا مرکز بنے، بتوں کو جوتے کی نوک پر پھینک کر حمد باری تعالی میں ماہ وخورشید سے بھی آگے نکل گئے۔
٥۔انہوں نے اپنے زبردست حملوں کے ذریعہ ستمگروں کی فوجوں سے کفروشرک کو نیست ونابود کیا۔
٦۔پس میں اس چشم وگوش کا فرزند ہوں کہ جس کی حقانیت کے تمام فرد بشر شرق وغرب عالم کے معتقد ہیں۔
٧۔ہم ہی کساء کے پانچ افراد ہیں کہ جو اس دنیا کے مشرق ومغرب کے مالک ہیں۔
٨۔جبرئیل ہم میں چھٹیں فرد ہیں اور ہمارا ہی بیت مشعر ہے۔
٩۔مجد وبزرگواری کو ہم پہ فخر وناز ہے وہ افتخار ہے کہ جس نے اسے دنیا وآخرت میں بلند کیا۔
١٠۔خداوند عالم کہ جو خالق کائنات اور حاکم مشعرین ہے میرے باپ کو میری جانب سے نیک جزا عطا کرے۔
١١۔بیشک قبضۂ دین علی مرتضی ہیں وہی کہ صاحب حوض کوثر اور خدا ورسول کے حرم کے لئے عزت بخش ہیں۔
١٢۔ان کی ہیبت اور کردار سے حق وباطل کی صفیں دنیا کے ہر گوشۂ وکنایہ میں ایک دوسرے کے جدا ہوتی ہیں۔
١٣۔انہوں نے ہی اپنی انگشتر کو رکوع کی حالت میں مسائل کو عطا کئے ہیں۔
١٤۔ائے منتخب شیعو! شاد وخوشحال رہوکہ کل قیامت کے دن حوض کوثر کے صاف وشفاف پانی سے سیراب کئے جاؤ گے۔
١٥۔ان کے اوپر خداوند عالم نے کہ جو ہمارا پروردگار ہے درود وسلام بھیجا اور حسن وحسین کو انھیں ہدیہ کیا۔
پھر شیریزداں کے ضرغام غضبناک نے دریا ئے آہن میں دوبے ہوئے ٹڈی دل کی طرح امنڈتے دیومنش طوفان کو اپنی تلوار کا پانی پلانا شروع کردیا بڑے بڑے لحیم وشحیم پہلوان اور بہترے شخیص وجسیم قہرمان اپنے کیفر کردار تک پہونچ گئے،شمشیر کے کھیت میں تلوار کا مینہ برسنے لگا، اس سلحشور ضیغم نے اپنے راہوار کو مہماز لگائی، سبک عناں نے تڑاڑنا شروع کردیا اس کی تڑپ چھڑپ، جست وخیز چوکڑی نے بھونچال مچا دیا،تماشاگاہ عالم کی چلچلاتی دھوپ میں ریگ رواں آکاش کو چھونے لگی،گھوڑنے کے چراغ پا ہونے پر کئی دھمپال ویل شل، پرومشٹا گھاٹک چورنگ کٹ کر صفاً صفا ہوجاتے تھے، کربلا کے رن بن میں مثل جرس شپاشاپ، شَخشَخَہ ،دھمادھم،تڑاتڑ، پڑاپڑ، تیر وتبر کے ٹکرانے اور گوشت وپوست میں خنجرکے گھسنے باہر آنے کی آوازوں نے فضا کو خوفناک کردیا۔اور ادھ کٹے زخمیوں اور بے اجل مرنے والوں کی چیخوں نے حشر کا ھنگامہ برپا کردیا پھر تھوڑی ہی دیر میں ہستی دوروزہ کو ہستی جاویداں پر ترجیح دینے والوں کی چنڈال چوکڑی آن کھان ہوگئی۔مثل مشہور ہے تلوار کی آنچ کے سامنے کوئی برلا ہی ٹہرتا ہے ان بزدلوں کے اندر کہاں اتنی جرأت تھی کہ وہ شیر ذوالجلال کے بیٹے کے سامنے ٹھہرتے لہٰذا جب ان کے تراکم کا شیرازہ بکھر گیا اور دور دورتک جسے دیکھا وہی بھاگتا نظر آیا تو زبان پر حوقلہ آگیا ایک کنارے کھڑے ہوکر آواز دی:لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہ ِالْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔آفتاب محشر نے اپنی تاثیر دکھائی۔ تین دن کی بھوک وپیاس اور رن کی خستگی دامن گیر ہوئی۔بچوں کی صدائے العطش کانوں سے ٹکرائی۔ اصغر کی بے سیراب شہادت آئی۔ نہر علقمہ کا رخ کیا، کافروں کے دن سنسنا گئے ہر ایک سناٹے میں آگیا۔اپنے زعم ناقص میں سوچنے لگاتشنگی وخستگی کے عالم میں جب حسین کی پکار کا یہ شیوہ ہے تو پھر رفع خستگی اور سیرابی کے بعد ان کے نبرد کا کیا عالم ہوگا؟!
لہٰذا سبھی نہر علقمہ کی راہ بڑھتے تیر وتبر،تلوار وخنجر اور سنان وسیر کی آہنی دیوار راہ دریا پر کھڑی کردی۔ اعور السلمی اور عمروبن الحجاج الزبیدی کہ جو چار ہزار کا کماندار سپاہیوں کے ساتھ نہر فرات کے نگہبان تھے، سپاہیوں پر بانگ لگائی،حسین کو جادۂ فرات سے گذرنے مت دینا!کماندار ناوک لگائے، نیزہ دار بھالا تانے، شمشیر دار کھڑگ سنبھالے، پیادے ڈھال اٹھائے اور سوارے اپنے براق سمیت آمادہ کرانۂ دورپا پر تاوا کا انتظار کرنے لگے۔فاطمہۖ کے لال نے آہنی سد کے پڑقچے اڑانے کے لئے اپنے خوشگام کو ایڑ لگائی،اسپ چابک ہوا میں اڑا تیروں کی بارش ہونے لگی، تلوار یں چمکنے لگیں مگر یرغا کی دلکی پھڑا پھڑ کو نہ روک سکیں ضرب مہلک کی کڑک نے آن واحد میں مہاپاپیوں کے اجساد کا ڈھیر لگا دیا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے گلۂ گوسفند میں شیر آگیا ہو جدھر کا رخ کیاادھر کا صفایا ہوگیاپھر ایک آن میں اس کفر کچھری کا سارا طُمطُراق خاک ہوگیا۔ راہوار کو دریا میں ڈال دیا تشنگی کاسخت عالم تھا اور ساتھ میں گھوڑا بھی حد سے زیادہ پیاسا تھا۔قَالَ الْحُسَیْنُ:اَنْتَ عَطَشَانُ وَاَنَا عَطَشَانُ۔وَاللّٰہِ لَا ذُقْتُ الْمَائَ حَتّٰی تَشْرَبَ۔(ناسخ التواریخ،ج٢،ص٣٧٩)
زہرا کا لال اور سخی ابن سخی کا بیٹا ہے چھری تلے دم لے سکتا ہے مگر پانی پینے میں سبقت نہیں کرسکتا لہٰذا راہوار سے کہا:توبھی پیاسا ہے اور میں بھی پیاسا ہوںخدا کی قسم اس وقت تک پانی نہیں پیوں گا جب تک کہ تو سیراب نہیں ہوجائے گا۔ حجت خدا کا کلام تھا گھوڑا سمجھ گیا۔ سر کو اوپر اٹھالیا۔ زبان حال سے کہنے لگا۔ آقا یہ آپ کا خادم ہے پیاسا دم توڑ سکتا ہے مگر آپ پر پہل نہیں کرسکتا۔ تیری قدرت کے قربان، گھرانۂ اہلبیت کی سنگت پاکر جانور بھی کتنے سمجھدار ہوجاتے ہیں ۔افسوس یزیدیوں کی کہاں مت ماری تھی اگر حسین کی صحبت اختیار کر لیتے تو کیا انسان نہ بن جاتے؟!ہاشمی گھرانے کا کردار بتا رہا ہے۔ اگر وقت واپسیں میں بھی وہ لوگ اپنے کئے پر نادم ہوکر حسین کے پاس آجاتے تو وہ اپنے اعوان وانصار اور بال بچوں کی بلجھاری کو بالائے طاق رکھ کر ان کے گناہوں کو معاف کردیتے۔مگر جو فساد وفتنہ میں شیطان کے کان کاٹ دیں انہیں کہاں رشدوہدایت کی راہ دکھائی دیتی ہے۔ جب اپنے لاؤ لشکر سے امام کا راستہ نہ روک سکے تو ''شیخ مفید کی روایت کے مطابق''مکر وحیلہ کا جال بچھایا ادھر امام نے چلو میں پانی لیا ادھر ایک عیار نے آواز دی:حسین !تم پانی پی رہے ہو،ادھر تمہارے اہل حرم کی فوجی غارت کر رہے ہیں؟!(ناسخ التواریخ،ج٢،ص٣٨٠)
سنتے ہی تیوری میں بل پڑ گئے، چلو کو دریا کے منھ پر مارا،موجیں تڑپ کر رہ گئیں، لہریں ساحل پر سر پٹک پٹک کر اپنے نصیب کو کوسنے لگیں، ائے کاش دلبند زہراۖ دو گھونٹ پانی لیتا، ائے کاش لخت دل مرتضیٰ وہی چلو کا پانی کہ جسے اٹھایا تھا پی لیتا۔ نہر فرات اپنی زبان بے زبانی میں فریاد کرنے لگی۔لب میرے ہلکوروں میں ندامت کے باعث کبھی ترنگ نہیں آسکتا اور نہ ہی پانی کے آخری قطرہ تک یہ صدمہ مجھ سے بچھڑ سکتا ہے۔
ساحل تمام گرد ندامت سے اَٹ گیا
دریا پی کوئی آکے جو پیاسا پلٹ گیا
مسنات کو سرپٹ خیام کی طرف بھگایا دیکھا کہ کوئی اہل حرم کا متعرض نہیں ہوا ہے کہنے والے نے غدر وفریب کیا ہے۔خیمے کے اندر آئے اہل حرم کو تسلی وتشفی دے کر پھر میدان میں قدم رکھا۔
امام کا چوتھا وداع اور عدیم المثال مقاومت
بھاگے ہوئے سپاہیوں کو افسروں نے بلا کردوبارہ اپنی جگہ پر قائم کردیا تھا، بھاگنے کے ناتے سبھی ایک دوسرے کی سرزنش کررہے تھے، کمانڈر فوجی کی توبیخ کرتا کہ تم پہلے بھاگے تھے تو فوجی کمانڈر کی سرزنش کرتا کہ تم پہلے بھاگے تھے۔ الغرض سپاہیوں کی صف آرائی ہوئی، میمنہ ومیسرہ سامنے آیا:وَقَالَ:یَا وَیْلَکُمْ !عَلیٰ مَ تُقَاتِلُوْنِیْ؟!عَلیٰ حَقٍّ تَرَکْتُہُ؟اَمْ عَلیٰ سُنَّةٍ غَیَّرْھَا؟اَمْ عَلیٰ شَرِیْعَةٍ بَدَّلْتُھَا؟(ناسخ التواریخ،ج٢،ص٣٧٦)
آواز دی:تف ہو تم پر، تم مجھ سے کیوں جنگ کررہے ہو؟!کیا میں حد اعتدال سے ہٹ گیا ہوں کیا میں نے کوئی حق چھوڑ دیا ہے؟یا دین میں سنت کو بدل دیا ہے؟یا شریعت کو دگر گون کردیا ہے؟جواب میں ان شنیع لوگوں نے کہا:وَقَالُوْا:بَلْ تُقَاتِلُکَ بُغْضاً مِنَّا لِاَبِیْکَ وَمَا فَعَلَ بِاَشْیَاخِنَا یَوْمَ بَدْرٍ وَحُنَیْنِ۔(ناسخ التواریخ،ج٢،ص٣٧٦)
جنگ بدر وحنین میں تمہارے باپ علی نے ہمارے دادا کو علف کی طرح اپنی تلوار کی باڑھ سے درو کردیا وہ بغض وکینہ ہمارے دل میں ابھی تک باقی ہے لہٰذا ہم ان کا انتقام لینے کے لئے تم سے جنگ کررہے ہیں۔ امام نے ان کلمات کو سنا تو آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا گئیں۔بے تحاشا زبان پر زمزمہ آیا:
یَا رَبِّ لَاتَتْرُکَنِّیْ وَحِیْداً
فَقَدْ تَرَیٰ الْکُفَّارَ وَالْجُحُوْدَا
قَدْ صَیِّرُوْنَا بَیْنَھُمْ عَبِیْداً
یُرْضُوْنَ فِی فِحَالِھِمْ یَزِیْداً
اَمَّا اَخِیْ فَقَدْ مَضیٰ شَہِیْداً
مُعَفَّراً بِدَمِہِ وَحِیْداً
فِیْ وَسَطِ قَاعٍ مُفُرَداً بَعِیْداً
وَاَنْتَ بِالْمِرْصَادِ لَنْ تَحِیْداً
(ناسخ التواریخ،ج٢،ص٣٧٦)
١۔میرے پروردگار !تو مجھے تنہا نہیں چھوڑنا، تو ان کافروں کو اور ان کے انکار کو دیکھ رہا ہے۔
٢۔انہوں نے ہمیں اپنے درمیان غلام بنا رکھا ہے اور اپنے اس کام سے یزید کی رضایت کے خواہاں ہیں۔
٣۔میرا بھائی (عباس) شہید ہوگیا اور اپنے خون میں لت پت ناہوار بیابان میں پڑا ہے لیکن تو ہموارہ گنہگاروں کی کمین میں ہے۔
انہوں نے اپنے جواب سے اہل زمانہ کو سبق دے دیا کہ کبھی کسی کی ظاہری عبادت سے انسان کو دھوکا نہیں کھانا چاہیئے کیونکہ اس خاکدان میں لاتعداد ایسے ہیں کہ جن کا ظاہر رحمن کا ہے باطن شیطان کا۔ کہنے کو یہ بھی اپنے کو مسلمان کہتے ہیں لیکن جس پیغمبرۖ کا کلمہ پڑھتے ہیں اسی کے خاندان کو مار نے پر تلے ہیں۔جس فرزند کو پیغمبرۖ نے اپنی آغوش میں لے کر کبھی منبر سے پہچنوایا:ھَذَا حُسَیْن فَاعْرِفُوْہُ۔یہ حسین ہے اسے پہچان لو،کبھی سجدے کو طول دے کر، کبھی ناقہ بن کر،کبھی پشت پر سوار کرکے ،کبھی کاندھوں پر بٹھا کے ہر نظر، ہر زاویہ سے کبھی جنت کے جوانوں کا سردار کہکے، کبھی چراغ ہدایت اور کشتیٔ نجات فرما کے کبھی جنت کی خوشبوبتا کے ہر رخ ہر جہت سے جس کی عظمت کو آشکار کیا، اپنے افعال واقوال، رفتار وکردار سے جس کی عظمت کا پتا بتایا دشت کربلا میں اس کے خون کے یہ لوگ پیاسے ہیں پکٹ پن کے عالم میں اتنا بے بس ہے کہ یمین ویسار نظر کرکے اپنے مقتول یاوروں کو اپنی امداد کے لئے بلا رہا ہے آواز دے رہا ہے:یَا مُسْلِمَ بْنَ عَقِیْلٍ!وَیَاھَانِیَ بْنَ عُرْوَةَ!وَیَا حَبِیْبَ ابْنَ مُظَاھِرٍ! وَیَازُھَیْرَبْنَ الْقَیْنِ! وَیَا یَزِیْدَ ابْنَ مُظَاھِرٍ!وَیَایَحْییٰ بْنَ کَثِیْرٍ!وَیَاھِلَالَ بْنَ نَافِعٍ!وَیَااِبْرَاھِیْمَ بْنَ الْحُصَیْنِ!وَیَا عُمَیْرَبْنَ الْمُطَاعَ!وَیَااَسَدَ الْکَلْبِیْ!وَیَاعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَقِیْلٍ!وَیَا مُسْلِمَ بْنَ عَوْسَجَةَ!وَیَادَاوُدَ ابْنَ الطِّرِمَّاحِ!وَیَاحُرُّ الرِّیَاحِیْ!وَیَاعَلِیَّ ابْنَ الْحُسَیْنِ!وَیَا اَبْطَالَ الصَّفَا!وَیَا فُرْسَانَ الْھَیْجَائِ!مَالِیْ اُنَادِیْکُمْ فَلَا تُجِیْبُوْنِیْ؟وَاَدْعُوْکُمْ فَلَاتَسْمَعُوْنِیْ؟اَنْتُمْ نِیَام اَرْجُوْکُمْ تَنْتَبِھُوْنَ؟اَمْ خَالَتْ مَوَدَّتُکُمْ عَنْ اِمَامِکُمْ فَلَا تَنْصُرُوْنَہُ؟فَھٰذَا نِسَائِ الرَّسُوْلِۖ لِفَقْدِکُمْ قَدْعَلَاھُنَّ النُّحُوْلِ فَقُوْمُوْا مِنْ فَوْمَتِکُمْ،اَیُّھَا الْکِرَامُ!وَادْفَعُوْا عَنْ حَرَامِ الرَّسُوْلِ الطُّغَاةَ الِّلئَامَ، وَلٰکِنْ صَرَعَکُمْ وَاللّٰہِ رَیْبَ الْمَنُوْنِ وَغَدَرَکُمُ الدَّھْرُ الْخَئُوْنُ وَاِلَّا لَمَا کُنْتُمْ عَنْ دَعْوَتِیْ تَقْصُرُوْنَ وَلَا عَنْ نُصْرَتِیْ تَحْتَجِبُوْنَ۔فَھَا نَحْنُ عَلَیْکُمْ مُفْتَجِعُوْنَ وَبِکُمْ لَاحِقُوْنَ، فَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔(ناسخ التواریخ،ج٢،ص٣٧٧)
ائے مسلم ابن عقیل، ائے ہانی بن عروہ، ائے حبیب بن مظاہر، ائے زہیر ابن قین...........الخ ائے دلاروانِ بے بدل، ائے شہسواران سخت نبرد،کیا ہوگیا ہے میں تمہیں آواز دے رہا ہوں تم جواب نہیں دے رہے رہو؟میں تمہیں بلا رہا ہوں تم سن نہیں رہے ہو؟امیدوار ہوں کہ تم اس خواب سے بیدار ہوگے،کیا تمہاری محبت تمہارے امام سے ختم ہوگئی کہ اس کی مدد نہیں کرر ہے ہو۔ یہ محذرات آل رسولۖ ہیں جو تمہاری نصرت کے بنا اسیر ِ رنج وستم ہیں، پس اپنی نیند سے اٹھو ائے بزرگوارو! اور ان سر کش کمینوں کو حرم آل رسولۖ سے دو ر کرو مگر(افسوس کہ) موت نے تمہیں اپنے چنگل میں دبوچ لیا اور زمانے نے تمہارے ساتھ دھوکا کیا ورنہ تم میری صدا پر لبیک کہنے میں کوتاہی نہیں کرتے اور نہ ہی میری مدد کرنے میں کمی، ہم تمہارے سوگ میں رنجیدہ ہیں اور تمہارے وصال کے مشتاق بیشک ہم اللہ کے لئے ہیں اور ہماری واپسی بھی اللہ ہی کی جانب ہے۔پھر اس کے بعدا ن اشعار کو پڑھا:
قَوْم اِذَا نُوْدُوْا لِدَفْرِ مُلِمَّةٍ
وَالْقَوْمُ بَیْنَ مُدَّعَسٍ وَمُکَرْدَسٍ
لَبِسُوْا الْقُلُوْبَ عَلیٰ الدُّرُوْعِ وَاَقْبَلُوْا
یَتَھَافَتُوْن عَلیٰ ذِھَابِ الْاَنْفُسٍ
نَصَرُوْا الْحُسَیْنَ فَیَالَھَا مِنْ فِتْیَةٍ
عَافُوْا الْحَیَاةَ وَاَلْبَسُوْا مِنْ سُنْدُسٍ
گھمسان کی لڑائی میں جب رفع گرفتاری کے لئے اس قوم کو بلایا جاتا ہے تو یہ اپنے دلوں کو زرہ پر رکھ کر جانبازی کی دنیا میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے ہیں،انہوں نے حسین کی مدد کی جیسا کہ مدد کرنے کا حق تھا اور اس طرح سے زندگی سے عافیت اور جنت میں حریری لباس سے خود کو آراستہ کیا۔