Mola Ali say Mohabat

 


 محبت ِ حضرت علی علیہ السلام

تمام حمد اُس خالقِ لم یزل کی جو تمام عالمین کا اکلوتا پروردگار، مالک ،خالق ،رازق ہے۔ اور درود و سلام اللہ کی اُن برگزیدہ اور پاک مخلوق پر جنہوں نے اپنے ہونے سے اُس (ھو) کے ہونے کا ادراک و فہم اور شعور آگاہی دیتے ہوئے مخلوقات ازل کو مالک حقیقی کے وجودِ لامکاںسے آشکار فرمایا۔

قارئین کرام! آج جس موضوع کو زیب قرطاس کرنے لگا ہوں وہ ہے محبتِ علی ؑ ۔ یعنی مولائے کائنات امیر المومنین امام المتقین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے محبت ۔اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لیں گے کہ محبت ِ علی ،کب،کیوں؟کیسے اور کس لیے ۔۔۔۔۔کرنی چاہیے، ۔۔۔یہ محبت ہوتی ہے۔۔۔۔۔ہوجاتی ہے۔۔۔۔از ل سے پائی جاتی ہے۔۔۔۔کون کون یہ محبت کر سکتا ہے یا رکھتا ہے اور ۔۔۔۔۔کس کس کو یہ نصیب نہیں۔۔۔اور جو محبت کرتے ہیں/رکھتے ہیں اُن کو اس سے فائدہ کیا ہو گا؟۔۔۔۔۔۔آیا یہ محبت بے لوث ہونی چاہیے یا اس کا کچھ عوض بھی ہونا چاہیے۔۔۔۔اور اسی کے برعکس دشمنیِ علی ؑ کیوں؟۔۔۔۔ان سب سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ مدینۃ العلم کے دَر سے ضرور ہمیں جواب مل جائیں گے اور ایمان تازہ ہو جائیں گے۔ 


(صلوٰۃ)اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَــــّدٍ۔


اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی منزلت و فضیلت مسلمانوں سے چھپا کر دشمنوں نے تمام مسالک پر ظلم کیا، کیونکہ  علی کرم اللہ وجہہ پر فقط اہل تشیع کی اجارہ داری تو نہیں ہے ، یہ تو  مسلمانوں کے تمام مسالک کیلئے اتنے ہی معتبر اور محترم ہیں لیکن دشمنوں نے اپنی سازشوں سے حب علی کرم اللہ وجہہ کو ایسا  متناازع بنانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کے تمام مسالک ایک ایسے اختلاف کا شکار ہوگئے جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ لیکن شکر پروردگار کا کہ اب تمام مسالک کو سمجھ آرہی ہے اور اتحاد  بین المسلمین کو فروغ مل رہا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ چار حروف (م ح ب ت )پر مشتمل لفظ محبت ہے کیا؟محبت عربی زبان کے لفظ “ حب “ سے نکلا ہے جس کے کئی معنی ہیں جیسے، ایسا دل جو صاف ہو، اور چمکدار ہو جائے اور اس میں کوئی میل کچیل نہ رہے۔

محبت کا لفظ اردو میں بھی کئی معانی رکھتا ہے۔ محبت کئی قسموں کی ہو سکتی ہے۔ یہ محبت عام کسی شے سے بھی ہے اور کسی خاص ہستی، شخص یا رشتے سے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ معمولی ہو سکتی ہے اور شدید بھی۔ شدید حالت جان دے دینے اور لے لینے کی حد تک ہو سکتی ہے۔ اسے پیار یا عشق بھی کہتے ہیں۔ محبت کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلا مذہبی پیار، کسی خاص رشتے سے پیار، حب الوطنی یعنی وطن کے لیے پیار، کسی بندے کے لیے پیار۔ وغیرہ وغیرہ 

عموماً ہمیں کسی بھی کفیت کو Declareکرنے کیلئے الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اکثر اوقات الفاظ کے بدلے الفاظ ہی ملتے ہیں اور کیفیت کی جو شدت Originalityحقیقت ہوتی ہے وہ پھر بھی Clearواضح نہیں ہوپاتی اور پھر اُس کی وضاحت کیلئے کوئی نہ کوئی لفظ پیش کرنا پڑتا ہے۔ اور یاد رہے کہ لفظ کسی ذات کی طرف اشارہ تو ہو سکتے ہیں مگر وہ عینِ ذات نہیں ہوسکتے ۔جیسے محبت ایک لفظ ہے۔ اس کی کیفیت اور شکل مختلف اور بتدریج ہوتی ہے۔ لفظ کی ادائیگی کا تعلق جہاں زبان سے اور ذخیرہ الفاظ Vocublaryکا تعلق دماغ سے ہوتا ہے وہاں لفظ کی شدت اور گہرائی و گیرائی کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور دل ہی لفظ کو وہ طاقت او ر قوت فراہم کرتا ہے(یعنی جتنا دل مضبوط ہوگا یا روحانیت ہوگی)جو مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم دعا کررہے ہوتے ہیں تو الفاظ زبان سے ادا ہو رہے ہوتے ہیں اور دماغ فراہم کررہا ہوتا ہے مگر ان میں اثر دل اور روح سے پڑ رہا ہوتا ہے یعنی جتنا دل کسی کے قریب ہوگا یا یوں کہیں کہ جتنا کوئی کسی کے دل میں بستا ہوگا وہ اتنی جلدی اس کے الفاظ کا اثر قبول کرتے ہوئے نوازے گا۔ اسی لیے تو کہا گیا کہ اللہ مومن کے دل میں رہتا ہے۔ یعنی جہاں اللہ رہتا ہے علیؑ بھی وہیں رہتا ہے۔اور محبت کا تعلق چونکہ براہ راست دل سے ہوتا ہےاس لیے کہتے ہیں کہ کسی کا دل مت توڑیں کیونکہ اس سے اللہ ناراض ہوجاتا ہے ۔اور اگر کسی مومن کے دل کو خوش کر دیا تو اللہ خوش ہوجاتا ہے ۔یہ خوش ہونا اور ناراض ہونا کیفیتیں ہیں جبکہ اللہ ان سے پاک و منزہ ہے مگر ان کیفیتوں کا اظہار جن چیزوں سے ہوتا ہے اگر وہ اچھی ہوں تو سمجھا جاتا ہے کہ اللہ خوش ہو گیا ہے اور اگر خدا نخواستہ ان کے نتائج برے ہوں تو یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اللہ ناراض ہو گیا ہے۔تو میرا خیال ہے اب بات سمجھ میں آگئی ہو گی کہ الفاظ کیا ہوتے ہیں اور ان کی کیفیتیں کیا ہوتی ہیں اور ان کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔ بہرحا ل بات کہاں سے کہاں چلی گئی بات ہورہی تھی محبت کی ۔جاننا چاہیے کہ انسانی فطرت میں یہ چیز شامل ہے کہ اُسے جو چیز بھی اچھی لگے گی وہ اُس سے محبت کرنے لگتا ہے یعنی وہ اسے پیاری لگنے لگتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ چیز (محبوب) اُس کا ہو جائے اور وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہے لمحہ بھر کیلئے بھی جدائی نہ ہو اور اپنے محبوب کی ہر خوشی (خواہش) کو مقدم جانتے ہوئے پورا کیاجاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ محبت ایک Attractionہے ،توجہ ہے ،دلچسپی ہے اور رغبت کا نام ہے جوتقریباً قدرتی طور پر کسی چیز میں پائی جاتی ہے۔ اب جہاں تک محبتِ علی ؑ کا تعلق ہے تو یہ ایک بہت ہی باریک اور دقیق معاملہ ہے ۔ اس کیلئے ہمیں لمحاتِ ازل میں جانا پڑے گا ۔جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ خالق لم یزل ارشاد فرماتے ہیں کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جائوں سو اس لیے میں محمد ﷺ و آلِ محمد (پنجتن پاک) کے نور کو خلق کیا۔ یا بعض روایات میں ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے سب سے پہلے اپنے نور ایک ٹکڑا جدا کر کے نورِ محمد ﷺ خلق کیا پھر اِس نور کو دولخت کر کے ایک کو نور ِ علی ؑ قرار دیا اور دوسرا نورِ محمد ﷺ ٹھہرا ۔پھر اِسی طرح جنابِ سیدہ کا نورِ مقدس خلق کیا اور جناب حسنین شریفین کے انوار متجلیہ خلق ہوئے جبکہ اس وقت ،وقت کا تصور بھی نہ تھا اور سوائے خالق اور ان انوارِ مقدسہ کے کچھ نہ تھا ۔بعدہٗ ملائکہ خلق ہوئے ،پھر ارواحِ انبیاء و مومنین،مسلمین وغیرہ، زمین و آسمان، سورج ،چاند ستارے ،،جنت، جہنم ،وغیرہ کی تخلیقات عمل میں لائی گئی۔ انوار مقدسہ جب اپنے پروردگار کا طواف و عبادت ،تسبیح و تحلیل میں مشغول تھے اور ان جلالت اور شوکت کو ملائکہ نے جب ملاحظہ کیا تو وہ سمجھ کہ شائد یہی ان کے خالق(خدا) ہیں مگر معارف توحید نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرکے خالق لم یزل کی کبریائی کا اعلان کیا ۔یعنی ان کے اللہ اکبر کہنے سے اللہ کا اکبر ہونا ثابت ہوا یا یوں کہیں کہ اللہ جل شانہٗ نے ان ہستیوں سے اپنی کبریائی کا اعلان کروا کر اپنے آپ کو اللہ اکبر کہلوایا۔ اب ملائکہ سمجھ گئے کہ یہ خدا نہیں بلکہ مظہرِ نورِ خدا ہیں اور یہی بات تھی کہ ملائکہ کے دلوں میں ان کی محبت بس گئی یعنی وہ سمجھ گئے کہ ایسی ہستیاں جن کی شان و شوکت کی معراج/معرفت کو ہم نہیں پہنچ سکتے اگر وہ یہ کہہ رہی ہیں کہ اللہ اکبر تو اس کا مطلب کہ ان کا رب (خالق) کتنا بلند و اعلیٰ ہے بس یہی ہستیا ں (انوارِ مقدسہ پنجتن پاک) ہی بہتر جانتی ہیں ۔ حدیث بہت طولانی ہے ساری حدیث کوٹ کرنا مقصد نہیں یعنی استادِ ملائکہ جبرائیل امین ؑ ابھی خلق نہیں ہوئے تھے مگر یہ (پنجتن پاک) تھے ۔یہ کب سے تھے جب سے اللہ تھا ۔اور ارادہ اللہ کا تھا اپنے آپ کو پہنچوانا اور منوانا تو پھراپنے جملہ کمالات خلق لم یزل نے ان ہستیوں میں ودیعت کر کے انہیں خلق کیا تاکہ جب یہ کہیں کہ اللہ ہے تو پھر کوئی انکارکرنے کی جرات نہ کر سکے۔ یعنی ان کی زبان گویا کلام حق کی ترجمان ہو اور لسان اللہ ہو۔اب جبکہ تمام ارواح بنی نو ع انساں ،ملائکہ و دیگر ضروری انواع خلق ہو چکیں تو خالقِ لم یزل نے سب کو جمع کیا اور ایک عہد لیا ۔جسے عہدِ روزِ ازل کہتے ہیں جو عالم ارواح میں لیا گیا۔

سورہ الاعراف آیت172 تا174 میں اِرشاد ہوا : ’’اور اے نبی! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا تھا اور اُنہیں خود اُن کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اِس پر گواہی دیتے ہیں۔‘‘ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ہم اِس بات سے بے خبر تھے۔‘‘ یا یہ نہ کہنے لگو کہ ’’شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اُس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔‘‘ دیکھو! اِس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور اس لیے کرتے ہیں کہ یہ لوگ پلٹ آئیں۔  ایک اعلان ہوا بتائو تمہارا رب کون ہے؟ تو سب سجدے میں گر پڑے اور کہا کہ آپ ہمارے رب ہیں یعنی اللہ کو کہا۔ پھرجملہ انبیاؑ کی رسالتوں کا اعلان کیا گیا ان کی امتوں سے عہد لیا گیا اور سب کی رسالتوں پر جناب محمد مصطفےٰ ﷺ کو گواہ قرار دیا گیا۔ پھر سب پر جناب تاجدار انبیاء خاتم النبینؑ ،سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کی رسالت بیان کی گئی اور اسی طرح سید الوصین امیر المومنین امام المتقین جناب علی المرتضیٰ ؑ کی ولایت سب ارواح عالمین پر پیش کی گئی اب اُس روز جن ارواح نے آوازِ قدرت پر لبیک کہا وہ بعدہٗ جب لباس بشری میں دنیا میں آئیں تو اُس وقت جس ہادی برحق کا زمانہ تھا وہ اُس پر ایمان لائیں اور لوگ سابقہ انبیاء کی امت ہونے کے باوجود ہمارے آخری نبیؑ کے زمانہ کا انتظار کرتے تھے یا آپﷺ کی محبت کا دم بھرتے تھے اسی طرح جن ارواح کو حضور ﷺ کی امت ہونے کا شرف ملا وہ سابقہ سب انبیا پر بھی ایمان رکھتی ہیں اور آپﷺ پر بھی انہوں نے ایمان کا اظہار کیا تبھی توپیکر انسانی میں ڈھلنے کے بعدوہ مسلمان ،ایماندار اور مومن کہلائیں اور جن ارواح نے اس وقت اقرار توحید سے انکار کیا ،پس و پیش سے کام لیا یا خاموش رہیں وہ انسانی وجود میں آنے کے بعد دنیا میں مشرک بن گئیں اسی طرح رسالت کی انکاری روحیں دنیا میں آنے کے بعد کافر بن گئیں بعینہٖ جو ارواح اُس وقت (روزِ ازل) امامت پر یعنی ولایت علی ؑ (محبت علیؑ) پر ایمان لائیں وہ جس دور میں بھی دنیا میں آئیں علی ؑ کی محبت اُس دور کے مطابق ان کے دلوں میں رچی بسی رہی اور جنہوںنے اُس وقت بھی ولایت علی ؑ (امامت علی ؑ ) پر پس و پیش سے کام لیا یا خاموش رہیں ان کے دلوں میں کبھی بھی محبت ِ علی ؑ گھر نہیں کر سکی۔

اور یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی بھی مخلوق ہو وہ اپنے سے اعلیٰ سے محبت کرتی ہے اور محبوب کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح سے محب سے افضل ہو۔اب کائنات میں ان انوارِ مقدسہ سے جب کوئی اور افضل اور فضلیت ملائکہ کونظر ہی نہ آئی تو پھر اُن کیلئے ضروری تھا کہ وہ ان ہستیوں سے محبت کریں کیونکہ وہ یہ سمجھ چکے تھے یا سمجھا دیئے گئے تھے کہ ان کی محبت ہی اُ ن کا رازِ خلقت ہے۔ اب آتے ہیں تخلیقِ آدم ؑ پر ۔  جب اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں تو بولے کہ بارِ الہا تو ایسے کو اپنا جانشین بنائے گا جو زمین میں خونریزی اور دنگا و فساد کرے گا (گویا ملائکہ مقامِ آدم سے ،سرشتِ آدم سے پہلے سے آگاہ تھے ۔۔۔۔) تو خالق نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔ پھر چاہو تو مشاہدہ کرلو۔ اب اللہ نے انہی انوارِ مقدسہ (پنجتن پاک) کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اچھا بتائو یہ کون ہیں؟گویا ازل سے خالق نے ایک قانون بنا دیا کہ جب بھی جہاں بھی توحید کو اپنے اظہار کی ضرورت ہو گی تو پنجتن پاک کا نور ہی مظہرِ توحید بن کر سامنے آئے گا۔فرشتے بے ساختہ بول اٹھے پاک ہے وہ ذات جو سب جانتی ہےہم نہیں جانتے، ہم تو اتنا جانتے ہیں جتنا اُس نے ہمیں سکھایابے شک علیم و خبیر ہے۔

 قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ تَعٰالٰی آدَمَ اَبَالْبَشَرِ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُوْحِہِ اِلْتَفَتَ آدَمُ یُمْنَةَ الْعَرْشِ فَاِذاً فِی النُّوْرِخَمْسَةُ اَشْبٰاحٍ سُجَّداً وَرُکَّعٰا، قٰالَ آدَمُ:(علٰی نَبِیِّنٰا وَآلِہ وَعَلَیْہِ السَّلام)ھَلْ خَلَقْتَ اَحَداً مِنْ طِیْنِ قَبْلِی؟ قٰالَ لاٰ یَا آدَمَ! قٰالَ:فَمَنْ ھٰوٴُلٰاءِ الْخَمْسَةِ الْاَشْبٰاحِ الَّذِیْنَ اَرٰاھُمْ فِیْ ھَیْئَتِیْ وَصُوْرَتِیْ؟قٰالَ ھٰوٴُلٰاءِ خَمْسَةٌ مِنْ وُلْدِکَ،لَوْلَاھُمْ مَا خَلَقْتُکَ،ھٰوٴُلٰاءِ خَمْسَةٌ شَقَقْتُ لَھُمْ خَمْسَةَ اَسْمٰاءٍ مِنْ اَسْمٰائِی لَوْلَاھُمْ مٰاخَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَالنّٰارَ ، وِلَاالْعَرَْشَ ، وَلَاالکُرْسِیَ ، وَلَاالسَمَاءَ وَلَاالْاَرْضَ وَلَاالْمَلاٰ ئِکَةَ وَلَاالْاِنْسَ وَلَاالْجِنَّ ،فَاَنَاالْمَحْمُوْدُ وَھَذٰامُحَمَّدٌوَاَنَالعٰالی وَھٰذَاعَلِیٌّ،وَاَنَاالْفٰاطِرُوَھٰذِہِ فَاطِمَة،وَاَنَاالْاِحْسٰانُ وَھٰذَاالْحَسَن وَاَنَاالْمُحْسِنُ وَھٰذَالْحُسَیْن اَلَیْتُ بِعِزَّتِی اَنْ لٰایَأتِیْنِی اَحَدٌ مِثْقٰالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ بُغْضِ اَحَدِ ھِمْ اِلَّا اَدْخُلُہُ نٰاری وَلٰااُبٰالِی یٰاآدَمَ ھٰوٴُلٰاءِ صَفْوَتِی بِھِمْ اُنْجِیْھِم وَبِھِمْ اُھْلِکُھُمْ فِاِذَاکَانَ لَکَ اِلَیَّ حٰاجَةٌ فَبِھٰوٴُلٰاءِ تَوَسَّلْ۔

 ”پیغمبر اکرم نے فرمایاکہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو خلق فرمایا اور اپنی روح میں سے اُس میں پھونکی تو آدم علیہ السلام نے عرش کے دائیں جانب نظر کی تو دیکھا کہ پانچ نوریشخصیات رکوع و سجود کی حالت میں ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے خدا! کیا تو نے مجھ سے پہلے کسی کو مٹی اور پانی سے خلق کیا ہے؟ جواب آیا ،نہیں۔ میں نے کسی کو خلق نہیں کیا۔ حضرتِ آدم علیہ السلام نے پھر عرض کیا کہ یہ پانچ شخصیات جو ظاہری صورت میں میری طرح کی ہیں، کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ پانچ تن تیری نسل سے ہیں، اگر یہ نہ ہوتے تو تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔ان کے ناموں کو اپنے ناموں سے اخذ کیا ہے۔ اگر یہ پانچ تن نہ ہوتے تو نہ بہشت و دوزخ کو پیدا کرتا اور نہ ہی عرش و کرسی کو پیدا کرتا، نہ آسمان و زمین کو پیدا کرتا اور نہ انس و جن و فرشتگان کو پیدا کرتا۔ان پانچ ہستیوں کا تعارف اللہ تعالیٰ نے اس طرح کروایا کہ اے آدم! سنو: میں محمود ہوں اور یہ محمد ہیں۔ میں عالی ہوں اور یہ علی ہیں۔ میں فاطر ہوں اور یہ فاطمہ ہیں۔ میں محسن ہوں اور یہ حسن ہیں۔ میں احسان ہوں اور یہ حسین ہیں۔ مجھے اپنی عزت وجلالت کی قسم کہ اگر کسی بشر کے دل میں ان پانچ تن کیلئے تھوری سی دشمنی اورکینہ بھی ہوگا،اُس کو داخلِ جہنم کروں گا۔ اے آدم ! یہ پانچ تن میرے چنے ہوئے ہیں اور ہر کسی کی نجات یا ہلاکت ان سے محبت یا دشمنی سے وابستہ ہوگی۔ اے آدم ! ہر وقت جب تمہیں مجھ سے کوئی حاجت ہوتو ان کا توسل پیدا کرو“۔

 حوالہ جات

 1۔ علامہ امینی،کتاب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا،صفحہ40۔

 2۔ تفسیر المیزان،جلد1۔

 3۔ مجمع البیان،جلد1اور دوسری تفاسیر میںآ یت 37،سورئہ بقرہ کے ذیل میں۔

 کہتے ہیں جیسے ہی آدم ؑ نے یہ نام لیے ان اسمائے مبارکہ کی محبت آدم ؑ کے دل میں گھر کر گئی۔ اور فرمایا کہ جب میںیہ نام لیتا ہوں تو دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور جیسے ہی میں نامِ حسینؑ پر آتا ہوں تو بے ساختہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ پتہ نہیں اس نام میں ایسا کیا ہے کہ جیسے ہی نام حسینؑ پر نگاہ پڑی آنکھ نے خراجِ اشک دے دیا گویا اللہ نے اس نام میںیہ تاثیر رکھی ہے کہ مومن کی آنکھوں کا وضو ہوتا رہے۔اور پھر جب نورِ محمد ﷺ جبین آدم ؑ میں آیا تو ارشاد ہوا کہ تمام ملائکہ آدم ؑ کو سجدہ کرو۔یاد رہے کہ جبینِ آدم ؑ میں صرف نورِ محمد ﷺ اکیلا نہیں تھا بلکہ یہ پانچوں انوار مقدسہ موجود تھے ۔اور اللہ تمام ملائکہ سے آدم کو سجدہ کروا کر یہ واضح کردینا چاہتا تھا کہ خبردار کبھی محمد و آلِ محمد ﷺ کی برابری نہ کرنا بلکہ یہ ہر لحاظ سے بعد از خدا سب سے افضل و برتر ہیں اور ان کے آگے جھک گئے تو میں بھی راضی ہو جائوں گا ورنہ ۔۔۔۔دیکھ لو جب اللہ نے کہا تو سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر سوائے ابلیس کہ ،یاد رہے کہ ابلیس فرشتہ نہیںنوعِ جن سے تھا لیکن تخلیق آدم ؑ سے قبل اس نے اللہ کی اتنی عبادت کی کہ اللہ نے اسے اسی عبادت کے طفیل جنوں کی قطار سے نکال کر سردارِ ملائکہ بنا دیا مگر جیسے ہی اِ س نے دیکھا کہ فضلیت اور برتری تو آدم ؑ کو مل رہی ہے اور یہ جانتا تھا کہ آدم ؑ مٹی سے تخلیق ہوئے ہیں جبکہ یہ آگ سے بنا تھا جس کا اظہار بھی اس نے اللہ کے سامنے کر دیا جب اللہ نے ابلیس سے کہا کہ سب فرشتوں نے آدم ؑ کو سجدہ کیا تو نے کیوں نہیں کیا تو اُس خبیث نے برملا کہا کہ میں آدم ؑ سے افضل ہوں(نعؤذ باللہ) گویا بارگاہ ایزدی میں اُس نے اپنی فضیلت کا اعلان کر کے غرور و تکبر کا مرتکب ہوا فوراً آوازِ توحید آئی ۔نکل جا ،تو ملعون ہے ۔تو نے میرے حکم کا انکار کیا ہے اور جنہیں میں نے فضیلت دی اعلیٰ و افضل بنایا تو ان کے مقابل آنا چاہتا ہے کیونکہ بظاہر تو جناب آدم ؑ مسجودِ ملائکہ تھے جبکہ حقیقتاً یہ سجدہ انورِ خمسہ کی عزت و عظمت کو آشکار کر رہا تھا ۔اور یہ ابلیس ملعون اسی حسد کی بنا ء پر شیطان قرار پایا ۔جب اسے اللہ نے نکال دیا تو یہ ملعون بولاکہ میں نے اتنا عرصہ تیری عبادت کی ہے اور کوئی جگہ روئے زمین پر ایسی نہیں جہاں پر تیر ا سجدہ نہ کیا ہو مجھے اس کا عوض چاہیے۔ خالق لم یز ل نے فرمایا کیا چاہتا ہے؟ بولا مجھے مہلت دی جائے تاکہ میں ان (یعنی اولادِ آدمؑ) کوگمراہ کرتا رہوں( گویا دشمنی علی ؑ پر آمادہ کرتا رہوں)  اور میں سب کو گمراہ کر دوں گا۔ آوازِ قدرت آئی جا تجھے وقت معلوم تک مہلت ہے ہا ں یاد رکھ جو میرے خالص بندے (مومن) ہوں گے وہ تیرے بہکاوے میں کبھی نہیں آئیں گے۔ اور یوں دشمنی علی ؑ کی ابتدا بھی ہو گئی۔اب جب آدم ؑ سے جنت میں ترکِ اولیٰ ہوا ۔ مدتوں تک حضرت آدم علیہ السلام گریہ کرتے رہے اور خدا سے طلب ِمغفرت کرتے رہے لیکن بالآخر اسمائے پنجتن پاک یعنی محمد، علی علیہ السلام، جنابِ فاطمہ سلام اللہ علیہا، حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کے توسل سے اُن کی توبہ قبول ہوئی  اور ارشاد ہوا ۔ فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَبِّہ کَلِمٰاتٍ فَتٰابَ عَلَیْہِ اِنَّہُ ھُوَالتَّوّٰابُ الرَّحِیْم۔  ”پس آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کلمات سیکھے، خدا نے اُن کی توبہ قبول کی، بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے“۔(سورئہ بقرہ:آیت37)۔

 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبّاسٍ قٰالَ:سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم عَنِ الْکَلِمٰتِ الَّتِیْ تَلَقّٰا اٰدَمُ مِنْ رَبِّہ فَتَابَ عَلَیْہِ قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم سَأَلَہُ ”بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَعَلِیٍ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ اِلَّا تُبْتَ عَلَیَّ“فَتَابَ عَلَیْہِ۔

 ”عبداللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم سے اُن کلمات کے بارے میں سوال کیا گیا جو حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے دریافت کئے تھے اور جن کی وجہ سے اُن کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ جواب میں پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام نے بحق پنجتن پاک (محمد،علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین ) اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ اُن کی غلطی کو معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی غلطی کو معاف کردیا اور اُن کی توبہ کو قبول کرلیا“۔ تو پھرواضح ہوا کہ جناب آدم ؑ نے انہی انوارِ مقدسہ پنجتن پاک کے ناموں کے صدقہ میں خالق کن فیکون سے توبہ کی درخواست کی گویا محبتِ علی ؑ کا عوض مانگ رہا تھا جسے اللہ نے قبول کرتے ہوئے اس وعدے پرزمین کی خلافت اور جانشینی عطا فرمائی اور اپنا نائب بنا کر زمین پر بھیج دیاکہ اب تیرا اور تیری اولاد کا مسکن زمین ہے۔ جہاں زندگی کا مکمل سامان میں پہلے ہی بہم پہنچا چکا ہوں ایک وقت مقررہ تک تمہیں زمین پر رہنا ہے پھر میں تمہیں اپنے پاس بلا لوں گا مگر یاد رہے اب جو بھی تیری نسل میں سے میرا مطیع و فرمانبردار رہے گا یعنی علی ؑ سے محبت کرے گا میں اُسے دوبارہ جنت میں داخل کر دوں گا اور جوظلم (دشمنی علی ؑ) کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

  حوالہ جات

 1۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب علی علیہ السلام میں، حدیث89،صفحہ63.

 2۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی ،ینابیع المودہ، صفحہ111،باب24اور ص283،حدیث55

 3۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں۔

 4۔ تفسیر نمونہ،ج1،صفحہ199اور تفسیر المیزان،جلد1،صفحہ149اوردوسری کتب میں۔

  یاد رہے کہ جملہ انبیاء ؑ عظام کو نبوت و رسالت صرف اور صرف محبت علی ؑ کی بناء پر ملی جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:۔

 عَنِ الْاَسْوَدِعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُود قٰالَ،قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم یا عَبْدَاللّٰہِ أَ تٰانِیْ مَلَکٌ فَقٰالَ:یَامُحَمَّدُ!”وَاسْئَل مَنْ اَرْسَلْنٰامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنٰا“عَلٰی مٰابُعِثُوا؟قٰالَ:قُلْتُ:عَلٰی مٰا  بُعِثُوْا؟ قٰالَ:عَلٰی وَلَایَتِکَ وَوِلَایَةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب۔

 ”اسود جنابِ عبداللہ ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایاکہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ آیا اور کہا کہ اے پیغمبر خدا!آپ مجھ سے اپنے سے پہلے انبیاء کے بارے میں سوال کریں کہ وہ کس لئے نبوت پر مبعوث ہوئے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اُس فرشتے سے کہا ،بتاؤ کہ وہ کس لئے مبعوث ہوئے تھے؟ فرشتے نے کہا کہ وہ آپ کی اور حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی تصدیق کیلئے مبعوث ہوئے تھے“۔

 حوالہ جات:

 1۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب حالِ امام علی ،ج2،ص97،حدیث602،شرح محمودی

 2۔ حاکم نیشاپوری، کتاب ”المعرفہ“اپنی سند کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے۔

اب دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید فرقانِ حمید میں خالق کائنات نے اپنے محبوب حضرت علی ؑ سے محبت کے متعلق کیا کہا ہے ؟ ارشادِ رب العزت ہوتا ہے۔ 

 اِنَّماَ وَلِیُّکُمُ اللهُ وَ رسُولُہ وَ الَّذِین آمَنُوا الّذِینَ یُقیمُونَ الصَّلوٰة ویُؤتُون الزَّکَاةَ وَہُمْ راکعونَ

بےشک اللہ اور اس کا رسول اور اس کے بعد وہ تمہاراولی ہے جو ایمان لایا اورنماز قائم کی اور رکوع کی حالت میں زکوٰۃادا کی۔

 زمخشری اپنی کتاب کشاف میں بیان کیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ نے نما ز پڑھتے وقت حالت رکوع میں سائل کو اپنی انگوٹھی عطا کی۔ نیزاللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ فَمَنْ کَانَ عَلیٰ بینةٍ مِنْ رَبّہِ وَ ےَتْلُوْہُ شَاھِد مِنْہُ۔ کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی دلےل پر قائم ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ ہے جواسی سے ہے۔

سیوطی درمنثور میں کھتےہیں کہ اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور مزیدلکھتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اٴفمن کان علیٰ بینةٍ من ربہِ و ےتلوہ شاھدٌ منہ۔وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلےل پر قائم ہے وہ میں ہوں اور اس کےپیچھے پیچھے ایک گواہ ہے جو اسی سے ہے اوروہ حضرت علی علیہ السلام ہیں۔

نیزاور اللہ کا یہ ارشاد ھے :

اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُون کیا ایمان لانے والا اس شخص کے برابر ہے جو بد کاری کرتا ہے ؟یہ دونوں برابر نھیںہیں۔

واحدی نے مذکورہ آیات کے اسباب نزول کے بارے میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولید بن عقبہ بن ابی محیط نے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے کہا۔

 میں آپ سے عمر میں زیادہ ،زبان میںگویا تر اور زیادہ لکھنا جانتا ھوں۔ حضرت علی علیہ السلا م نے اس سے کہاکہ خاموش ہو جاؤ تم تو فاسق ہو اور اس وقت یہ آیت نازل ھوئی :

 اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ ۔ کیا ایمان لانے والا شخص اس کے برابر ہے جو کھلی بدکاری کرتا ہے؟ یہ دونوں برابر نھیںہو سکتے ۔ابن عباس کھتےہیں اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی علیہ السلام مومن ہیں اور ولید بن عقبہ فاسق ھے ۔[20]

نیز اللہ کا فرمان ہے :

إِنْ تَتُوْبَا إِلَی اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَ إِنْ تَظَاھَرَا عَلَیْہِ فَاِنَّ اللهَ ھُوَ مَوْلٰیہ وَجِبْرَےْلُ وَصَالِحُ الْمؤمنین وَالمَلٰا ئِکَةُ بَعْدَ  ذٰلِکَ  ظَھِےْرٌ۔ ( اے نبی کی ازواج ) اگر تم اللہ کے حضور توبہ کر لو (تو بہتر ھے ) کیونکہ تمہارے دل کج ھو گئےہیں اگر تم دونوں نبی کے خلاف کمر بستہ ھو گئیں توبےشک اللہ ،جبرئل اور صالح مومنین اس کے مدد گار ہیں اور ان کے بعد ملائکہ کے بعد ملائکہ ان کی پشت پرہیں ۔[21]

ابن حجر کھتے ھیں طبری نے مجاھد کے حوالہ سے نقل کیا ھے صالح المومنین حضرت علی علیہ السلام ‘ ابن عباس ، حضرت امام محمد بن علی ا لباقر اور ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام ھیں ۔ ایک دوسری روایت میں مروی ھے کہ صالح المومنین سے مراد حضرت علی علیہ السلام ھیں[22]

اسی طرح خداوندعالم کا یہ ارشاد :

 لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَةً وَتَعِیَہَا اٴُذُنٌ وَاعِیَةٌ  [23]

 اس واقعہ کو تمہارے لیئے یادگار بنا دیں تاکہ یاد رکھنے والے کان اس کو یا د رکھیں۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی اس آیت وتعیھااٴُذن واعیہ کی تلاوت فرمائی اور پھر حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ھو کر فرمایا:اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کے کانوں کو ان خصوصیات کا مالک بنا دے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ میں رسول اکرم سے جس چیز کو بھی سنتا تھااسے فراموش نھیں کرتا تھا۔[24]

حضرت علی کے متعلق اللہ تعالی کا ایک اور یہ فرمان ہے: اٴَنْتَ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ[25]

آپ تو محض ڈرانے والے ہیں اورہر قوم میں ایک نہ ایک ہدایت کرنے والا ہوتا ہے۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ھیں:    اٴنا المنذر وعلي الہادي وبک یا علی ےھتدی المھتدون من بعدی۔ میں ڈرانے والا اور حضرت علی علیہ السلام ہادی ھیں ،اس کے بعداسی جگہ فرمایا:اے علی(علیہ السلام) میرے بعد ھدایت چا ھنے والے تیرے ذریعے ھدایت پائیں گے[26]

اسی طرح خداوند متعال کا ایک اور فرمان ھے:


الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَہُمْ اٴَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ 

وہ لوگ جو دن اور رات میں اپنا مال پوشیدہ اور آشکار طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میںخرچ کرتے ھیں ،ان کے رب کے پاس ان کا اجر ھے اور انھیں کسی قسم کا خوف و غم نھیں ھے۔[27]

ابن عباس کھتے ھیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ھوئی آپ کے پاس چار درھم تھے آپ نے ایک درھم رات میں، ایک درھم دن میں، ایک درھم چھپا کر اور ایک درھم علانیہ اللہ کی راہ میں خرچ کیاتو یہ آیت نازل ھوئی۔[28]

نیزاللہ کا فرمان ھے:إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمْ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔>[29]

بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کئے عنقریب خدائے رحمن ان کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں پیدا کرے گا ۔

حضرت علی علیہ السلام کے فضل و کمال کے سلسلہ میں نازل ھونے والی آیات میں خداوندمتعال کاارشاد سیجعل لھم الرحمن ودا خصوصی طور پر آپ کی بابرکت شان کی عکاسی کرتا ھے ۔اسی کے بارے میں ابوحنفیہ کھتے ھیں کہ کوئی مومن نھیں ھے جس کے دل میں حضرت علی علیہ السلام اور ان کے اھلبیت کی محبت قائم نہ ھو۔[30]

نیز اللہ تعالی کا ارشاد ھے:

إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیہ[31]

جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کئے یھی لوگ مخلوقات میں سب سے بھتر ھیں۔


 ابن عباس کھتے ھیں کہ جب یہ آیت نازل ھوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:

یا علي تاتي اٴنت و شےعتک یوم القیامة راضےن مرضےن و یاٴتي عدوک غضا باً مقمَّحےن۔

 (اے علی (ع))وہ خیر البریہ آپ اور آپ کے شیعہ ھیں آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خوشی و مسرت کی حالت میں آئیں گے اور آپ کے دشمن رنج و غضب کی حالت میں آئیں گے۔

قال: ومن عدوی؟

 حضرت علی نے کہایا رسول اللہ میرا دشمن کون ھے ؟

 قال:من تبراٴ منک ولعنک

آپ نے فرمایا:

 جو آپ سے دوری اختیار کرے اور آپ کو برا بھلا کھے وہ آپ کا دشمن ھے۔[32]

اسی طرح خداوندمتعال کا ایک اور فرمان ھے :

< یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ۔>[33]

اے مومنین ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ھو جاؤ ۔

سورہ تو بہ کی اس آیہ شریفہ کے ذیل میں جناب سیوطی کھتے ھیں: ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت بیان کی ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 اللہ تعالی کا یہ فرمان :

< اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ[34]

 اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ھو جاؤ۔[35]

 اس میں سچوں کے ساتھ ھونے کا مطلب یہ ھے کہ حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ھو جاؤ۔

نیزاللہ کا فرمان ھے:< اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَجَاہَدَ فِی سَبِیلِ اللهِ لاَیَسْتَوُونَ عِنْدَ اللهِ وَاللهُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ۔>[36]

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کو آبادکرنے کے کام کو اس شخص کی خدمت کے برابر سمجھ لیا ھے جو اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان لا چکا ھے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی کر چکا ھے یہ دونوں خدا کے نزدیک برابر نھیں ھو سکتے اور خدا ظالموں کو سیدھے راستہ کی ھدایت نھیں کرتا۔

 السدي کھتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام ،جناب عباس اور شبیر بن عثمان آپس میں فخر کیا کرتے تھے ،حضرت عباس کھتے تھے میںآپ سب سے افضل ھوں کیونکہ میں بیت اللہ کے حاجیوں کو پانی پلاتا ھوں ،جناب شبیر کھتے تھے کہ میں نے مسجد خدا کی تعمیر کی ۔حضرت علی علیہ السلام کھتے ھیں:  میں نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم ) کے ساتھ ھجرت کی اور ان کے ساتھ مل کر اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:


< الَّذِینَ آمَنُوا وَہَاجَرُوا وَجَاہَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِہِمْ وَاٴَنفُسِہِمْ اٴَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللهِ وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْفَائِزُونَ ۔ یُبَشِّرُہُمْ رَبُّہُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْہُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَہُمْ فِیہَا نَعِیمٌ مُقِیمٌ >۔[37]


وہ لوگ جو ایمان لائے اور ھجرت کی اور اللہ تعالی کی راہ میں جان ومال کے ذریعہ جہاد کیا اللہ تعالی کے نزدیک انکا بھت بڑا مقام ھے ،یھی لوگ کا میاب ھیں اللہ تعالی نے انھیں اپنی رحمت کی بشارت دی ھے باغات اور جنت انھیں کے لیئے ھیں اور وہ ھمیشہ وہاںرھیں گے۔


نیز اللہ تعالی یوں ارشاد فرماتا ھے:


< وَقِفُوْھُمْ اِنّھُمْ مَسْؤلُون۔[38]


  انھیں روکو-، ان سے سوٴال کیاجائے گا۔

 ابن حجر کھتے ھیں کہ دیلمی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ھے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجےد کی اس آیت سے مراد یہ ھے کہ انھیںروکو،کیونکہ ان سے ولایت علی (ع)ابن ابی طالب علیہ السلام سے متعلق سوال کیاجائے گا۔


 اسی مطلب کو واحدی نے بھی بیان کیا ھے کہ اللہ تبارک وتعالی کے فرمان وقفوھم انھم مسئولون ۔کہ انھیں ٹھھراؤ یہ لوگ ذ مہ دار ھیں اس سے مراد یہ ھے کہ یہ لوگ حضرت علی علیہ السلام اور اھل بیت کی ولایت کے سلسلے میں جواب دہ ھیں کیونکہ اللہ  تبارک تعالی نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا ھے کہ لوگوں کو بتاؤ کہ میں تم سے تبلیغ رسالت کا فقط یھی اجر مانگتا ھوں کہ میرے قرابت داروں سے محبت رکھو۔


کیا ان لوگوں نے(حضرت) علی علیہ السلام اور اولاد علی (ع) سے اسی طرح محبت کی جس طرح رسول اللہ(ص)نے حکم دیا تھا یا انھوں نے ان سے محبت کرنے کا اھتمام نھیں کیا اور اسے اہمیت نہیں دی لہٰذا اس سلسلہ میں ان لوگوں سے پوچھا جائے گا۔[39]

خداوندعالم کا ارشاد ھوتا ھے :


< یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَسَوْفَ یَاٴْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ یُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَیَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ >۔[40]


اے ایمان والو! تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے عنقریب اللہ ایسے لوگوں کو ان کی جگہ پر لے آئے گا جنھیں اللہ دوست رکھتا ھے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے  ھونگے ،مومنین کے ساتھ نرم اور کافروں کے ساتھ سخت ھونگے اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کے ملامت سے نھیں ڈریں گے،یہ خدا کی مھربانی ھے ،جسے چاھے عطا فرمائے اور خدا صاحب وسعت اور جاننے والا ھے۔


 فخر الدین رازی اور علماء کا ایک گروہ اس آیہ مبارکہ کی تفسیر کرتے ھوئے کھتے ھیں :


 یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ،اور اس پر دو چیزیں دلالت کرتی ھیں پھلی یہ کہ جب حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیر کے دن فرمایا:


لاٴدفعن الرایہ غداً الیٰ رجلٍ یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ۔


 کل میں یہ پرچم اس شخص کے حوالے کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول کومحبوب رکھتا ھے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ھیں۔اس کے بعد پرچم حضرت علی علیہ السلام کے حوالے کیا لہٰذا یہ وہ صفت ھے جو آیت میں بیان ھوئی ھے ۔


 دوسری یہ کہ ا للہ نے اس آیت کے بعد مندرجہ ذیل آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے حق میںبیان فرمائی:


< إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ>


تمہارا حاکم اور سردار فقط اللہ،اس کا رسول،اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور پابندی سے نماز پڑھتے ھیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ھیں ۔


ابن جریر کھتے ھیں:


 اگریہ آیت یقینا حضرت علی علیہ السلام کے حق میں نازل ھوئی ھے تو اس سے پھلی والی آیت کا حضرت علی کے حق میں نازل ھونا اولی ھے۔ [41]


 نیزاللہ تعالی کا یہ فرمان :


< فَاسْاٴَلُوا اٴَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ[42]


اگر تم نھیں جانتے تو اھل ذکر سے سوال کرو۔


جابر جعفی کھتے ھیں کہ جب یہ آیت ”فاُسئلوا  اٴھل الذکر ان کنتم لا تعلمون“نازل ھوئی تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے تھے ھم اھل ذکر ھیں۔[43]


 اللہ تبارک وتعالی فرماتا ھے:


< اٴَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلاَمِ فَہُوَ عَلَی نُورٍ مِنْ رَبِّہِ فَوَیْلٌ لِلْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُمْ مِنْ ذِکْرِ اللهِ اٴُوْلَئِکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ >


کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیئے کھول دیا ھے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے نور(ھدایت)پر ھے اس کے برابر ھو سکتا ھے جو کفر کی تاریکیوں میں پڑا رھے پس افسوس ھے ان لوگوں پر جن کے دل یاد خدا کے سلسلے میں سخت ھو گئے ھیں وھی لوگ کھلی گمراھی میں ھیں ۔[44]


یہ آیت بھی حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بیان کرتی ھے کیونکہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام ،حضرت حمزہ علیہ السلام ‘ابو لھب اور اس کی اولاد کے متعلق نازل ھوئی حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حمزہ وہ ھیں جن کے سینوں کو اللہ تبارک تعالی نے اسلام کے لیئے کھول دیا ھے اور ابولھب اور اس کی اولاد وہ ھے جن کے دل سخت ھیں۔[45]                      

ایک اور آیت میں اللہ فرماتا ھے:


< مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللهَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا>[46]


مومنین میں سے بعض ایسے بھی ھیں جنھوں نے خدا سے کیا ھوا عھد سچ کر دکھایا ان میں سے بعض ایسے ھیں جو اپنی ذمہ داری پوری کر چکے ھیں اور بعض (شہادت) کے منتظر ھیں اور انھوں نے( ذرا سی بھی)تبدیلی اختیار نھیں کی ۔


حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں منبر پر خطبہ دے رھے تھے وہاں آپ سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :


یہ آیت میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھائی عبیدہ بن الحارث بن عبد المطلب اور میری شان میں نازل ھوئی ھے۔ عبیدہ اپنی ذمہ داری بدر کے دن شھید ھو کر پوری کرگئے اور حمزہ احد کے دن درجہ شہادت پر فائز ھو کر اپنی حیات مکمل کر گئے ۔اور میں اس کا منتظر و مشتاق ھوں۔ پھر اپنی ریش مبارک اور سر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ وہ عھد ھے جو مجھ سے میرے حبیب حضرت ابوالقاسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لیاھے ۔[47]

اس طرح خدا وند عالم کا ارشاد ھے:


<وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُتَّقُونَ >[48]


 اور جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یھی لوگ( تو) پرھیز گار ھیں۔


ابو ھریرہ کھتا ھے کہ صدق کو لانے والے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت علی علیہ السلام ھیں[49]


ایضاً اللہ ارشاد فرماتا ھے:


< مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ   بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لاَیَبْغِیَان  فَبِاٴَیِّ اٰ لآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان>۔[50]


اس نے آپس میں ملے ھوئے دو دریا بھادئیے ھیں اور دونوں کے درمیان ایک پردہ ھے جو ایک دوسرے پر زیادتی نھیں کرتا پھر تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوںکو جھٹلاؤ گے ان دونوں سے موتی اور مونگے ( لو لو اور مرجان) نکلتے ھیں۔


 ابن مردویہ نے ابن عباس سے مرج البحرین یلتقیان کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا ان سے مراد حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ (ع) ھیں اور برزخ لا یبغیان سے مراد حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھیں اور یخرج منھما اللؤلؤ و المرجان سے مراد حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ھیں۔[51]

ایضاًاللہ تعالی ارشاد فرماتا ھے:

 اٴمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ نَجْعَلَہُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ >


 جو لوگ برے کاموں کے مرتکب ھوتے رھتے ھیں کیا انھوں نے یہ خیال کر رکھا ھے کہ ھم ان کو ان لوگوں کی مانند قرار دیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رھے کیا ان کا جینا و مرنا مساوی ھے یہ لوگ (کیسے کےسے )برے حکم لگایا کرتے ھیں۔[52]


کلبی کھتے ھیں کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ،حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ اور تین مشرکین عتبہ ،شیبہ اور ولید بن شیبہ کے بارے میں نازل ھوئی ھے ۔


یہ تینوں مومنین سے کھتے تھے کہ تم کچھ بھی نھیں ھو اگر ھم حق کہہ دیں تو ھمارا حال قیامت والے دن تم سے بھتر ھو گا۔ جیسا کہ دنیا میں ھماری حالت تم سے بھتر ھے۔لیکن اللہ تبارک و تعالی نے اپنے اس فرمان کے ساتھ ان کی نفی کی ھے کہ یہ واضح ھے کہ ایک فرمانبردار مومن کا مرتبہ و مقام ایک نا فرمان کافر کے برابر ھرگزنھیں ھو سکتا ۔[53]


ایضاً اللہ تعالی ارشاد فرماتا ھے :


<وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنْ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا >


اور وھی قادر مطلق ھے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو بیٹا اور داماد بنا دیا (اور)پروردگار ھر چیز پر قادر ھے ۔[54]


محمد بن سرین اس آیت کی تفسیر میں کھتا ھے کہ یہ آیت حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و االہ و سلم اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام  کے بارے میں نازل ھوئی ھے جو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و االہ و سلم) کے چچا زاد اور آنحضرت کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کے شوھر ھیں گویا ”نسباً“اور” صھراً  “کی تفسیرےھی ھستی ھے۔[55]                 

ایضاً پروردگار عالم کا ارشاد ھے:


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ ۔ إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ [56]


زمانے کی قسم بےشک انسان خسارے میں ھے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے اور باھم ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور صبر کی تلقین کرتے ھیں۔


سیوطی کھتے ھیں کہ ابن مردویہ نے ابن عباس سے یہ قول نقل کیا ھے کہ  وَالْعَصْرِ إِنَّ   الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ،سے مراد ابوجھل بن ھشام ھے اور”إِلاَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ“ سے مرادحضرت علی علیہ السلام اور حضرت سلمان ھیں۔[57]


ایضاًاللہ تعالی کا ارشاد ھوتا ھے :


<ٌ وَعَلَی الْاٴَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّا بِسِیمَاہُمْ ۔[58]


اعراف پر کچھ ایسے لوگ (بھی )ھوں گے جولوگوں کی پیشانیاں دیکھ کر انھیں پہچان لیں گے ۔


ثعلبی نے ابن عباس سے روایت بیان کی ھے کہ ابن عباس کھتے ھیں پل صراط کی ایک بلند جگہ کا نام اعراف ھے اور اس مقام پر حضرت عباس ، حضرت حمزہ اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام موجود ھوں گے وہاں سے دو گروہ گزریں گے یہ لوگ اپنے محبوں کو سفید اور روشن چھروںاور اپنے دشمنوں کو سیاہ چھروں کے ذریعے پہچان لیں گے ۔[59]


قارئین کرام !تھی یہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان اور فضیلت میں نازل ھونے والی آیات کی یہ ایک جھلک ھے کیونکہ آپ کی شان میں نازل شدہ تمام آیات کو اس مقام پر بیان کرنا مشکل ھے۔بھرحال خطیب بغدادی ابن عباس سے روایت کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت اور شان میں تین سو سے زیادہ آیات نازل ھوئی ھیں ۔[60]


 ابن حجر اور شبلنجی ابن عامر اور ابن عباس سے روایت کرتے ھیں کہ کسی کے متعلق بھی اس قدر آیات نازل نھیں ھوئیں جتنی آیات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق نازل ھوئی ھیں ۔[61]


 ھم حضرت علی علیہ السلام کی بلند و بالا اور اعلیٰ وارفع شان اور آپ کی فضیلت اور اللہ کے نزدیک آپ کی عظیم منزلت کے متعلق نازل ھونے والی آیات کریمہ کا آنے والے ابواب میں تذکرہ کریں گے ۔

آپ اور آپ کے اھل بیت ھی طاھر و مطھر ھیں


اللہ تعالی کا فرمان ھے :


 <إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا ۔>[62]


اے اھلبیت رسول! خدا کا فقط یھی ارادہ ھے کہ وہ ھر قسم کی گندگی اور رجس کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسا پاک و پاکیزہ رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ھے۔


 حضرت ام سلمیٰ ارشاد فرماتی ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام حضرت حسن علیہ السلام، حضرت حسین علیہ السلام،اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کو اپنی چادر کے نیچے بلا کر فرمایا:


اللھم ھؤلاء اٴھل بیتي وخاصتي اٴذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا۔


پروردگارا ! یھی میرے اھلبیت اور خاص لوگ ھیں ان سے ھر قسم کی گندگی کو دور فرما اور  انھیں پاک و پاکیزہ رکھ جیسا پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے۔


اس مقام پر حضرت ام سلمی نے کھااے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں بھی آپ کے ساتھ ھوں آپ(ص)نے فرمایا تم خیر پر ھو ۔[63]


اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ھے:


< فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ کَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ کُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ> [64]


جو شخص آپ سے (حضرت عیسی کے بارے میں) خواہ مخواہ الجھ پڑے اس کے بعد کہ تمھیں علم ھو چکا ھو تو (صاف صاف) کہہ دیں آؤ ھم اپنے بیٹوں کو بلائیںتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ ھم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو بلاؤ،ھم اپنی جانوں کو بلائیں تم اپنی جانوں کو بلاؤ۔اور پھر ھم آپس میں مباھلہ کریںاور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں۔


 معاویہ بن ابی سفیان‘ سعد بن ابی وقاص سے کھتا ھے کہ تمھیں کس چیز نے ابو تراب پر لعن و طعن کرنے سے منع کیا ھے ؟


      سعد نے جواب دیا:


 تم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تین حدیثوں کوبھلا دیاجو حضرت علی (ع)  کے فضائل میں بیان فرمائی تھی کہ اگر ایک بھی ان میں سے مجھے مل جاتی تو تمام دنیا و آخرت کی نعمتوں پر بھاری تھی لہٰذا ان کے ھوتے ھوئے میں حضرت علی علیہ السلام پر کس طرح لعن طعن کر سکتا ھوں آپ نے فرمایا:

 ۱۔       ان پر ھرگز سب و شتم نہ کرنا۔


 جب حضرت رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ تبوک میں تشریف لے جا رھے تھے ، آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنایا تو حضرت علی علیہ السلام نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنا کر جا رھے ھیں؟۔


اس وقت میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا:


اٴما ترضیٰ اٴن تکون مني بمنزلة ھارون من موسی الّا اٴنہ لا نبي بعدي۔


 کیا آپ اس پر راضی نھیں ھیں کہ میرے ساتھ آپ کی نسبت وھی ھو جو حضرت ہارون کی حضرت موسیٰ سے تھی لیکن میرے بعد کوئی نبوت نھیں ھے۔


۳۔   اور تےسرا مقام یہ ھے کہ میں نے جنگ خیبر والے دن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے بھی سنا:


لاٴعطین الرایة رجلا یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ۔


 میں کل علم اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ھے، (او ر) اللہ اور اس کا رسول اسے دوست رکھتے ھیں۔


اس کے بعد حضرت نے فرمایا:


 (حضرت) علی کو میرے پاس بلا لاؤ۔


 حضرت علی علیہ السلام آپ کے پاس تشریف لائے ،آپ(ع)  کی آنکھیں کچھ خراب تھیںحضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں علم دیا اور اللہ نے فتح عطا فرمائی۔


 اسی طرح جب یہ آیت قل تعالواندع ابناء نا و ابناء کم نازل ھوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام ،حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکو اپنے پاس بلا کر فرمایا۔ پروردگارا! یھی میرے اھلبیت ھیں۔[65]


اس طرح آپ کے فضائل بیان کرتے ھوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتا:


< یُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُونَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہُ مُسْتَطِیرًا  وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَاٴَسِیرًاإِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللهِ لاَنُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَلاَشُکُورًا>[66]


اور وہ اپنی منتوں کو پورا کرتے ھیں اور اس دن سے خوف کھاتے ھیں جس کی سختی ھر طرف پھیل جا ئے گی اور وہ خدا کی محبت میں مسکین‘ یتیم اور اسیر کو کھانا  کھلاتے ھیں، (اور یہ کھتے ھیں کہ)ھم تو فقط اللہ کی خوشنودی کے لیئے کھلاتے ھیں اور ھم کسی قسم کے بدلے اور شکریہ کے طالب نھیں ھیں ۔


ابن عباس کھتے ھیں کہ ایک مرتبہ حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام مریض ھو گئے تو حضرت  رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:


 اے ابو الحسن آپ اپنے بچوں کے لیئے منت مانےں ۔


 حضرت علی علیہ السلام نے کھااگر خداوندمتعال انھیں صحت عطا فرمائے تو میں تین دن تک روزہ رکھوں گا اسی طرح جناب فاطمہ سلام اللہ علیھانے بھی ےھی منت مانی۔


 آپ کی کنیز جناب فضہ ثوبیہ نے بھی منت مانی کہ اگر میرے سردار ٹھیک ھو جائیں تو میں تین روزے رکھوں گی حضرت علی علیہ السلام شمعون خیبری کے پاس گئے اور اس سے تین صاع جو قرض لئے اور جناب فاطمہ کے پاس آئے بی بی نے ایک صاع جو کو پیس کر اس سے روٹی تیار کی۔


حضرت علی علیہ السلام حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر گھر وآپس آئے اور جب ان کے سامنے کھانا چنا گیا تو دروازے پر ایک مسکین نے آواز دی۔


السلام علیکم اھل بیت محمد۔


اے اھل بیت محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پرسلام ھو۔


میں ایک مسکین مسلمان ھوں مجھے کھانا کھلائیں خدا آپ کو جنت کے پھل عطا کرے گا۔


 حضرت علی علیہ السلام نے اس آواز کو سنا تو فرمایا سارا کھانا اسے دے دیں  اورخودپانی کے چند گھونٹ کے ساتھ روزہ افطار کیا۔


 دوسرے دن حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھانے ایک صاع جؤ کی روٹیاں تیار کیں حضرت علی علیہ السلام حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر وآپس آئے جب کھانا لگایا گیا اس وقت ایک یتیم نے دروازہ پر آکر کہا۔


السلام علیکم اھل بیت محمد ۔


اے اھل بیت محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر سلام ھو۔


 مہاجرین میں سے ایک یتیم آپ کے دروازے پر کھڑا ھے ، اسکاباپ شھید ھو چکا ھے اسے کھانا کھلائیں۔


 آپ(ع) نے سارا کھانا اسے دے دیا اور دوسرے دن بھی پانی کے علاوہ کچھ نہ چکھا جب تیسرا دن ھوا جنا ب فاطمہ (ع)نے آخری صاع گندم کوپیسا اور اس سے کھانا تیار کیا حضرت علی  علیہ السلام جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر وآپس آئے اورکھانا لگایا گیا اس وقت دروازے پر کھڑے ایک قیدی کی صد ا  بلند ھوئی۔


السلام علیکم اھل  بیت النبوة۔


اے اھل بیت محمد آپ پر سلام ھو۔دشمنوںنے ھمیں اسیر بنایا ھمارے ساتھیوںکو شھید کیا اور کھانا تک نہ دیا آپ مجھ اسیر کو کھانا کھلائیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے ساری غذا اس کے حوالے کردی آپ نے تین شب وروز تک پانی کے علاوہ کچھ نھیں کھایا۔حضرت رسول اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے سب کو بھوکا دیکھا اس وقت اللہ تعالی نے آپ کی شان میں قران مجےد میں: ھل اٴتی علیٰ الانسان حینٌ من الدھر سے لے کر جزاء ولا شکورا تک کی آیات نازل فرمائیں۔[67]


اور اللہ تعالی کا فرمان ھے۔


< قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی>[68]


اے رسول (ص)ان سے کہہ دیں کہ میں تبلیغ رسالت کے سلسلے میںاپنے قرابت داروں یعنی اھلبیت کی محبت کے علاوہ تم سے کوئی اجر نھیں مانگتا ۔


ایک اعرابی رسول خدا کی خدمت میں حاضر ھوا اور کھنے لگا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے اسلام قبول کروائیں تو حضرت نے فرمایا تم گواھی دوکہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نھیں اور اس کا کوئی شریک نھیں اور محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس کے عبد اور رسول ھیں۔ جب کلمہ تو حید اور رسالت پڑھ چکا تو کھنے لگا مجھ پر اس کی کوئی اجرت ھے۔


       فرمایا :


نھیں مگر یہ کہ میرے قرابت داروں سے محبت ۔


 اس نے کھا، آپ کے قرابت  داروں کی محبت پر میں آپ کی بیعت کرتا ھوں اور جو شخص آپ اور آپ کے قرابت داروں سے محبت نھیں کرتا اللہ اس پر لعنت کرے ،اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آمین۔[69]


حضرت امام حسن علیہ السلام اپنے والد بزرگوار حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت کے دن خطبہ کے درمیان فرماتے ھیں:


ٴیایھا الناس من عرفني فقد عرفني، و من لم یعرفني فاٴنا الحسن بن علي واٴنا ابن النبي صلیٰ اللہ علیہ وآلہ و سلم واٴنا ابن الوصي واٴنا ابن البشیر واٴنا ابن النذےر واٴنا ابن الداعي الیٰ اللہ باذنہِ واٴنا ابن السراج المنےر۔


اے لوگو!جو مجھے جانتا ھے سو جانتا ھے اور جو نھیں جانتا وہ جان لے کہ میں حسن (ع)ابن علی( علیہ السلام )ھوں میں حضرت نبی ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرزند ھوں میں ابن وصی ھوں، میں بشارت دینے والے اور ڈرانے والے کا بیٹا ھوں، میں اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جگر گوشہ ھوں اور میں سراج منیر کا چشم وچراغ ھوں ۔


      نیزمزید فرمایا:


واٴنا من اٴھل البیت الذین کان جبرےل ےنزل الےنا وےصعدْ من عندنا واٴنا من اھل البیت الذین اٴذھب اللہ عنھم الرجس وطھرھم تطھیرا واٴنا من اٴھل البیت الذی  افترض اللہ مودتھم علیٰ کل مسلم فقال تبارک وتعالی لنبیہ صلی اللہ علیہ ( وآلہ وسلم ) :  قل لا اٴساٴلکم علیہ اجراً  الا المودة في القربیٰ۔


میں ان اھلبیت کے ساتھ تعلق رکھتا ھوں جن کے ہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام آتے اور ھمارے ہاں سے آسمان کی طرف جاتے ھیں،میں ان اھلبیت سے ھوں جن سے اللہ تعالی نے رجس کو دور رکھا ھے اور انھیں ایسا پاک و پاکیزہ رکھا جیسا پاک رکھنے کا حق ھے، میں ان اھلبیت کی فرد ھوں جن کی محبت کو اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں پر واجب اور ضروری قرار دی۔


 اور اللہ تبارک تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ارشاد فرمایا:


ان لوگوں سے کہہ دیں میں تم سے اپنے اھلبیت کی محبت کے علاوہ کوئی اجر رسالت نھیں مانگتا۔ بھرحال جو شخص نیکی کو پہچان لیتا ھے اس کی نیکیوں میں اضافہ کردیاجا تا ھے اور نیکیوں کی پہچان ھم اھلبیت کی محبت ھے ۔[70]


یہاں تک تو ھم نے یہ بیان کیا ھے کہ آیت مودۃ حضرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابت داروں کی شان میں نازل ھوئی البتہ وہ روایات جو بتاتی ھیں فقط حضرت علی علیہ السلام ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام ھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابت دار ھیں۔ ان روایات کی تعداد بھت زیادہ ھے اور وہ سب روایات مندرجہ بالا مطلب کی حکایت کرتی ھیں۔


 جناب زمخشری صاحب اپنی کتاب کشاف میں آیت مودۃ کی تفسیر بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں:


 جب آیت مودۃ نازل ھوئی تو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کے قرابت دار کون ھیںجن کی محبت ھم پر واجب کی گئی ھے۔


تب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:


 وہ علی (علیہ السلام) ،فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور ان کے دو بیٹے ھیں۔


 تفسیر کبیر میں فخر رازی آیت مودہ کی تفسیر بیان کرتے ھوئے صاحب کشاف کی روایت نقل کرنے کے بعدکھتے ھیں:


 فثبت اٴن ھؤلاء الاربعہ اٴقارب النبي صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم۔


 پس ثابت ھو گیا کہ یھی چار ھستیاں ھی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابت دار ھیں۔


اس کے بعدمزید کھتے ھیں:


 جب یہ بات ثابت ھوگئی تو ھم پر واجب ھے کہ ھم مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر دوسروں کی نسبت ان کی زیادہ عزت اور تعظیم کریں۔


۱۔بے شک اھلبیت علیھم السلام وہ ھستیاں ھیں کہ جن کی طرف تمام امور کی بازگشت ھوتی ھے اور ھروہ شخص جس کی بازگشت ان (اھل بیت ) کی طرف ھو وھی محبت کا حقدار ھے۔


اور اس میں بھی کسی قسم کا شک و شبہ نھیں ھے کہ حضرت فاطمہ(ع) ‘حضرت علی(ع) حضرت امام حسن(ع) اور حضرت امام حسین(ع) کا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ گھراتعلق ھے اور یہ مطلب تواتر کے ساتھ روایات میں موجود ھے ۔


۲۔ یہ بات بلاشک و تردید ھے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاسے بھت محبت کرتے تھے اورحضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکے متعلق فرمایا:



فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ھے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے ایذیت پھنچائی۔


 یہ بات بھی مواتر روایات سے ثابت ھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم،حضرت علی علیہ السلام، حضرت حسن علیہ السلام اورحضرت حسین علیہ السلام سے بھت زیادہ محبت کرتے تھے، جب یہ سب کچھ روز روشن کی طرح واضح ھے تو امت پر( اللہ تعالی کے درجہ ذیل فرامےن کی روشنی میں)اھلبیت کی اطاعت اور محبت ضروری ھے ۔


۱۔< وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون۔>[71]


ان کی اتباع کرو تا کہ تم ھدایت پا جاؤ ۔


۲۔< فَلْیَحْذَرْ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ اٴَمْرِہِ ۔۔۔>[72]


پس ان لوگوں سے ڈرو(بچو)جو امر خدا کی مخالفت کرتے ھیں ۔


۳۔< قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اللهُ ۔۔۔>[73]


اے رسول ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ھو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا ۔


۴۔<لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللهِ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔۔۔>[74]


بے شک تمہارے لیئے رسول اللہ کی زندگی بھترین نمونہ ھے ۔


      ۳۔ آل کے لئے دعا ایک بھت بڑا منصب ھے اسی وجہ سے اس کو تشھد کی صورت میں نماز کے اختتام پر واجب قرار دیا گیا ھے اور اس کی صورت اللھم صلی علی محمد و آلہ محمد ھے۔


 یہ تعظیم آل کے علاوہ کسی اور کے حق میں بیان نھیں ھوئی ھے،ان سب مطالب کی اس بات پر دلالت ھے کہ حضرت محمد(ص) و آل محمد(ص) کی محبت ھم سب پر واجب ھے۔[75]


تفسیر المیزان میں جناب ابن عباس سے روایت موجود ھے کہ جب یہ آیت” قل لا اٴساٴ لکم علیہ اجراً الاّ المودة في القربیٰ ۔۔“نازل ھوئی تو لوگوں نے پوچھا :


یا رسول اللہ آپ کے قرابت دار کون ھیں جن کی محبت واجب قرار دی گئی ھے۔


 آپ(ص) نے فرمایا ان سے مراد علی (ع)۔فاطمہ(ع)۔اور ان کی اولاد( علیھم السلام) ھیں۔صاحب تفسیر میزان کھتے ھیں کہ طبرسی نے مجمع البیان میں وولداھاکی جگہ و” ولدھا“  کا لفظ استعمال کیا ھے ۔[76]


[1] صحیح ترمذی  ج ۲ ص۳۰۱،اسی طرح حاکم نے بھی مستدرک ج۳ ص ۱۳۶پر اس مطلب کو ذکر کیا ھے اور ان کے علاوہ  دوسرے لوگوں نے بھی یھی مطلب بیان کیا ھے۔


[2] المستدرک  ج ۳ ص ۱۳۶۔


[3] حاکم کھتے ھیں کہ شیخین کی شرط پر یہ حدیث صحیح ھے۔مستدرک الصحیحین ج۳ ص۴۹۹


[4] ابن حجر ، الاصابہ فی تمیز الصحا بہ  ج ۸، قسم اول، ص ۱۸۳


[5] کنز العمال  ج ۶ ص۳۹۵ ۔         


[6] کنز العمال۶ ص ۱۵۶ ۔


[7] کشف الغمہ ج ۱ ص ۷۹۔         


[8] کشف الغمہ ج ۱ ص ۸۳۔


[9] مناقب خوارزمی ص ۵۶۔         


[10] شرح نھج البلاغہ  ج ۴  ص ۱۲۲۔


[11] کشف الغمہ  ج۱ ص ۸۵۔


[12] تاریخ طبری  ج ۲ ص ۵۶۔                    


[13] ارشاد ج۱ ص۳۲۔


[14] ابن حجرا لاصابہ  ج ۷ حصہ اول ص۱۶۷۔


[15] سورہ مائدہ آیت ۵۵۔


[16] الکشاف  ج۱ ص ۶۴۹۔


[17] سورہ ھود آیت ۱۷۔


[18] سیوطی نے در منثور میں اس آیت کے ذیل میں اس مطلب کو بےان کےا ھے۔


[19] سورہ سجدہ :آیت۱۸۔


[20] واحدی اسباب نزول ص۲۶۳۔


[21] سورہ تحرےم:آیت۴۔ 


[22] ابن حجر العسقلانی  فتح  الباری ،ج ۱۳ ص ۲۷۔ 


[23] سورہ حاقة آیت ۱۲۔


[24] تفسیر ابن جریر الطبری ج ۲۹ ص ۳۵۔


[25] سورہ رعد آیت  ۷۔    


[26] کنز العمال ج ۶ ص۱۵۷۔


[27] سورہ بقرہ آیت ۲۷۴۔   


[28] اس روایت کو اسد الغابہ میں ابن اثیر جزری نے ج ۴ ص ۲۵، ذکر کےا ھے۔ اور اسی مطلب کو زمحشری نے تفسیرکشاف میں نقل کیا ھے ان کے علاوہ دوسری کتب میں بھی ےھی تفسیر مذکور ھے ۔


[29] سورہ مریم آیت ۹۶۔


[30] ریاض النضرہ  ج ۲ ص ۲۰۷،الصواعق ابن حجر ص۱۰۲، نور الابصار شبلنجی ص ۱۰۱۔


[31] سورہ البینہ آیت ۷


[32] صواعق محرقہ  ابن حجر ص ۹۶،نور الابصار شبلنجی ص ۷۰ اور ص ۱۰۱ ۔


[33] سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔


[34] سورہ توبہ آیت ۱۱۹۔


[35] سوره توبه آیت 19.


[36] سیوطی در منثور در ذیل آیت۔


[37] سورہ توبہ آیت ۲۰تا ۲۱۔، تفسیر ابن جریر طبری  ج ۱۰ ص ۶۸۔


[38] سورہ صافات آیت۲۴۔


[39] الصواعق محرقہ ابن حجر ص ۷۹ ۔        


[40] فخر رازی نے تفسیر کبیر میں سورہ مائدہ کی اس آیت کے ذیل میں یہ تفسیر بیان کی ھے ۔


[41] سورہ مائدہ آیت ۵۴۔


[42] سورہ نحل آیت۴۳۔


[43] تفسیر ابن جریرطبری ج ۱۷ ص۵۔


[44] سورہ زمر: ۲۲۔


[45] ریاض النضرہ ‘محب طبری  ج ۲ ص  ۲۰۷۔


[46] سورہ احزاب :۲۳۔     


[47] صواعق محرقہ ابن حجر ص ۸۰۔          


[48] سورہ زمر :۳۳۔


[49] سیوطی در منثور ذیل تفسیر آیہ  ۔


[50] سورہ رحمن: ۱۹تا ۲۲ ۔


[51] سیوطی در منثور  ۔


[52] سورہ جاثیہ : ۲۱۔


[53] تفسیر کبیر ،فخر الدین رازی ذیل تفسیر آیہ۔


[54] سورہ فرقان: ۵۴۔


[55] نور الابصار شبلنجی ص۱۰۲۔


[56] سورہ عصر۔


[57] درمنثور تفسیر سورہ عصر۔    


[58] سورہ اعراف :۴۶ ۔


[59]صواعق محرقہ ابن حجرص ۱۰۱۔


[60] تا ریخ بغداد‘ خطیب بغدادی  ج۶ ص ۲۲۱۔


[61] صواعق محرقہ ص ۷۶ ،نور الابصار ص ۷۳۔


[62] سورہ احزاب  آیت ۳۳ ۔


[63] صحیح ترمذی  ج ۲ ص۳۱۹۔


[64]سورہ آل عمران آیت ۶۱۔


[65] صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ با ب فضایل علی ابن ابی طالب (ع)۔


[66] سورہ دھر آیت :۸  و:۹۔


[67] اسد الغابہ ابن جزری ۔ج۵  ص۵۳۰۔


[68] سورہ شوری آیت ۲۳۔


[69]حلیة الاولیاء  ج ۳ ص ۲۰۱۔


[70] مستدرک صحیحین ج ۳ص ۱۷۲۔


[71]سورہ اعراف آیت ۱۵۸۔


[72] سورہ نور آیت ۶۳۔


[73] سورہ آل عمران آیت ۳۱۔


[74] سورہ احزاب آیت ۲۱۔


[75] فخر رازی تفسیر کبیر ذیل آیت مودة ۔


[76]المیزان فی تفسیر القرآن  ج ۸ ص ۵۲۔







اب دیکھتے ہیں کہ قرآن الحکیم سے قبل الہامی کتابوں میں خالق لم یزل نے محبت علی ؑ کے متعلق کیا کہا ۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان نوری افراد کو خلقت ِ بشر سے پہلے خلق کیا اس لیے ان سے محبت و مودت کا انتظام میں شروع سے ہی کر دیا۔

مثلاً انجیل میں”صحیفہ غزل الغزلات“ اشاعت ِ لندن،سال1800عیسوی،باب5،آیت1 تا10میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ارشادات بیان کئے گئے ہیں جس میں انہوں نے پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کے نائب امیرالموٴمنین علی علیہ السلام کے بارے میں اشارہ کیا ہے اور آخر میں واضح کہتے ہیں کہ وہ ”خلومحمد یم“(وہ دوست اور محبوبِ محمد ﷺہیں)۔

  In the language of oldest and present Habrew the word ALLIA"or "AILEE"is not in the meanings of God or Allah but this word is showing that in text and last time of this world anyone will become nominates "ALLIA"or AILEE

 ”زبانِ عبرانی جدید یا قدیم میں لفظ”ایلیا“ یا”ایلی“ سے مراد اللہ نہیں ہے بلکہ اس لفظ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آئندہ زمانے میں یا آخری زمانہ میں کوئی شخص آئے گا جس کا نام ”ایلیا“ یا ”ایلی“ ہوگا“۔

 حوالہ

 1. "A notebook on old and new testaments of Bible"published in London in 1908, Vol.1, page 428."

یعنی واضح ہوا کہ انجیل مقدس میں اسماء”ایلیا“ یا ”ایلی“ یا ”آلیا“ سے مرادمولا علی علیہ السلام ہیں۔اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کا مقدس نام زبور ہے کہ  (مطعنی شل قثوتینمر قث پاھینوا نی وز”ایلی“ متازہ امطع ملغ شلو شمائت پزانان ہمنیقتہ خلذ وقث فل”حدار“کمرتوہ شیھوپلت انی قاہ بوتاہ خزیماہ رث جین”کعاباہ“ بنہ اشود کلیامہ کاذوقثوتی قتمرعندوبریما برینم فل خلذملغ خایوشنی پم مغلینم عت جنحاریون)۔

 ”تم پر اُس شخصیت جس کا نام ”ایلی“ ہے، کی اطاعت واجب ہے اور دین و دنیاکے ہر کام میں اُس کی فرمانبرداری تمہاری اصلاح کرے گی۔ اُس عظیم شخصیت کو ”حدار“(حیدر) کہتے ہیں۔ وہ بیکسوں اور ضعیفوں کا مددگار ہوگا اور وہ شیروں کا شیرہوگا اور بے پناہ طاقت کا مالک ہوگا۔وہ کعابا(کعبہ) میں پیدا ہوگا۔ تمام پر واجب ہے کہ اُس کے دامن کو پکڑیں اور غلام کی طرح اُس کی اطاعت کیلئے ہمیشہ حاضر رہیں۔ جو سن سکتا ہے اُس کی ہر بات کو غور سے سنے اور جو عقل و فہم رکھتا ہے، اُس کی باتوں کو سمجھے۔ جو دل و مغز رکھتا ہے، وہ غوروفکر کرے کیونکہ جو وقت گزرجاتا ہے، واپس نہیں آتا“۔

 ”پہلی جنگ ِعظیم(1916ء میلادی عیسوی) میں جب انگریزوں کا ایک دستہ بیت المقدس سے چند کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے گاؤں اونترہ کے پاس مورچہ بندی کیلئے کھدائی کررہا تھا تو وہاں اُن کو ایک چاندی کی تختی ملی جس کے چاروں طرف خوبصورت قیمتی موتی جڑے ہوئے تھے اور اُس کے اوپر سونے کے پانی سے کچھ لکھا ہوا تھا جو کسی قدیم زبان میں تھا ۔وہ اُسے اپنے انچارج میجر ای۔این۔گرینڈل(Maj. E.N.Grandal) کے پاس لے آئے۔ وہ بھی اس کو نہ سمجھ سکا اور بالآخر اسے اپنے کمانڈر انچیف جنرل گلیڈ سٹون تک پہنچا دیا۔ وہ بھی اس کو نہ سمجھ سکا اور اُس نے اسے آثارِ قدیمہ کے ماہرین تک پہنچادیا۔1918ء میں جنگ بند ہوئی تو ایک کمیٹی بنادی گئی جس کے ممبران امریکہ، برطانیہ،فرانس،جرمنی اور دیگر ممالک کے ماہرین تھے۔ چند ماہ کی کوشش اور تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ تختی اصل میں”لوحِ سلیمانی“ ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے چند کلمات بھی اُس پر لکھے ہوئے ہیں۔ اس تختی پر عبرانی زبان میں لکھا ہوا ہے۔(ترجمہ)

 اللہ، احمد، ایلی، باھتول، حاسن، حاسین۔ ”اے احمد میری فریاد سن لیں۔ یا ایلی (علی) میری مدد فرمائیے۔ اے باھتول (بتول ) مجھ پر نظر کرم فرمائیے۔ اے حاسن (حسن) مجھ پر کرم فرمائیے۔ اے حاسین (حسین) مجھے خوشی بخشئے۔ جناب سلیمان ؑ نے یوں پنج تن پاک سے مدد طلب کی۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ علیؑ قدرت اللہ ہے“۔ مزید معلومات کیلئے کتابWonderful Stories of Islamاشاعت ِلندن،صفحہ249ملاحظہ فرمائیں۔ 

اس طرح جناب نوح ؑ کا مولائےکائنات حضرت علی ؑ سے تمسک اور محبت کے باب میں حکیم سید محمود سیالکوٹی لکھتے ہیں :۔

 ”جنوری1951ء میں روسی محکمہ معدنیات کے چند کارکن زمین کھودنے میں مشغول تھے کہ اچانک لکڑی کے چند تختے اُن کو نظر آئے جو عام لکڑی کے تختوں سے مختلف تھے اور کسی چھپے راز کی نشاندہی کرتے تھے۔انہی لکڑی کے تختوں میں ایک ایسی لکڑی کی تختی ملی جس کی لمبائی چودہ انچ اور چوڑائی تقریباً دس انچ تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ باقی تختے وقت گزرنے کے ساتھ کہنہ اور بوسیدہ ہوچکے تھے لیکن یہ تختہ ابھی بالکل اپنی صحیح حالت میں تھا۔ اس پر چند قدیم الفاظ درج تھے۔ روسی حکومت نے تحقیق کیلئے 27/فروری1953ء کو کمیٹی بنائی جس کے ممبران قدیم زبانوں کے ماہر تھے۔ آٹھ ماہ کی سخت محنت اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ جو الفاظ لکھے ہوئے ہیں، وہ مدد مانگنے اور سلامتی کی دعا کیلئے لکھے گئے ہیں۔ذیل میں اس کی تصویر دی جارہی ہے: تحقیقی کمیٹی نے اُن الفاظ کا ترجمہ روسی زبان میں کیا جس کا ترجمہ لسانیات کے ماہرمسٹر این۔ایف۔ماکس( N. F. Maks)نے انگریزی زبان میں کیا جو ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

O"my God! my Helper! Keep my hand with mercy andwith your holy bodies, Mohammad, Alia, Shabbar, Shabbir, Fatema. They all are biggests and honourables. The world established for them. Help me by their names. You can reform to right.

 ترجمہ: ”اے میرے اللہ! اے میرے مددگار! ذواتِ مقدسہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایلیا ،شبر ،شبیر اور فاطمہ علیہم السلام کے صدقہ میں مجھ پر اپنا رحم و کرم فرما۔ یہ پنجتن سب سے بڑے اور سب سے زیادہ عزت والے ہیں۔ یہ تمام دنیا اُن کیلئے بنائی گئی۔ اے میرے پروردگار! اُن کے ناموں کا واسطہ! میری مدد فرما۔ تو ہی صحیح راستے کی ہدایت کرنے والاہے“۔

اس طرح جنابِ موسیٰ ؑ کے ضمن میں روایت ہے کہ ”ابن بابویہ ،معتبرسندکے ساتھ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی عالم حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ مسائل پوچھے اور یہ بھی پوچھا کہ آپ کے پیغمبر کا وصی اُن کی زندگی کے بعد اس دنیا میں کتنا عرصہ زندہ رہے گا؟ حضرت نے فرمایا کہ تیس سال۔ اُس یہودی نے پھر سوال کیا کہ بتائیں کہ وہ طبعی موت مرے گا یا قتل کردیاجائے گا؟حضرت نے جواب دیا کہ وہ قتل کردیا جائے گا۔ اُس کے سر پر ضربت لگائی جائے گی۔ اُس یہودی نے کہا:خدا کی قسم! آپ نے سچ کہا۔ میں نے اُس کتاب میں جو حضرت موسیٰ نے تحریر فرمائی ہے اور حضرتِ ہارون نے لکھی ہے، اسی طرح ہی پڑھا ہے“۔

حضرت ابراہیم ؑ اور محبت علی ؑ کے متعلق دیکھیے جناب جابر ابن عبداللہ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کوملکوت دکھائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرش کے پاس ایک نور دیکھا تو پوچھا کہ پروردگار! یہ نور کونسا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نورِ محمد ہے جو میری مخلوق میں سب سے زیادہ عزت و بزرگی والا ہے، اس نور کے ساتھ ایک دوسرے نور کو بھی دیکھا۔ اُس کے بارے میں بھی حضرتِ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا۔ کہا گیا کہ یہ نور علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ہے جو میرے دین کا مدد کرنے والا ہے۔ ان دو نوروں کے ساتھ تین نور اور دیکھے اور اُن کے بارے میں پوچھا۔ کہا گیا کہ یہ نورِ فاطمہ ہے جو اپنے حُب داروں کو آتش جہنم سے بچائے گا اور دوسرے دو نور اِس کے بیٹے حسن اور حسین کے ہیں ۔ پھر فرمایا:اے میرے پروردگار!میں کچھ اور نور بھی اس نور کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔ کہا گیا کہ یہ اماموں کے نور ہیں جو نسلِ علی و فاطمہ علیہم السلام سے ہوں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی پروردگار!تجھے پنجتن پاک کا واسطہ!مجھے ان کا تعارف کروا۔کہا گیا کہ ان میں پہلا علی ابن الحسین اور پھر اُن کے بیٹے محمد اور اُن کے بیٹے جعفر اور اُن کے بیٹے موسیٰ اور اُن کے بیٹے علی اور اُن کے بیٹے محمد اور اُن کے بیٹے علی اور اُن کے بیٹے حسن اور اُن کے بیٹے حجت ِ قائم ہیں“۔


 حوالہ کتاب زندگانی فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا،مصنف:آیت اللہ شہید دستغیب،صفحہ 127،

یا د رہے کہ حضرت ابراہیم بھی شیعانِ علی سے ہیں۔ کیونکہ جب انہوں نے انوارِ شیعانِ اہلِ بیت کو دیکھاجو آفتابِ ولایت کے گرد ستاروں کی طرح چمک رہے تھے،خدا سے التجا کی کہ اُسے بھی شیعانِ علی میں سے قرار دے ۔ چنانچہ تفسیر سورئہ الصٰفّٰت:آیت83میں:

 ”وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہ لَاِبْرَاھِیْمَ“ ”اور بے شک اُن کے شیعوں میں سے ابراہیم ہیں“۔ ( آیت اللہ دستغیب، کتاب زندگانی فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا، صفحہ126۔)

حضرتِ خضرؑ کی حضرتِ علی سے محبت کے حوالے سے اعمش روایات اور احادیث کے معتبر راوی ہیں اور شیعہ سنی دونوں اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک اندھی عورت تھی۔ اُس کاکام یہ تھا کہ لوگوں کو پانی پلاتی تھی اور کہتی تھی کہ علی علیہ السلام کی دوستی کے صلہ میں پانی پیو۔ اُسی کومکہ میں بھی دیکھا،اس حال میں کہ اُس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان سے دیکھ سکتی تھی اور پانی پلاتی تھی اور یہ کہتی تھی کہ لوگو! پانی پیو اُس کی دوستی کے صدقہ میں کہ جس نے میری بینائی لوٹا دی۔ اعمش کہتے ہیں کہ میں نے اُس سے اُس کا حال پوچھاتو اُس نے جواب دیا کہ ایک شخص میرے پاس آیااور کہنے لگا کہ تو ہی وہ عورت ہے جو علی علیہ السلام کی حب دار ہے؟ میں نے کہا:ہاں۔ اُس نے کہا:

 ”اَلّٰلھُمَّ اِنْ کَانَتْ صَادِقَةً فَرُدَّ عَلَیْھَا بَصَرَھَا“  ”خدایا! اگر یہ کنیز اپنے دعوے میں سچی ہے تو اس کی بینائی اس کو واپس لوٹا دے“۔

 خدا کی قسم! اُس حال میں میری بینائی لوٹ آئی۔ میں نے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ میں خضر ہوں اور میں شیعہٴ علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہوں۔

 حوالہ جات:

 1۔ سید ابوتراب صنائی، کتاب قصہ ہای قرآن ، باب شرح زندگی حضرتِ خضر ،صفحہ120

 2۔ زندگانی فاطمہ الزہرا،شہید آیت اللہ دستغیب،صفحہ162جنہوں نے سفیہ البحار جلد

قارئین کرام ! جونہی دنیا میں نسلِ آدم ؑ شروع ہو گئی ۔چونکہ شیطان بھی آچکا تھا اُس نے بھی اپنا جال بچھا نا شروع کر دیا اور ابتدا میں ہی جبکہ اس پوری زمین پر جناب آدم ؑ کےپہلے دو بیٹوں کے درمیان نفرت و حسد کی آگ بھڑکاکر ایک کو دوسرے سے قتل کر وا دیا ۔سلسلہ انسانیت چلتا رہا۔نسل آدم بڑھتی رہی ۔ہر نبی اپنے بیٹے خلف الرشید کو اللہ واحدانیت ،محمد ﷺکی نبوت اور مولائے کائنات علی ؑ کی امامت پر اقرار لیتا رہا اور جب بھی کبھی کوئی مشکل پیش آئی تو حضرت علی ؑ نے بحکم خدا مشکل کشائی کی ۔جیسا کہ جب جناب نوحؑ کی کشتی طوفان میں شدید ہچکولے کھانے لگی تو پھر انہوں نے بھی پنجتن پاک سے توسل کیا اور مولائے متقیان ؑ نے ان کے بیڑے کو نجات دی۔ اسی طرح جناب ابراہیم ؑ کو جب نارِ نمرود میں ڈالا گیا تو جناب امیر ؑ نے آگ کو گلزار بنا دیا ۔جناب ابراہیم ؑ جد الانبیاء اور الو العزم نبی ہیں اور شجرۃ الانبیاء بھی آپ ؑ کو کہاجاتا ہے۔ آپ ؑ ہی جناب رسولِ خدا کے جدِ امجد ہونے کا شرف بھی رکھتے ہیں کیونکہ رسولِ خدا ﷺ کے آبائو اجداد دینِ ابراہیمی کے پیروکار تھے اور مسلمانوں کو ملتِ ابراہیمی بھی کہاجاتا ہے ۔ اللہ نے جناب ابراہیم ؑ کو ملکوت کی سیر کرائی اور اپنے عجائباتِ قدرت دکھائے پوری کائنات کو انہوں نے دیکھا ۔تو جناب ابراہیم ؑ نے بھی دعا کی کہ اللہ مجھے بھی امام بنا دے حالانکہ وہ نبی اور رسول پہلے سے تھے گویا وہ سمجھتے تھے کہ امام کی قدر و منزلت رسول و نبی سے زیادہ ہوتی ہے تو آوازِ قدرت ہے ضرور پھر جناب ابراہیم ؑ نے فرمایا اور یہ سلسلہ امامت میری نسل میں بھی باقی رہے تو آوازِ توحید آئی یہ منصب ظالموں کو ملنے والا نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ سے اللہ نے کلام کیا اور جب جناب موسیٰ ؑ نے کہا کہ میرے کچھ امتی آپ(اللہ) کا دیدار کرنا چاہتے ہیں تو اللہ نے فرمایا کہ موسیٰ ؑ انہیں کہوں کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے مگر جب انہوں نے اصرار کیا تو ایک بجلی گری اور وہ سب کے سب خاکستر ہو گئے کافی دیر بعد جناب موسیٰ کو ہوش آیا کہاجاتا ہے کہ وہ بجلی نورِ علی ؑ تھا اور وہ کلام بھی جناب علی ؑ کرتے تھے۔ دریائے نیل سے موسیٰ کو جناب علی ؑ نے پار کرایا۔ 

اسی طرح جناب عیسیٰ کو صلیب سے مولائے کائنات علی ؑ نے نجات دلائی ۔

رسول خدا ﷺ نے جب اعلانِ نبوت کیا تو سب سے پہلے دعوتِ ذولعشیرہ کے موقع پر ناصر الانبیا ؑحضرت علی ؑ نے ہی آپ ﷺ کی مدد و نصرت کرنے کا وعدہ کیا اور آپ نے اُسی وقت فرما یا کہ دیکھو آج سے یہ میرا جانشین اور خلیفہ و مددگار ہے۔ 

نبی اعظم ،رسول معظم سیدِ الثقلین جد الحسین والحسینؑ ختمی مرتبت جناب رسالت مآب ﷺ نے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب ؑ کے متعلق جو احادیث صفات الہی کی تجلی علی علیہ السلام  میں قرار دیتی ہیںوہ درج ذیل ہیں۔

علی ؑ نور الہی:

حضرت علی ؑ کے نور الہی ہونے کے متعلق سرور کائنات سے ابن عباسؓ یوں حدیث نقل کرتے ہیں : (( سمعت رسول الله(ص) یقول لعلی ؑ خلقت انا و انت من نور الله تعالی ))  ترجمہ:میں (ابن عباس) نے رسول خدا ﷺ کو علی ؑ سے فرماتے ہوئے سنا:میں اور تم(علیؑ) خداوند متعال کے نور سے  پیدا ہوئے ہیں۔اس حدیث کے مطابق رسول رحمت ﷺاور امیر المؤمنینؑ دونوں نور الہی سے وجود میں آئے ہیں؛ لہذا یہ عظیم ہستیاں عالم تشریع میں ساتھ ہونے کے علاوہ عالم تکوین وخلقت میں بھی ہم قرین ہیں۔

علی ؑ انتخاب الہی:

رسول گرامی اسلامﷺ اپنی  پیاری بیٹی سے حضرت علی ؑ کے عظمت کے متعلق یوں فرماتے ہیں:


 یا فاطمه اما ترضین ان الله عزوجل اطلع الی اهل الارض فاختار رجلین: احدهما ابو ک والآخر بعلک  ترجمہ:اے فاطمہؑکیا آپؑ راضی نہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے زمین والوں کی طرف توجہ کی اور دومردوں کو انتخاب کیا جن میں سے ایک آپ علیہ السلام کے بابا(رسول اللہﷺ) اور دوسرے آپ ؑکے شوہر علی ؑ ہیں!یعنی خداوند  متعال نے انسانوں میں سے ان دو ہستیوں کو چنا اور ایک کو سرکار انبیاءﷺ اور دوسرے کو سید الاوصیاءؑ قرار دیا۔

علی ؑ محبوب الہی:

حضرت علی علیہ السلام کے محبوب الہی ہونے کے متعلق،احادیث کی کتابوں میں رسول اعظم ﷺ سے مختلف احادیث منقول ہیں جن میں سے (الطائر المشوی) بھنی ہو ئی مرغی زیادہ مشہور اور تواتر سے مختلف صحابہ اور تابعین سے نقل ہوئی ہے اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے: ایک بار رسول گرامی اسلام ﷺ کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی مرغی ہدیہ کے طور پر لائی گئی اور وہ مرغی رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھی گئی حضرت ﷺنے خداوند  متعال سے یوں دعا فرمائی :  اللهم ائتنی بأحب خلقک الیک یاکل معی  ترجمہ: خدایا میرے پاس اپنے محبوب ترین شخص کو بھیج دے تاکہ میرے ساتھ یہ کھانا کھائے۔ علی علیہ السلام آئے اور دروازے پر دستک دی  ۔ رسول کے خادم  انس نے پوچھا کون ہے؟ اورجواب میں کہا کہ رسول خدا ﷺ مشغول ہیں حضرت علی ؑ چلے گئے اور پھر دوبارہ تشریف لائے اور دروازے پر دستک دی انس نے پھر پوچھا اور جواب میں کہا رسول اللہ ﷺ مصروف ہیں اور حضرت علی علیہ السلام چلے گئے رسول رحمت ﷺ اپنی دعا تکرار کرتے رہے تھوڑی دیر بعد علی علیہ السلام پھر آئے اور دروازے پر دستک دینے کے ساتھ اونچی آواز میں سلام کیا،رسول ﷺنے سننے کے بعد فرمایا: اے انس دورازہ کھول دو ؛ انس نے دروازہ کھولا اور علی علیہ السلام رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول ﷺ نے فرمایا: اے خدایا میں نے تجھ سے مانگا تھا کہ اپنے محبوب ترین فرد کو بھیج دے جو میرے ساتھ مرغی کھائے ؛ تو نے علی ؑ کو بھیجا اے اللہ علی مجھ محمدﷺ کو بھی ساری مخلوق میں زیادہ محبوب ہیں۔  اس حدیث کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ساری مخلوقات میں نہ صرف خداوند متعال بلکہ رسول خدا ﷺ کی بھی محبوب ترین ہستی ہیں۔

علی علیہ السلام خدا کی مضبوط رسی:

نبی مکرم اسلام ﷺ سے منقول ہے کہ میرے بعد جب فتنے کی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی تو وہ نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا اور مضبوط رسی سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ حدیث کی تفصیل یوں ہے:  روی عن رسول الله انه قال ستکون بعدی فتنه مظلمة ،الناجی منها، من تمسّک بعروة الله الوثقی فقیل: یارسول الله وماالعروة الوثقی؟ قالﷺ : ولایة سیّد الوصیّین قیل :یا رسول الله ومن سیّد الوصیین؟ قال امیر المومنین قیل: ومن امیر المومنین؟ قال مولی المسلمین وامامهم بعدی قیل؟ ومن مولی المسلمین؟ قال اخی علی  بن ابی طالب۔ ترجمہ: رسول اللہﷺ سے منقول ہے :عنقریب میرے بعد شدید فتنہ بپا ہو گا ۔ اس فتنے سے وہی نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا ،پوچھا گیا :مضبوط رسی سے کیا مراد ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا ۔مضبوط رسی سےمراد سید الوصیین کی ولایت مراد ہے ۔دوبارہ سوال کیا گیا کہ سید الوصیین کون ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: جو امیر المومنین ہے وہی سید الوصیین ہے ۔پھر پوچھا گیا امیر المومنین کون ہے؟ حضرت نے فرمایا: مسلمانوں کا مولا اور میرے بعد ان کا امام ۔ سوال ہوا مسلمانوں کا مولاکون ہے؟ رسولﷺ نے فرمایا میرے بھائی علی ابن ابی طالبؑ مسلمانوں کے امام اور مولا ہیں۔

علیؑ تلوار الہی:

حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت اور بہادری کے واقعات  سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے اور حضرتؑ کے میدان جنگ کے کارناموں کو بیان کئے بغیر تاریخ اسلام ادھوری ہے جیسے کہ درج ذیل حدیث میں پیغمبر اکرمﷺ فرماتے ہیں:  عن انس بن مالک قال: صعد رسول الله المنبر فحمد الله واثنی علیه الی ان قال :این علی ابن ابی طالب، فقام علی و قال:انا ذا یارسول الله فقال النبی(ص) ادن منی فدنا منه فضمّه الیّ صدره وقبّل ما بین عینیه وقال بأعلی صوته" یامعاشر المسلمین هذا علی بن ابی طالب۔۔۔۔هذا اسد الله فی ارضه وسیفه علی اعدائه۔۔۔۔ ترجمہ: انس بن مالک سے منقول ہے رسول اللہﷺ منبر پہ تشریف لے گئے اور حمد و ثنا الہی کے بعد فرمایا علی ؑ کہاں ہے؟علی ؑ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے رسول ﷺمیں حاضر ہوں ۔ رسول ﷺ نے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ علی علیہ السلام رسول کے قریب ہوئے اور رسول ﷺنے علیؑ کو اپنے سینے سے لگایا اور علی ؑ کی دونوں آنکھوں کے درمیان چوما اور فرمایا اے لوگوں! یہ علی ابن ابی طالبؑ ہے اور خدا کی زمین پر خدا کا شیر ہے اور خدا کے دشمنوں کے مقابلے میں خدا کی تلوار ہے۔  اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اعظم (ص) نے غدیر کی طرح متعدد مواقع پر  حضرت علی علیہ السلام کی فضلیت کا لوگوں میں اعلان فرمایا ؛  تاکہ آپ ؑ کی ولایت اور شان و منزلت اور محبت کے سلسلے میں امت پر اتمام حجت ہو اور مولا کی عظمت کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

علیؑ رسول اعظمﷺ کا جلوہ :

رسول رحمت ﷺنے اپنے عہد رسالت میں متعدد مواقع پر حضرت علی ؑ کا اپنا ولی ،وصی ،دوست ،امین ،ہم نشین ،راز دار اور علمبردار کے طور پر تعارف کروایا ہے۔

حضرت علیؑ ختم مرتب کے پہلا ساتھی:

رسول اللہ ﷺ حضرت علی ؑ کی شان میں یوں فرماتے ہیں:

یا علی انت اول من أمن بی و صدقنی و انت اول من اعاننی علی امری و جاهد معی عدوی و انت اول من صلی معی و الناس یومئذ فی غفله الجهالة  ترجمہ: اے علیؑ تم سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی اور تم ہی نے سب سے پہلے امر رسالت میں میری مدد کی اور میرے دشمنوں کے ساتھ جہاد کیا اور تم ہی نے سب سے پہلے میرے ساتھ نماز اداء کی جبکہ لوگ اس وقت جہالت کی غفلت میں تھے۔ اس حدیث کے مطابق، اسلام کے سارے امو ر میں علی ؑ رسول رحمت ﷺ کے پہلے یار و ناصر تھے۔ اور اسلام کے سارے امور میں علی ؑ کو دوسروں پر سبقت حاصل ہے ۔


 حضرت علی ؑ رسول ﷺ کے دوست:

ہر لمحہ اور ہر قدم پر رسول ﷺ کے شانہ بشانہ رہنے والے امیر المومنین ؑ کے متعلق سرور کونین ﷺ نے متعدد مقامات پر دوست اور ساتھی کے القابات بیان فرمائے ہیں جیسے کہ ذیل کے واقعہ میں عائشہ یوں کہتی ہیں: (( عن عائشة قالت: قال رسول الله وهو فی بیتها لمّا حضر الموت ادعوا لی حبیبی فدعوت له ابا بکر فنظر الیه ثم وضع راسه ثم قال : ادعوا  لی حبیبی فدعوا  له عمر! فلمّا نظر الیه وضع راسه ثم قال ادعوا  لی حبیبی فقلت ویلکم! ادعوا  له علی ابن ابی طالب فوالله مایرید غیره فلمّا راه  افرج التوب الذی علیه ثم ادخله فیه فلم یزل محتضنه حتی قبض صلی الله علیه وآله وسلم و یده علیه))


ترجمہ: عائشہ سے روایت ہے رسول خداﷺ نے فرمایا( جب احتضار کے وقت رسول خدا ﷺ عائشہ کے گھر میں تھے) میرے پاس میرے دوست کو بلاؤ۔ میں نے ابو بکر کو بلایا، حضور نے ابو بکرکو دیکھ کر دوبارہ سر رکھا اور پھر فرمایا میرے دوست کو میرے لئے بلاؤ عمر کو بلایا گیا۔ جب حضورﷺ نے عمر کو دیکھا تو دوبارہ سر رکھ کر فرمایا میرے دوست کو میرے لیے بلاؤ،پس میں نے کہا تم لوگوں پر وای ہو علی ؑ کو ان کے لئے بلاؤ  خدا کی قسم حضرتﷺ کی مرادعلیؑ کے سوا کوئی اور نہیں، جب حضور ﷺنے علی ؑ کو دیکھا تو اپنی چادر کو کھولا اور علی ؑ پیغمبر ﷺکی چادر میں داخل ہوئے اور ہم آغوش ہوئے یہاں تک کہ رسول خداﷺ کی روح عالم ملکوت کی جانب پرواز کرگئی  اور حضورﷺ  کا ہاتھ علی ؑ پر تھا۔

 اور اسی طرح سرور کائناتﷺ علی ؑ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:

(یا علی انت رفیقی فی الجنۃ) اے علیؑ تم جنت میں میرے ہم نشین ہو)۔ عائشہ کی اس حدیث کے مطابق، رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کی طرح آخری لمحات میں بھی سب پر واضح کردیا کہ آنحضرت ﷺ سب سے زیادہ حضرت علی ؑ سے ہی محبت کرتے تھے۔

علی ؑ نفس اور روح رسول ﷺ:

رسول رحمت ﷺ نےعلی علیہ السلام کو بعض روایات میں اپنی جان اورنفس قرار دیا ہے جیسے کہ اس حدیث میں پڑھتے ہیں:

 ( علی منی کنفسی  طاعته، طاعتی و معصیته معصیتی)  ترجمہ: علی ؑمیرےنفس کی مانند ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے۔

اسی طرح دوسری حدیث میں رسول رحمت ﷺ مولا علی ؑ کو اپنی  روح قرار دیتے ہیں:

(علی بن ابی طالب منی کروحی فی جسدی)  ترجمہ: علی ابن ابی طالبؑ میرے بدن میں۔ میرے روح کی مانند ہے۔ اسی طرح سرور کونینﷺ علی ؑ کو اپنے بدن کےسر کی مانند قرار دیتے ہیں۔

(علی منی بمنزلة  راس من جسدی)  (علیؑ کا مجھ سے واسطہ میرے سر کا جسم سے واسطے کی مانند ہے)۔ دو آخری حدیثوں کی روشنی میں یہ نتیجہ لینا بے جانہ ہو گا کہ جیسے روح اور سر کے بغیر جسم نا مکمل ہے اسی طرح سرور کائنات بھی علی ؑ کے بغیر اپنے آپ کو نا مکمل قرار دے رہے ہیں۔

علی ؑ رسول ﷺ کے امین اور راز دان:

رسول اکرم ﷺ کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے، اہل قریش آنحضرت ﷺکو امین کہتے تھے ۔ واقعاً جسے دشمن امین کہے وہ کرامت کے بلند مرتبے پر فائز ہوتاہے اسی طرح علی علیہ السلام کا مقام بھی اظہر من الشمس ہے کیونکہ رسول رحمت ﷺ دنیا والوں کے امین جبکہ علی ؑ ان کے  امین ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث میں رسول رحمت ﷺ کی زبانی پڑھتےہیں:

( قال فی علی قد علمته علمی واستودعه سری وهو امینی علی امتی)  ترجمہ:رسول خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: میں نے علیؑ کو اپنا علم دیا اور ان کے پاس اپنے راز امانت رکھے اور وہ امت پر میرے امین ہیں ۔

اسی سلسلے میں حضرت سلمان فارسیؓ سے یوں روایت نقل ہوئی ہے :

(روی عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله لکل نبی صاحب سرّ و صاحب سری علی بن ابی طالب)  ترجمہ: سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ سرور کائنات ﷺنے فرمایا : ہر نبی کا ایک راز دار ہوتا ہے اور میرا راز دار علی ابن ابی طالب ؑ ہیں۔ ان دو احادیث کی روشنی میں ہر صاحب خرد کے لیے واضح ہے کہ رسول  اکرم ﷺ کا  امین اور رازدار ہی رسول کے جانشین اور خلیفہ ہو سکتا ہے اورجب تک راز دار اور امین ہو تو کسی اور کی مسند رسول ﷺ سنبھالنے کے باری نہیں آتی ہے۔

رسول ﷺکے علم کے وارث:

رسول گرامی اسلام ﷺ نے مختلف احادیث میں حضرت علی ؑ کو اپنے علم کا وارث اور امت میں سب سے زیادہ علم رکھنےوالا قرار دیا ہے جیسا کہ رسول گرامی اسلام ﷺ فرماتے ہیں:

(( عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله:اعلم امتی من بعدی علی ابن ابی طالب))  ترجمہ:سلمان فارسیؓ سے منقول ہے ۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: امت میں میرے بعد سب سے زیادہ علم رکھنے والا علی ابن ابی طالب ؑ ہے۔ انبیاء کرام خدا وند متعال کی جانب سے علم کے خزانے ہوتے ہیں اورختمی مرتبت کے پا س تو سارے انبیاء کا علم موجود تھا۔ اس حدیث کےمطابق، رسول ﷺ کے بعد سب سے زیادہ علم حضرت علی ؑ کے پا س تھا لہذا علیؑ ہی رسول ﷺکے واقعی جانشین ہیں ۔

حضرت علی ؑ رسول ﷺ کے علمدار:

حضرت علی علیہ السلام کے دیگر امتیازات میں سے رسول ﷺ کا علمدار ہونا ہےجیسا کہ رسول گرامی اسلام ﷺ فرماتےہیں:

((یا ابا برزة: علی امینی غداً علی حوض وصاحب لوائی))  ترجمہ:اے ابا برزۃ علیؑ روز محشر حوض(کوثر)پر میرے امین اور میرے پرچم کے مالک ہوں گے۔ اس لواء سے مراد الحمد بھی ہو سکتا ہے اور میدان جنگ کے علم بھی ہو سکتا ہے ؛ کیونکہ علی علیہ السلام متعدد جنگوں میں اسلامی لشکر کے علم بردار تھے۔

حضرت علیؑ کے دیگر فضائل رسول ﷺ کی زبانی:

حضرت علی علیہ السلام کے بے شمار فضائل میں سے رسولﷺ کی زبانی درج ذیل فضائل قابل ذکر ہیں :

حضرت علی ؑ کو دیکھنا عبادت:

رسول گرامی اسلام ﷺ کی مشہور روایت ہے:((النظر الی علی عبادة) علیؑ کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔

ذکر علیؑ عبادت:

رسول رحمت ﷺ علی ؑ کے ذکر کے متعلق فرماتے ہیں: ((ذکر علی عبادة)   ( علی ؑ کا ذکر کرنا عبادت ہے) ۔ جبکہ دوسری حدیث میں رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اپنی مجالس کو ذکر علیؑ سےمزین کریں:  (عن جابر عبد الله الانصاری قال: قال رسول الله : زیّنو مجالسکم بذکر علی ابن ابی طالب))  ترجمہ: جابر بن عبد اللہ انصاری سےمنقول ہے  رسول خداﷺ نے فرمایا اپنی مجالس کو ذکر علی ابن ابی طالبؑ سے مزین کرو۔

علیؑ خیر البشر:

رسول گرامی اسلامﷺ متعدد روایات میں علیؑ کو خیر البشر قرار دیتے ہیں جیسا کہ ابن عباس سے منقول ہے:( عن ابن عباس قال: قال رسول الله : علی خیر البشر من شک فیه کفر)  ترجمہ: ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول خدا ﷺ نے فرمایا: علی ؑ خیر البشر ہیں جو اس میں شک کرے وہ کافر ہے۔

علیؑ ایمان اور نفاق کا معیار:

نبی مکرم اسلامﷺ حضرت علی علیہ السلام کے ایمان اور نفاق کے معیار ہونے  کے متعلق یوں فرماتے ہیں:

علی لا یحبه الا مؤمن ولا یبغضه الا منافق                            

ترجمہ: حضرت علیؑ سے محبت نہیں کرتا مگر مومن اور علی ؑ سے دشمنی نہیں کرتا مگر منافق، یعنی مولا علیؑ ایمان اور نفاق کو پرکھنے  کےلئے معیار ہیں۔

علی ؑ قرآن کے ساتھ:

رسول رحمت ﷺ علیؑ کو قرآن کا ساتھی اور قرین قرار دیتے ہیں جیساکہ ام سلمہ بیان کرتی ہیں:

عن ام سلمة قالت: لقد سمعت رسول الله یقول:علی مع القرآن و القرآن مع علی،لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض

 ترجمہ:ام سلمہ کہتی ہیں :میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ، حضرتﷺ فرماتے ہیں :علی ؑ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے۔

علیؑ حق کے ساتھ:

سر ور کائناتﷺ حضرت علیؑ کو حق قرار دیتے ہیں:

قال الرسول الله : علی مع الحق و الحق مع علی ولن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة

 ترجمہ:رسول خداﷺ نے فرمایا: علیؑ حق کے ساتھ ہے اور حق علیؑ کے ساتھ اور یہ دونوں اکھٹے رہیں گے یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملیں گے۔

علیؑ کعبے کی مانند:

رسول اکرمﷺ نے حضرت علی ؑ کو کعبے کی مانند قرار دیا ہے: (یا علی انت بمنزلة الکعبة)  ( اے علیؑ تو کعبہ کی مانند ہے) ۔

علی ؑ علم کے شہر کا دروازہ:

ختمی مرتبت ﷺ اپنے آپ کو شہر علم اور حضرت علی ؑ کو اس شہر کا دروازہ قرار دیتے ہیں، جیسا کہ ابن عباس ؓسے بیان ہوا ہے :

عن ابن عباس قال: قال رسول الله:انا مدینة العلم و علیٌّ بابها فمن اراد المدینة فلیات الباب

 ترجمہ:ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: میںﷺ علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے جو شہر کا ارادہ کرے وہ دروازے سے آئے۔

علیؑ  انبیاء کی صفات کا مجموعہ:

ہر نبی کی ایک خاص صفت  ہوتی ہے جبکہ رسول ﷺ کی درج ذیل حدیث کے مطابق، علی ؑ سارے انبیاءؑ کی صفات کے مالک ہیں:

((قال رسول الله من اراد  ان ینظر الی آدم فی علمه و الی ابراهیم فی حلمه و الی نوح فی فهمه و الی یحیی بن زکریا فی زهده والی موسی بن عمران ( فی بطشه ولینظر الی علی بن ابی طالب)

ترجمہ: سرور انبیاءﷺ نے فرمایا: جو چاہے کہ آدمؑ کو اس کے علم میں اور ابراہیمؑ کو اس کے حلم میں (بردباری) نوحؑ کو اس کے فہم میں اور یحییؑ بن زکریا کو اس کے زہد میں اور موسی بن عمرانؑ کو اس کے غضب میں دیکھے تو وہ علی ابن ابی طالب ؑ کو دیکھے۔

حضرت علی ؑ اولیاء کے پیشوا:

سرور انبیاء ﷺ حضرت علیؑ کے سید الاوصیاء ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:

عن انس بن مالک قال:قال رسول الله:ان الله عهد الیّ فی علی عهداً  فقال: علی رایة الهدی و منار الایمان وامام الاولیاء و نوری جمیع من اطاعنی

 ترجمہ:انس بن مالک سے منقول ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: خداوند  متعال نے حضرت علی ؑ کے بارے میں مجھ سے وعدہ کیا ہے اور کہا ہے :علیؑ ہدایت کا پرچم ،  ایمان کی نشانی ،  اولیاء کا پیشوا  اور جو میری اطاعت کرتے ہیں سب کا نور ہے۔

حوالہ جات:

1 ۔سورہ توبہ،آیہ 120۔

2۔الجوینی ،فرائد السمطین ،ج۱،ص۴۰۔

3۔النیشاپوری،حاکم،المستدرک علی الصحیحین ،ج۳،ص۱۴۰۔

4۔ ترمذی، صحیح ترمذی، ج۱۳،ص۱۷۰؛ابن اثیر ،جامع الاصول،ج۹،ص۴۷۱۔

5  ۔  ترمذی، صحیح ترمذی، ج۱۳،ص۱۷۰؛ابن اثیر ،جامع الاصول،ج۹،ص۴۷۱۔

6  ۔  مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار ج۳۷، ص۳۰۸۔

7۔ طبری،محب ذخائر العقبی،ص۹۲۔

8۔ عیون اخبار الرضا،ج۱،ص۳۰۳۔

9  ۔حنفی،مناقب خوارزمی،ص۶۷۔ابن شہر آشوب،مناقب ، ج۱،ص۲۳۶۔

10۔ بغدادی، خطیب،تاریخ بغداد، ج۱۲،ص۲۶۸۔

11۔ صدوق ،الخصال،ص۴۹۶،امالی صدوق ص۱۴۹۔

11۔ بدخشی،مفتاح النجاشی،ص۴۳۔

13۔ کنز العمال ج۱۱،ص۶۳۸،نمبر۳۳۰۶۲۔

14۔بحار الانوار ج۳۶،ص۱۴۵۔

15۔دیلمی،فردوس الاخبار،ج۲،ص۴۰۳۔

16  ۔  شافعی،جوینی، فرائد السمطین،ج۱،ص۹۷؛کنز العمال ج۱۱،ص۶۱۴،نمبر ۳۲۹۷۸۔

17۔ عسقلانی ۔ابن حجر،لسان المیزان،ج۶،ص۲۳۷۔

18۔موحد،محمد ابراہیم،الامام علی فی الاحادیث النبویہ،ص۱۳۴۔

19۔  الصواعق المحرقہ،ج۲،ص۳۶۰۔

20۔ کنز العمال،ج۱۱،ص۶۰۱،نمبر،۳۲۸۹۴۔

21۔بحار الانوار ،ج۳۸،ص۱۹۹۔

22۔کنز العمال،ج۶،ص۱۵۹۔

23۔ الطبرانی،معجم الکبیر، ج۲۳،نمبر ۸۸۵۔

24۔حاکم نیشاپوری،مستدرک ،حاکم ،ج۳،ص۱۲۴۔

25۔بغدادی،خطیب،تاریخ بغداد،ج۱۴،ص۳۲۱۔

26۔اسد الغابۃ۔ج۴،ص۳۱۔

27۔حاکم نیشاپوری،مستدرک الصحیحین،ج۳،ص۱۲۶۔

28۔ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ،ج۷،ص۳۵۶۔

29۔عسقلانی،ابن حجر، لسان المیزان،ج۶،ص۲۳۷۔


حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے متعلق قول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

’’حضرت عبد اﷲ بن عکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے شبِ معراج وحی کے ذریعے مجھے علی کی تین صفات کی خبر دی یہ کہ وہ تمام مومنین کے سردار ہیں، متقین کے امام ہیں اور (قیامت کے روز) نورانی چہرے والوں کے قائد ہوں گے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 184 : أخرجہ الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 88

اخوت :

’’حضرت عبداﷲ بن عمر سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی ؑعرض کیا یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو اسے ترمذي نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے اور اسی باب میں حضرت زید بن ابی اوفی سے بھی روایت ہے‘‘

الحديث رقم 73 : أخرج الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3720، و الحاکم فی المستدرک علٰی الصحيحين، 3 / 15، الحديث رقم : 4288.

’’حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تجھ سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 114 : أخرج الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 239، الحديث رقم : 6097، والبزار في المسند، 6 / 488، واليثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 5 / 316، الحديث رقم : 8304

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے محبت مومن کی پہچان:


’ حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘

الحديث رقم 117 : أخرج مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علي أن حب الأنصار و علي من الإيمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153، وابن أبي شيب في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064، وأبويعلي في المسند، 1 / 250، الحديث رقم : 291، و البزار في المسند، 2 / 182، الحديث رقم : 560، و ابن ابي عاصم في السن، 2 / 598، الحديث رقم : 1325۔


 


 ’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم انصار لوگ، منافقین کو ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

(الحديث رقم 120 : أخرج الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبو نعيم في حلي الاولياء، 6 / 295)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شجاعت:

’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا کل میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے کہا پھر صحابہ نے اس اضطراب کی کیفیت میں رات گزاری کہ دیکھئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں، جب صبح ہوئی تو صحابہ کرام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے ان میں سے ہر شخص کو یہ توقع تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو جھنڈا عطا فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو بلاؤ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے حق میں دعا کی تو ان کی آنکھیں اس طرح ٹھیک ہو گئیں گویا کبھی تکلیف ہی نہ تھی، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں ان سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں گا جب تک وہ ہماری طرح نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نرمی سے روانہ ہونا، جب تم ان کے پاس میدان جنگ میں پہنچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دینا اور ان کو یہ بتانا کہ ان پر اللہ کے کیا حقوق واجب ہیں، بخدا اگر تمہاری وجہ سے ایک شخص بھی ہدایت پا جاتا ہے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

(الحديث رقم 132 : أخرج البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوہ خيبر، 4 / 1542، الحديث رقم : 3973، و في کتاب فضائل الصحاب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1357، الحديث رقم : 3498، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحاب، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1872، الحديث رقم : 2406، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 333، الحديث رقم : 22872، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 377، الحديث رقم : 6932، و أبو يعلي في المسند، 13 / 531، الحديث رقم : 7537)


 


 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گھر کی فضیلت:

’حضرت عبد اﷲابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے کے سوا مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

(الحديث رقم 145 : أخرج الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 641، الحديث رقم : 3732، و اليثمي في مجمع الزوائد، 9 / 115)

’ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہٰذا جو اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

(الحديث رقم 151 : أخرج الحاکم في المستدرک، 3 / 137، الحديث رقم : 4637، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 44، الحديث رقم : 106)

خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں، جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں تقریباً تیس حدیثیں نقل کی ہیں، جن کے مضامین اس طرح  کے ہیں:

1۔ (انی افترضت محبة علی ابن ابی طالب علی خلقی عام) حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے۔

2۔ (لواجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار) اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت پر متفق ہو جاتے تو خداوند جہنم کو خلق نہ کرتا۔

3۔ اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلام کی اس عمر کے برابر (جو انہوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری) عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ہزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفا و مروہ کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے، لیکن (حضرت) علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

4۔ (من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی) جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی، گویا اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی، گویا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے۔

5۔ (ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء) ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے، اس طرح علی علیہ السلام کے چاہنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے۔

6۔ (من زعم انه امن بی و بما جئت به و هو یبغض علیا فهو کاذب لیس بمومن) جو شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہو، مگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی رکھتا ہو تو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نہیں ہے۔

اسی طرح شبلنجی شافعی نے نور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیا ہے:

1۔ مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے: (والذی فلق الحبة و برا النسمة انه لعهد النبی الامی بانه لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق) خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں، یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کے سوا کوئی مجھ سے بغض نہیں کرتا۔

2۔ ترمذی ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں: (کنا نعرف المنافقین ببغضهم علیا) ہم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونے پر بے شمار حدیثیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ لہذا مذکورہ احادیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے، جو حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم سمجھے، گرچہ خواہشات نفسانی میں گرفتار افراد حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی و عداوت رکھتے تھے اور کبھی اسے آشکار کرتے تھے، اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت، ایمان اور ان سے عداوت اور دشمنی کو نفاق کا معیار سمجھا گیا۔ اس صورت حال میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب امیرالمومنین علیہ السلام سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرامین پر توجہ کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کے گفتار و کردار کو اپنے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیتے  تھے۔

گذشتہ احادیث سے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت بھی واضح ہو جاتی ہے، کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک آپ سب سے زیادہ عزیز تھے، کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہشات نفسانی کی بنا پر کسی سے محبت نہیں کرتے بلکہ عقل و حکمت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی۔ ان کے علاوہ آپ ؑکی افضلیت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں۔ آیت مباہلہ سے بھی یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے، کیونکہ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیا گیا ہے، حالانکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں میں سب سے زیادہ افضل تھے، لہذا نفس پیغمبر کو بھی ان شرائط و خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔

محمد بن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے۔؟ انہوں نے جواب دیا: ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر۔ ان سے دوبارہ سوال ہوا، پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں۔؟ انہوں نے جواب دیا: تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا، نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے۔ اس کے بعد آیت مباہلہ کی تلاوت کی، اس کے بعد کہا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کے مانند ہوسکتے ہیں، جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا کہ خلفاء کی افضلیت کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے۔؟ انہوں نے جواب دیا: ابو بکر، عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتے ہیں۔ عبداللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں۔؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کا ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا سکتا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے، اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں پر برتری رکھتا ہے۔(ان زوجک خیر امتی اقدمه اسلاما و اکثرهم علما و افضلهم حلما) اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیا گیا تو آپ ؐنے خداوند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے، اسی وقت حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ جابر بن عبداللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں: (انه اولکم ایمانا معی، واوفاکم بعهد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیة و اقسمکم بالسویة و اعظمکم عند الله فریة) حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الٰہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پائیدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سے کام لیتے ہیں اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیادہ برتر ہے۔جابر اس کے بعد کہتے ہیں کہ آیت شریفہ (إنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئكَ هُمْ خَيرْ الْبرَيَّة)حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے (قد جاء خیرالبریة)۔

علی ؑ اسلام میں فنا تھے

خداوندِ متعال قرآنِ مجید میں فرماتا ہے: ’’اور انسانوں کے درمیان کوئی ایسا بھی ہے جو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا ایسے بندوں پر مہربان ہے۔ ‘‘(سورۂ بقرہ ۲۔ آیت ۲۰۷)اِس آیت میں جس شخصیت کی توصیف کی گئی ہے وہ علی ؑ تھے‘علی ؑ جنہوں نے خدا سے اپنی جان کا سودا کیا اور جن کی کوئی شئے خوداُن کے اپنے لئے نہ تھی ۔ بچپنے ہی سے ‘جبکہ آپ ؑ پیغمبر اسلام ؐکے شفیق سائے میں پروان چڑھ رہے تھے‘ آپ ؑ خدا کے ساتھ تھے اور پیغمبر ؐنے بالکل اِس انداز سے آپ ؑ کی تربیت کا اہتمام کیا تھا جیسے ایک باپ اپنے بچے کی تربیت کیا کرتا ہے۔ اِس بارے میں خودحضرت علی ؑ کا کہنا ہے کہ: ’’جب میں بچہ تھا تو آپ مجھے اپنے ساتھ ساتھ رکھتے تھے‘ اپنے سینے پر جگہ دیتے تھے اور مجھے اپنے بستر پر سلاتے تھے ۔ اپنے جسم کو میرے جسم سے مس کرتے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی چیز کو چباتے اور پھر اُسے میرے منھ میں رکھتے تھے۔ ‘‘

آپ ؑ مزید فرماتے ہیں: ’’اور میں اُن کے پیچھے پیچھے ایسے ہوتا تھا جیسے اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ۔ہر روز آپ ؐاپنے اخلاق میں سے کسی صفت کو میرے سامنے واضح کرتے اور مجھے اُس کی پیروی کا حکم دیتے۔ ‘‘

علی ؑ وحی و رسالت کا نوراور نبوت کی خوشبو محسوس کرتے تھے۔ جب آپ ؑ نے اِس بارے میں پیغمبر ؐسے سوال کیا‘ تو آنحضرت ؐنے جواب میں فرمایا کہ: ’’بے شک تم وہی سنتے ہو جو میں سنتا ہوں اور وہی دیکھتے ہو جسے میں دیکھتا ہوں سوائے یہ کہ تم نبی نہیں ہو۔ ‘‘

جب خداوندِ عالم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پیغمبری کے لئے معبوث کیا‘ تو علیؑ فوراً ہی آنحضرت ؐپر ایمان لے آئے‘جبکہ ابھی آپ ؑ کی عمر محض دس برس تھی۔ البتہ اِن کی عقل وخرد بزرگوں کی سی عقل و خرد تھی۔ اِس بارے میں آپ ؑ خود فرماتے ہیں کہ : ’’بارِالٰہا! میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تیری طرف رُخ کیا‘ سنا اور قبول کیا اور رسول اﷲ ؐکے سوا کسی اور نے مجھ سے پہلے نماز نہیں پڑھی‘‘ ۔آپ ؑ رسولِ خدا ؐکے ہمراہ مسجد جایا کرتے تھے۔حضرت خدیجہ ؑ بھی آپ ؑ دونوں کے ہمراہ ہوا کرتی تھیں۔علی ؑ اور خدیجہ ؑ، پیغمبر ؐکے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابوطالب ؑ نے اِنہیں اِس حالت میں دیکھا ۔دیکھا کہ علی ؑ رسول ؐکے برابر کھڑے ہیں اور خدیجہ ؑ ؑ اُن دونوں کے پیچھے۔ یہ دیکھ کر اُنہوں نے اپنے بیٹے جعفر سے کہا :بیٹا! اپنے چچازاد بھائی کے ساتھ نماز پڑھو۔

حضرت علی ؑ رسولِ مقبول ؐکے پورے وجود کا شعور رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ؑ کی عقل و خرد رسولِ مقبول ؐکی عقل و خرد کا تسلسل تھی اور آپ ؑ کے دل کی دھڑکن رسول ؐکے دل کی دھڑکن تھی۔علی ؑ قرآن کے عالم تھے۔ جب کبھی کوئی آیت نازل ہوتی‘ رسولِ مقبول ؐاُس آیت کے تمام پہلوؤں اور اُسکے تمام علمی اور احکامی نکات سے علی ؑ کو آگاہ فرماتے۔ علی ؑ علمِ رسول ؐکے حامل تھے۔ آپ ؑ فرمایا کرتے تھے کہ :رسولِ خدا ؐنے مجھے علم کے ہزار ابواب کی تعلیم دی‘ جس میں سے ہر باب سے مزید ہزار باب کھلتے ہیں۔

رسولِ خدا ؐنے بھی علی ؑ کے علم و دانش کے بارے میں تاکید فرمائی اور فرمایا: ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی ؑ اُس کا دروازہ ہیں۔ جو کوئی شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اُسے اُسکے دروازے سے داخل ہونا چاہئے۔ ‘‘


علی ؑ اسلام کے اوّلین مردِ میداں

علی ؑ اسلام کے پہلے مردِ جری تھے۔ آپ ؑ میدانِ بدر کے فاتح تھے۔ سیرت کی کتب میں تحریر ہے کہ معرکۂ بدرمیں مرنے والے دشمنوں کی نصف تعداد علی ؑ کی تلوار سے ماری گئی تھی‘جبکہ بقیہ آدھوں کو تمام مسلمانوں نے مل کر مارا تھا۔ جس وقت علی ؑ میدانِ بدر میں مشغولِ جہاد تھے‘اُس وقت یہ آسمانی ندا بلند ہوئی کہ: لا فتی الا علی ولاسیف الاذوالفقار۔ کیونکہ اُس زمانے میں علی ؑ کی جوانی کی طاقت اپنے عروج پر تھی۔ آپ ؑ معنویت‘ عقل وخرد‘ اسلام اور حق کے دفاع کے اعتبار سے بھی عروج پر تھے۔آپ ؑ میدانِ جنگ میں بھی صرف ایک جنگجو نہ تھے‘بلکہ اپنے مقاصد کو پیش رکھنے والے فرد تھے۔ خودآپ ؑ کا فرمانا ہے کہ: ’’جس وقت میں محاذ پر جنگ وجہاد میں مشغول ہوتاتھا‘ میرا دل رسولِ خدا ؐکی مٹھی میں ہوتاتھا ۔جب بھی مجھے جنگ سے فرصت ملتی تھی میں رسولِ خدا ؐکے پاس آتا‘ تاکہ میرے دل کو قرار آ جائے۔ ‘‘


جنگِ احد کی ابتدا میں مسلمان کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن بعد میں اُن کی فتح شکست میں بدل گئی۔ کیونکہ اُنہوں نے رسولِ مقبول ؐکی نصیحتوں پر عمل نہیں کیا تھا۔اِس جنگ میں بھی علی ؑ مسلسل پیغمبر ؐکے ساتھ ساتھ تھے‘ اور آنحضرت ؐکا دفاع کر رہے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اِس جنگ میں آپ ؑ کو بہت سے زخم آئے۔


علی ؑ جنگوں میں رسول ؐکے ساتھ رہا کرتے تھے۔ اِنہی جنگوں میں سے ایک جنگ‘ جنگِ احزاب تھی‘ جس میں قریش کے مشرکین اپنے حلیفوں کے ساتھ نوخیز اسلام کے خلاف جنگ کے لئے آئے تھے۔’’جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور (مارے دہشت کے) کلیجے منھ کو آ گئے اور تم لوگ اﷲ کے بارے میں طرح طرح کے (بے جا) گمان کرنے لگے ۔یہ وہ وقت تھا جب مومنین کو آزمائش میں ڈالا گیا اور اُنہیں شدت کے ساتھ ہلا کے رکھ دیا گیا اور جب منافقین اور دلوں میں بیمار ی رکھنے والے کہہ رہے تھے کہ اﷲ اور اُسکے رسول نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔ ‘‘    )سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۱۰ تا ۱۲)

لیکن خداوندِ عالم نے علی ؑ کے ذریعے دوسرے مومنین کو جنگ سے بچالیا۔ عمرو بن عبدو دعامری آیا اور مسلمانوں کو للکارنے لگا۔ رسولِ خدا ؐنے فرمایا : ’’جو کوئی عمرو کے مقابل جنگ کواُترے گا‘ میں خداوندِ عالم سے اُسکے لئے جنت کی ضمانت لوں گا۔ لیکن علی ؑ کے سوا کوئی نہ اٹھا۔ اِسی طرح تین مرتبہ ہوا۔ جب علی ؑ ‘عمرو سے جنگ کے لئے نکلے‘ تو رسول اﷲ ؐنے فرمایا: کُلِ ایمان کُلِ کفر کے مقابل جا رہا ہے۔‘‘ اورجب علی ؑ نے عمر و بن عبدودکو ہلاک کیا تو آنحضرت ؐنے فرمایا:’’ خندق کے دن علی ؑ کی ضربت (تمام ) جن و انس کی عبادت کے برابر ہے۔ ‘‘

معرکۂ خیبر بھی علی ؑ ہی کی بہادری سے سر ہوا۔ جب مرحب نے مسلمانوں کو للکارا‘ تواُس سے مقابلے کے لئے آنحضرتؐ نے ایک شخص کو بھیجا۔ وہ نامراد واپس آیا۔ حال یہ تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو ڈرا رہا تھا اور اُسکے ساتھی اُسے خوفزدہ کر رہے تھے۔ پیغمبر ؐنے ایک دوسرے شخص کو بھیجا۔ وہ بھی اِسی طرح پلٹ آیا۔ اِسلئے کہ یہودیوں کا قلعہ بہت مضبوط تھا۔یہ صورتحال دیکھ کر رسولِ مقبول ؐ نے فرمایا :’’ کل میں عَلم اُس شخص کے حوالے کروں گا جو خدا اوراُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور خدا اور اُس کا رسول اُس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ مسلسل حملے کرنے والا ہے‘راہِ فرار اختیار کرنے والا نہیں۔ اور جب تک خدا اُسکے ہاتھ سے فتح و نصرت رقم نہ کر دے‘ اُس وقت تک وہ واپس نہیں پلٹے گا۔‘‘ اِس موقع پر علی ؑ آشوبِ چشم میں مبتلا تھے‘ رسولِ مقبول ؐکے قریب آئے‘ آنحضرتؐ نے اپنا لعابِ دہن اُن کی آنکھوں میں لگایا۔بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت علی ؑ فرماتے تھے:’’ میری بینائی پہلے سے زیادہ تیز ہو گئی۔‘‘علی ؑ گئے‘ مرحب کو پچھاڑا اور قلعے میں داخل ہوگئے ۔اِس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ:’’خدا کی قسم!میں نے خیبر کا دروازہ اپنی جسمانی طاقت سے نہیں اکھاڑا‘ بلکہ یہ کام خدائی قوت سے کیا ہے۔‘‘علی ؑ خدا پر ایمان رکھتے تھے اور اسلام و مسلمین سے وفادار تھے۔ اُن کی قوت اور صلاحیت کی بنیاد‘ اُن کی یہی خصوصیات تھیں (نہج البلاغہ کے ایک شارح) ابن ابی الحدید معتزلی حضرت علی ؑ کے ہاتھوں خیبر کا دروازہ اکھاڑے جانے کی بابت کہتے ہیں:’’ آپ ؑ نے اُس دروازے کو اپنی جگہ سے اکھاڑا‘ جسے چوالیس افراد اپنی جگہ سے نہیں ہلا پاتے تھے۔ ‘‘


علی ؑ کی ولایت

علی ؑ اسلام کے مردِ جری تھے ۔آپ ؑ نے اپنی جنگوں کے ذریعے اسلام کوحیات بخشی۔ اِسی طرح آپ ؑ نے اپنی صلح و آشتی اور نرم روی کے ذریعے اسلام کو حیات عطا کی۔ کیونکہ آپ ؑ اپنے مشوروں کے ذریعے مسلمانوں کی رہنمائی فرماتے تھے۔ پیغمبر ؐنے مسلمانوں کو علی ؑ کی حقیقت سے آشنا کیا۔ تاکہ وہ اِس بات سے واقف ہو جائیں کہ صرف علی ؑ ہی ہیں جو رسولِ خدا ؐکے بعد اسلام کی ذمے داری اپنے کاندھوں پر اُٹھا سکتے ہیں اور آپ ؐ نے فرمایا: ’’علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ۔ حق اِنہی کے مدار پر گردش کرتا ہے۔‘‘ اور آپ ؐہی کا فرمان ہے :’’اے علی! کیا آپ اِس بات پر خوش نہیں ہیں کہ آپ کو وہی منزلت حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ کی نسبت سے حاصل تھی‘ سوائے اِسکے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ ‘‘

آیۂ شریفہ: ’’اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اُسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اﷲ کا پیغام نہیں پہنچایا۔‘‘ (سورۂ مائدہ آیت ۶۷) نازل ہونے پر علی ؑ ‘ رسول ؐکی انتہائی توجہ کا مرکز بن گئے۔ خدا نے اپنے پیغمبر ؐ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ: علی ؑ کی ولایت کے بارے میں جو کچھ آپ ؐپر نازل ہوا ہے اُسے لوگوں تک پہنچا دیجئے۔ کیونکہ آپؐ کی وفات قریب ہے اورآپ ؐاِس دنیا سے کوچ سے پہلے علی ؑ کو خلیفۂ مسلمین منصوب کر دیجئے۔ لہٰذا آنحضرت (غدیر خم کے مقام پر) ٹھہرے اور حضرت علی ؑ کا ہاتھ بلند کیا ‘یہاں تک کہ دونوں کی زیر بغل سفیدی نمایاں ہو گئی اور پھرآنحضرت ؐنے فرمایا: ’’جس کا میں مولا ہوں‘ یہ علی اسکے مولا ہیں۔ بارِالٰہا! جو اِس سے محبت کرے ‘تو اُس سے محبت کرنا اور جو اِس سے دشمنی کرے‘ تو اُس سے دشمنی کرنا ۔جو اِسکی مددکرے‘ تواُسکی مدد فرما اور جو اِسے چھوڑے تو اُسے چھوڑ دینا اور حق کو اِنہی کے محور پر گردش دینا۔ ‘‘

مہاجرین اور انصار میں سے علی ؑ ہی رسولِ مقبول ؐکے بھائی بنائے گئے۔ پیغمبر ؐنے اُن سے فرمایا: ’’تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔ ‘‘

رسولِ مقبول ؐکے بعد ایسے مسائل نے جنم لیا کہ علی ؑ اپنے اُس حق سے محروم کردیے گئے جسے خدا نے اُن کے لئے قرار دیا تھا۔اِس صورتحال میں علی ؑ نے کیا مؤقف اختیار کیا؟ آپ ؑ نے سب سے برتر اور بہترہونے کے باوجودکبھی ذاتی حوالے سے نہیں سوچا۔ بلکہ ہمیشہ اسلام کی فکر کی‘ خدا اور اُسکے رسول ؐکے بارے میں سوچا۔ نہج البلاغہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ آپ ؑ نے فرمایا : 


’’مگر ایک دم میرے سامنے یہ منظر آیا کہ لوگ فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کے لیے دوڑ پڑے ہیں۔ اِن حالات میں‘ میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھا۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے منھ موڑ کر دین محمدؐ کو مٹا دینے پر تُل گیا ہے۔ مجھے اِس بات کا خوف ہوا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکھنے کے باوجود اگر میں اسلام اور اہلِ اسلام کی مدد نہ کروں تو یہ میرے لیے اِس سے بڑی مصیبت ہوگی جتنی تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے چلی جانے کی مصیبت‘ جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے‘ اِس میں کی ہر چیز سراب اور اُن بدلیوں کی مانند جو ابھی جمع نہ ہوئی ہوں زائل ہوجانے والی ہے۔ چنانچہ اِن حالات میں‘ میں اُٹھ کھڑا ہوا تاکہ باطل نیست و نابود ہوجائے اور دین محفوظ ہوکر تباہی سے بچ جائے۔‘‘ (نہج البلاغہ۔ مکتوب ۶۲)


ان لوگوں نے علی ؑ کو اُن کے حق سے دور کیا ‘ لیکن اِسکے باوجود علی ؑ اُنہیں اپنے مشوروں سے نوازتے رہے‘ اُن کی جانوں کی حفاظت کرتے رہے اور اسلامی معاشرے میں بہترین انداز سے اپنی ذمے داریوں پر عمل کرتے رہے ۔کیونکہ علی ؑ کبھی اپنی ذات کے بارے میں نہیں سوچتے تھے۔ بلکہ آپ ؑ کی فکر اپنے مشن اور اپنی ذمے داری کے بارے میں ہوتی تھی۔ آپ ؑ کی سوچ یہ تھی کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی فتنہ پیدا نہ ہو اور کفارو مشرکین کے مقابل اُن کا محاذ کمزور نہ پڑنے پائے۔یہی وجہ ہے کہ آپ ؑ نے اپنے اِس لافانی کلام میں فرمایا: ’’جب تک مسلمانوں کے امور سلامت ہیں اور میرے سوا کسی اور پر ظلم روا نہیں رکھا جاتا میں صلح و آشتی کے ساتھ رہوں گا۔ ‘‘

دوستو! شیعوں اور غیر شیعوں کے لئے حضرت علی ؑ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ایسے لوگ جوہر موقع پر مسلمانوں کے درمیان فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے ہیں‘ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں‘ ایک دوسرے کے خلاف جنگ وجدال کرتے ہیں‘ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں اور اپنی قوتوں کو بکھیرتے ہیں‘ اور اُن لوگوں سے جو نامناسب گفتگو کرتے ہیں اورایک دوسرے کے مقدّسات کے خلاف گالم گلوچ اور لعن طعن کرتے ہیں حضرت علی ؑ فرماتے ہیں میں نے اسلام کا دفاع کیا ‘اسلامی معاشرے سے فتنوں کا خاتمہ کیا ‘باوجود یہ کہ حق میرا تھا‘جب اُنہوں نے سنا کہ اُن کے لشکر والے شامیوں کو گالیاں دے رہے ہیں‘ تو اُن سے فرمایا: ’’مجھے پسند نہیں ہے کہ تم گالیاں دینے والے بنو‘ البتہ اگر اُن کے کردار کی وضاحت اور اُن کے اعمال کا ذکر کرو‘ تو یہ کام گفتار میں مناسب تر اور عذر خواہی میں بہتر ہے۔ اُنہیں گالم گلوچ دینے کی بجائے کہو : بارِالٰہا! اُن کے اور ہمارے خون کو بہنے سے بچااور اُن کے اور ہمارے درمیان اصلاح فرما‘ اُنہیں گمراہی سے ہدایت فرما‘ تاکہ وہ حق کو پہچانیں اور جس سرکشی اور بغاوت کو اُنہوں نے اپنایا ہے اُس سے باز آ جائیں۔ ‘‘


علی ؑ ‘پیشوائے زُہد


ہم نے علی ؑ کی عقل و خرد ‘اُن کے افکار و خیالات اور اُن کے طرزِ عمل پرگفتگو کی۔ ہمیں چاہئے کہ علی ؑ کو پہچانیں اور اُن کی عظمت سے اپنے کردار میں بلندی پیدا کریں۔ ایک مرتبہ آپ ؑ نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’ جان لو کہ تمہارے امام ؑ نے اپنی دنیا سے دو فرسودہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر اکتفا کیا ہے‘ تم ایسا نہیں کر سکتے لیکن پارسائی کی کوشش‘ پاکدامنی اور درستکاری کے ذریعے میری مدد کرو۔ ‘‘

لیکن لوگوں نے علی ؑ کی راہ میں کانٹے اگائے اور جب آپ ؑ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اور اسلامی معاشرے کو بہترین طریقے سے رفعتوں پر پہنچانا چاہا تو ناکثین‘ قاسطین اور مارقین اٹھ کھڑے ہوئے ۔گویا اُنہوں نے اِس کلامِ الٰہی کوسناہی نہ تھا کہ جس میں وہ فرماتا ہے کہ :’’یہ دارِ آخرت وہ ہے جسے ہم اُن لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ‘اور عاقبت تو صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے۔‘‘ (سورہ قصص ۲۸۔ آیت ۸۳)

ہاں جانتے تھے‘ لیکن اُن کی نظر میں دنیا کی رنگینیاں تھیں اور اُسکی زیب و زینت اُن کی نگاہوں میں خوشنما تھی ۔اِسکے بعد آپ ؑ فرماتے ہیں کہ :’’ اُس خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور روح کو خلق کیا ‘اگر بیعت کرنے والوں کی کثرت اور مدد کرنے والوں کی موجودگی سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جواﷲ نے علما سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم سیری اور مظلوم کی بھوک دیکھ کر سکون و اطمینان سے نہ بیٹھے رہیں‘ تو میں خلافت کی باگ اُسی کے کاندھے پر ڈال دیتا اور اُسکے آخر کو اُسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اُسکے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم دیکھتے کہ تمہاری دنیا میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے ۔"( نہج البلاغہ ۔ خطبہ ۳)

(ایک اورموقع پر ) ابن عباس نے دیکھا کہ علی ؑ اپنی جوتی سی رہے ہیں ‘امام ؑ نے اُن سے فرمایا:’’ اِس جوتی کی کیا قیمت ہو گی؟ ابن عباس نے کہا: اِسکی کوئی قیمت نہیں۔ فرمایا: خدا کی قسم ! مجھے یہ تمہاری حکومت سے زیادہ محبوب ہے‘ مگر یہ کہ (اِس حکومت کے ذریعے) حق کو برقرار کروں اور باطل کاخاتمہ کروں۔ ‘‘علی ؑ سراسر حق تھے اور ہمیشہ حق کے ہمراہ تھے ۔آپ ؑ فرماتے تھے: ’’حق نے میرا کوئی دوست باقی نہ رہنے دیا۔ ‘‘

پیغمبر ؐفرماتے ہیں :’’ علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ہمراہ۔‘‘ علی ؑ اور حق کبھی جدا نہیں ہوتے۔

ایک مسلمان کی حیثیت سے جب ہم علی ابن ابی طالب (ع) کی سیرت اورکردار کاجائزہ لیتے ہیں تو وہ خدا کی بندگی رسول اسلام (ص) کی جانشینی اورمسلمانوں کی امامت و پیشوائی کے لحاظ سے بہتریں مسلمان اور کامل ترین انسان نظر آتے ہیں ۔اسی لئے ان کی شخصیت اور کردار ابدی اور جاوداں ہے چنانچہ 19 ماہ رمضان المبارک کو وقت سحر سجدۂ معبود میں جس وقت امیرالمومنین کی پیشانی خون میں غلطاں ہوئی خدا کے معتمد اور رسول اسلام (ص) کے امین ، فرشتوں کے امیر ، جنگ احد میں ” لافتی الّا علی لاسیف الّا ذوالفقار ” کا نعرہ بلند کرنے والے جبرئیل نے تڑپ کر آواز بلند کی تھی :” ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ” خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے  اور مسجد کوفہ میں جب سارے مسلمان اپنے امام وپیشوا کے غم میں نوحہ و ماتم کرنے میں مصروف تھے خدا کا مخلص بندہ اپنے معبود سے ملاقات کااشتیاق لئے آواز دے رہا تھا” فُزتُ وَ رَبّ الکَعبہ ” رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا اور علی (ع) آج بھی کامیاب ہیں کیونکہ ان کی سیرت ،ان کا کردار ،ان کے اقوال و ارشادات ان کی حیات اور شہادت کاایک ایک پہلو نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اسی لئے علی ابن ابی طالب (ع) سے محبت اور معرفت رکھنے والے کل بھی اور آج بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ علی (ع) کی شہادت تاریخ بشریت کے لئے

ایک عظیم خسارہ اورایسی مصیبت ہے کہ اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے ۔

غیر مسلموں کی حضرت علی ؑ سے محبت:

حضرت علی نے اپنی دانش سے ثابت کیا کہ وہ ایک عظیم ذہن رکھتے ہیں اور بہادری ان کے قدم چھوتی ہے۔(سکاڈش نقاد اور مصنف تھامس کارلائل (1795-1881) 

حضرت علیؑ کی فصاحت تمام زمانوں میں سانس لیتی رہے گی، خطابت ہو یا تیغ زنی وہ یکتا تھے۔ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن (1737-1794) "

حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔" (امریکی پروفیسر فلپ کے حتی 1886-1978) 

سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی، انھوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کر دیا تھا۔ سرویلیم مور (1905-1918) 

حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے۔" (برطانوی ماہر حرب جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984)

حضرت علیؑ کا اسلام سے مخلصانہ پن اور معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی۔"

معروف برطانوی ماہر تعلیم دلفرڈ میڈلنگ (1930-2013)

خوش نصیب ہے وہ قوم جس میں علیؑ جیسا عادل اور مرد شجاع پیدا ہوا۔ نبی اکرم (ص) سے انہیں وہی نسبت ہے جو حضرت موسٰی سے حضرت ہاروں کو تھی۔" معروف مورخ چارلس ملز (1788-1826)

خانہ خدا میں حضرت علیؑ کی ولادت ایک ایسا خاصہ ہے جو کسی اور کا مقدر نہیں۔" برطانوی ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720)

علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھے کہ عرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں، آپٖ ایسے غنی تھے کہ مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا۔" امریکی تاریخ دان واشنگٹن آئیورنگ (1783-1859)ٖ 

میرے نزدیک علیؑ کو سمجھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔" بھارتی صحافی ڈی ایف کیرے (1911-1974)

حدیث :- 1

علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے"۔

حوالہ :- (مستدرک الحاکم جلد 3 صفحہ 11)

علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے،جو موسی کو ہارون سے تھی سواے اس کے کہ میرے بعد کوی نبی نہیں"۔

حوالہ :- ( صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 1142)

(صحیح مسلم جلد 31 صفحہ نمبر 5931)

حدیث:- 4

یوم خیبر ، "کل علم اس کو دوں گا جو اللہ،اسکے رسول کا محبوب ترین ہوگا"۔

حوالہ :- ( صحیح مسلم جلد 31،صفحہ 5917)

حدیث:- 5

میرے بعد جو چیزیں باعث اختلاف ہوں گی ، ان میں علی کی عدالت سب سے بہترین ہے" ۔

(کنز اعمال جلد 13، صفحہ 120)

حدیث نمبر:- 6

علی تمہارے درمیان بہترین حاکم ہے"۔

(کنز اعمال جلد 13،صفحہ 120)

حدیث نمبر:- 7

میں سردار فرزندان آدم ہوں، (علی) سرور عرب ہے"۔

حوالہ :- (مستدرک الحاکم جلد 3، صفحہ 123)

حدیث نمبر:- 8

یوم خندق ضربت علی ثقلین کی عبادت سے افضل ہے "۔

حوالہ :- (مستدرک الحاکم جلد 3 صفحہ 34)


حدیث نمبر :- 9

علی کے گھر کے علاوہ مسجد نبوی کے اندر کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں" ۔

حوالہ:- (مستدرک الحاکم جلد 3،صفحہ 125)


حدیث نمبر:- 10

علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں"۔

حوالہ جات :- (مسند احمد ابن حمبل جلد 5،صفحہ 606)

( صحیح ترمذی جلد 13،صفحہ 168)

حدیث نمبر:- 11

لشکر روانہ کرتے وقت فرمایا، "خدایا مجھے اس وقت تک موت نا دینا جب تک علی کو دوبارہ دیکھ نہ لوں ،راوی ام ایمن " ۔

حوالہ :- (صحیح ترمذی جلد 13 صفحہ 178)

حدیث نمبر:- 12

علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے۔ حوالہ :- ( صحیح ترمذی جلد 31،صفحہ 166)

حدیث نمبر:- 13

اہل سنت کے مفسر امام جلال الدین سیوطی نے تفسیر در منثور میں درج کیا ہے جب قرآن کی یہ آیت آئی کہ :-

اے رسول ! پہنچا دیجئے اپنے رب کی طرف سے جو آپ پہ نازل ہوا... (سورہ مائدہ 67)

اس آیت کے بعد آخری حج سے واپسی پر خم غدیر کے مقام پر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے سوالاکھ صحابہ کرام کے مجمعے میں علی (علیہ السلام ) کا ہاتھ بلند کر کے اعلان کیا :- "جس جس کا میں مولا ، اس اس کا علی( علیہ السلام ) مولا

حدیث نمبر :- 14

جس نے علی کو ستایا ، اس نے مجھے ستایا" ۔ حوالہ :- (مسند امام احمد ابن حمبل جلد 4 صفحہ 534)

حدیث نمبر:- 15

جس نے علی سے دشمنی کی ، اس نے مجھ سے دشمنی کی"۔

(مناقب علی ابن ابی طالب صفحہ 192)

حدیث نمبر:- 16

اے علی ! مومن کے علاوہ کوئی تم سے محبت نہیں کرسکتا، منافق کے علاوہ کوئی تم سے بغض نہیں رکھ سکتا"۔

حوالہ :- (صحیح ترمذی جلد 13 صفحہ 177)


حدیث نمبر:- 17

علی کی دوستی برائیوں کو یوں کھاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو" ۔

حوالہ:- (کنز العمال جلد 11،صفحہ 125)

حدیث نمبر:-18

اے علی ! جو ہماری اطاعت کرے گا اس نے خدا کی اطاعت کی"، راوی ابوذر غفاری

حوالہ:- (مستدرک الحاکم جلد 3،صفحہ 123)

حدیث نمبر:- 19

(میرا پروردگار مجھے رات کو آسمان لے گیا اور علیکے بارے میں مجھے 3 چیزوں کی وحی کی )

علی پرہیز گاروں کا پیشوا ، مومنین کے ولی ، اور نورانی چہروں کے رہبر ہے"۔

حوالہ:- (مستدرک الحاکم جلد 3،صفحہ 138)

حدیث نمبر:- 20

میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہے۔

حوالہ جات:- (کنز العمال جلد 13 صفحہ 148)

(مستدرک الحاکم جلد 3،صفحہ 127)

حدیث نمبر:- 21

مواخات مدینہ ، "اے علی تم دنیا آخرت میں میرے بھائی ہو"۔

حوالہ(تاریخ ابن کثیر جلد 3،صفحہ 223)

" ولایت ایک بیش بہا نعمت خداوندی ہے، امام زین العابدین ؑ فرماتے ہیں ولایت صرف وہی ذہن قبول کر تے ہیں جن پر ہم راضی ہوں ۔مولا علی ؑ کی محبت سے انسان کا دل و دماغ جہاں اس کی طینت کی خوشبو سے معطر رہتا ہے وہاں دل کو اطمینان و سکون بھی مہیا ہوتا ہے۔ شیخ صدوق ؒ عیون اخبار الرضا ج2 صفحہ 116 پر ایک تفصیلی حدیت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ سے جبرائیل ؑ کے ذریعے فرمایا کہ میں نے علی ؑ کو اپنا چہر ہ بنایا جو ان ک یطر متوجہ ہو ا تو میں ان سے اپنا رخ نہ پھیرا میں نے علی ؑ کو زمین و آسمان میں اپنی ارضی و سماوی مخلوقات کیلئے اپنا نمائندہ (حجت ) بنایا اور میں زمین و آسمان کے رہنے والوں کا کوئی عمل قبول نہیں کروں گا جب تک وہ محمد ﷺ کی نبوت اور علی ؑ کی ولایت کا اقرار نہ کریں ۔علی ؑ میری وہ نعمت ہے جو میں اپنے پیارے بندوں کو عطا کرتا ہوں، میں اپنے جس بندے سے محبت کرتا ہوں تو میں اسے علی ؑ کی ولایت و معرفت عطا کرتا ہوں اور جس سے بغض رکھتا ہوں تو اس سے بغض بھی اس لیے رکھتا ہوں کہ وہ علی ؑ کی معرفت و ولایت سے منحرف ہوتا ہے، میں اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم اٹھا کر حلفیہ کہتا ہوں کہ میرا جو بھی بندہ علی ؑ سے محبت کرے گا میں اسے دوزخ میں نہ جانے دوں گا اور اسے جنت میں بھیجوں گا اور اس کی ولایت سے روگردانی کرنے والے کو دوزخ میں داخل کروں گا ،علی ؑ دنیا میں لوگوں پر میرا پھیلا ہوا دستِ شفقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علی کو اپنا گھر قرار دیا ہے جو اس میں داخل ہوا وہ دوزخ سے محفوظ رہا، ولایت امیر المومنین ؑ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا پیمانہ ہے۔ علی ؑ اللہ تعالیٰ کی عزت نفس کا نام ہے ۔علی ؑ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا ظرف ہے، علی ؑ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے، علی ؑ کی ولایت کبریائی کے اہم ستون کا نام ہے۔معصوم فرماتے ہیں کہ ہماری ولایت اور محبت ہی تو جنت ہے دعا کیا کرو کہ کوئی تمہیں اس جنت سے نکال نہ دے۔ علی ؑ نقادوں کی تنقید سے ماورا سوچوں اور تصورات سے بلند اور فکری پروازوں سے قطعی ماوار ہے۔ علی ؑ سوچنے کیلئے نہیں صرف اور صرف ماننے کیلئے ہے۔ علی ؑ کی محبت (ولایت) اللہ تعالیٰ کا حکم ہے حضرت رسول اکرم ﷺ کا اجرِ رسالت اور انسان کی خوش بختی کا نام ہے۔ مجالس المومنین ص 465 پر شہید ثالث لکھتے ہیں کہ جابر ابن عبداللہ انصاری ہاتھ میں عصا لے کر مدینہ کے گلی کوچوں میں پھرا کرتے تھے اور گروہ انصار سے خطاب کر کے کہا کرتے تھے کہ اے گروہ انصار اپنی اولاد کی پرورش علی ؑ کی محبت پر کرو اور جو بچہ علی ؑ سے محبت نہ کرے تو اس کی ماں کو خیانت کار سمجھو۔ اپنی ولایت کی معرفت کے متعلق غرر الحکم صہ 416 پر حضرت امیر المومنین ؑ خود فرماتے ہیں کہ " ہم کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو کیونکہ ہمارا معاملہ سخت اور دشوار ہے ،پاکیزہ نفس اور ایماندار افراد ہی ہماری ولایت کو قبول کر سکتے ہیں۔۔۔۔باقر آل محمد ﷺ فرماتے ہیں اللہ کی قسم ! اے ابو خالد ہم سے محبت و دوستی وہ بندہ کرتا ہے جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ پاکیزہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بندے کے قلب کو اس وقت تک پاکیزہ نہیں کرتا جب تک وہ ہماری ولایت کو نہ مانے۔ میزان الحکمت ج 5 صفحہ 348 پرحضرت امیر المومنین ؑ  فرماتے ہیں ہمارے شیعہ ہماری ولایت کی خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں ہماری مودت ہی کی وجہ سے ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ صاد ق آل محمد ﷺ سے پوچھا گیا کہ سورہ طہ کی آیت 83 میں ہے کہ " اور یقینا ً میں بخش دو ں گا اسے جس نے توبہ کی، ایمان لایا اور عمل صالح بجا لائے، پھر ہدایت طلب کرے"۔ راوی نے سوال کیا مولا ؑ ! یہ ہدایت کیا ہے جسے طلب کرنا ہے تو آپ ؑ نے فرمایا للہ کی قسم ! وہ ہماری ولایت ہے کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ولایت کی کیسی شرط لگائی ہے؟شیخ صدوق ؒ امالی میں لکھتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم ﷺ نے فرمایا " خدا کی قسم ! جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر روز قیامت تم پہاڑوں کے برابر اعمال لے آئے لیکن علی ؑ ابن ابی طالب ؑ کی ولایت (محبت) نہ ہوئی تو خدا تمہیں دوزخ میں پھینک دے گا ،پھر فرمایا اے علی ! اگر کوئی بندہ تیری محبت (ولایت) نہ رکھے تو وہ بہشت کی خوشبو تک نہ سونگھے گا اور اس میں داخل نہ ہو گا۔ امیر المومنین ؑ نے فرمایا کہ " اے رمیلہ ! جو مومن یا مومنہ بیمار ہوتے ہیں تو ہم ان کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں اور جب ان کو کوئی غم ہوتا ہے تو ہمیں بھی غم ہوتا ہے اور جب وہ دعا مانگتے ہیں تو ہم آمین کہتے ہیں اور جب وہ خاموش ہو جاتے ہیں تو ہم ان کیلئے دعا کرتے ہیں۔ ایک شخص دور دراز کا سفر کر کے حضرت امام محمد باقر  ؑ کے پاس آیا اور پوچھا کہ مولا ؑ میں نے آپ ؑ کی زیارت کیلئے جو مشقت اٹھائی ہے کیا آپ ؑ اس سے واقف ہیں تو آپ ؑ نے نزدیک پڑے ہوئے ایک پتھر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تو تو ایک انسان ہے اگر یہ پتھر بھی میرے ساتھ محبت کرے گا تو یہ بھی میرے ساتھ محشر میں محشور ہو گا۔ مولائے کائنات امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ملائکہ کو تسبیح و تقدیس ہم نے سکھائی، میں اللہ کا عہدِ میثاق ہوں ،میں سر اللہ فی العالمین ہوں، میں کلمۃ اللہ ہوں، میں حجۃ اللہ ہوں، میں نور اللہ ہوں، میں حجاب اللہ ہوں، میں آیت اللہ ہوں، میں اللہ کا انتخاب ہوں ہم ذکر اللہ ہیں، ہم لسان اللہ ہیں۔ ہم عین اللہ ہیں، ہم اولی الامر ہیں، میری ولایت تمام مخلوقات پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کوئی آیت مجھ سے بزرگ نہیں۔ میں باب اللہ ہوں، میں صاحب اعراف ہوں، قرآن حکیم ہماری شان میں نازل ہوا ہے۔ کافی میں ایک روایت ہے کہ امیر المومنین ؑ نے فرمایا خدا کی معرفت دراصل ولایت کی معرفت ہے ،علی ؑ کی ولایت باطن رسالت ہے، پھر فرماتے ہیں ہم زمین و آسمان کے خازن ہیں۔ تفسیر انوارِ النجف ج 3 صفحہ 8 میں فرماتے ہیں کہ اے داؤد اللہ کی کتاب میں نماز، زکوٰۃ ،روزہ، حج ،کعبۃ اللہ ،وجہ اللہ ہم ہیں۔ اللہ کے اسماء الحسنیٰ ہم ہیں۔ ہم نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ ہوتی۔ (بشکریہ ۔پیامِ زینب ؑ شمارہ نمبر 157دسمبر 2009، صفحہ 5-4)پھر ایک جگہ مولائے کائنات ارشاد فرماتے ہیں " میں ہی قیامت برپا کروں گا، میں ہی اُس گھڑی کو معین کرنے والا ہوں ،میں ہی وہ ہوں جسے اللہ نے روحوں کے سامنے پیش کیا اور پھر ان کو میری اطاعت کیلئے بلایا (یہ اشارہ ہے یومِ الست کی طرف) اور جب میں ان کے سامنے آیا تو انکار کر بیٹھے ۔میں پچھلی کتابیں بھیجنے والا ہوں، میں مسیح تھا اس وقت بھی جب کوئی روح خلق نہیں ہوئی تھی اور نہ کوئی میرے علاوہ سانس لینے والا تھا۔ میں وہ ہوں جس کی ولایت کے بغیر اعمال قبول نہیں ہوتے" (مشارق الانوار صفحہ 218)۔ امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں ہماری جگہ اللہ کے پہلو میں ہے۔ ہم بندوں کے آقا اور شہروں کے منتظم ہیں۔ ہم صراطِ مستقیم ہیں۔ ہم عین الوجود ہیں۔ جو ہمارے حق کو نہیں مانتا اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔ "(مشارق الانوار صفحہ 52)

امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں اے جابر ! بیان اور معانی سے وابستہ رہو، جابر نے عرض کی کہ مولاؑ بیان کیا ہے اور معانی کیا ہے؟ فرمایا بیان یہ ہے کہ تم جان جاؤ کہ اللہ کی مثال کسی چیز سے نہیں دی جاسکتی لہٰذا اس کو مثل و مثال سے دور رکھو اور اس کے ساتھ شریک نہ بناؤ جبکہ معانی کے معنی یہ ہے کہ ہم ہی اللہ کے معنی ہیں، اللہ کا جنب ہیں، اللہ کا امر ہیں، اللہ کا حکم ہیں، اللہ کا کلمہ ہیں، اللہ کا علم ہیں، اللہ کا حق ہیں اور ہم جو جب چاہتے ہیں وہی اللہ چاہتا ہے اور جو ہم ارادہ کرتے ہیں اللہ بھی وہی ارادہ کرتا ہے۔ ہم وہ وجہہ اللہ ہیں جو زمین پر تمہارے امور کی جانچ کر کے بتائے۔ پس جو ہمیں جان گیا اس کے سامنے یقین ہے اور جو ہمیں نہیں جانتا اس کے سامنے سجین ہے اور اگر ہم چاہیں تو زمیں کی فضاؤ ں کو چیر کر آسمان پر سعود کر جائیں تمام مخلوق کی بازگشت ہماری طرف ہے ۔ پھر ہم ہی ان کا حساب لینے والے ہیں" (کشف التوحید صفحہ 56-55)




یاد رکھیں!  محبتِ علی ؑ واجب ہے۔ جسے اللہ نے واجب کیا ہے اور یہی معیار ہے تمام اعمالات کی قبولیت کا۔ نماز ،روزہ، حج، زکوٰۃ ،صلہ رحمی غرضیکہ جتنے بھی اچھے اور نیک کام ہیں سب تب ہی بارآور ثابت ہو سکیں گے جب آپ کے دل میں نورِ ولایت علی ؑ اور محبت علی ؑ ہوگی ۔اگر آپ کا دل محبتِ علی ؑ سے خالی ہے تو پھر کوئی بھی نیک عمل دنیا و آخرت میں آپ کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا۔ یہ معیار ہم نے نہیں اللہ نے مقرر کر دیا ہے ۔کہ جو بھی علی ؑ کے بغیر مجھ تک پہنچنا چاہے گا وہ کبھی بھی اللہ تک نہیں پہنچ پائے گا۔ اور یہی اطاعتِ رسولِ خدا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے بھی تو یہی بات منوائی ہے کہ خبردار علی ؑ کو کبھی نہ چھوڑنا کیونکہ علی ؑ ہی صراطِ مستقیم ہے جو تمہیں کبھی گمراہ نہیں ہونے دے گا اگر ساری دنیا علی ؑ کو چھوڑ دے تب بھی تم اُسی راستے پر چلنا جس پر علی ؑ چل رہے ہوں کیونکہ علی ؑ تمہیں حق تک پہنچا دیں گے۔ یعنی محبتِ علی ؑ دراصل محبت ِ رسول ﷺ ہے اور محبت ِ رسول ﷺ ہی محبت ِ خدا ہے اور تقربِ خدا کا بہترین واحد اور اکلوتا ذریعہ ہے۔ رسول اعظم ﷺ محبت کا دعویٰ تب ہی سچا ہو سکتا ہے جب آپ ﷺ کے فرامین کو مانا جائے اور بسر و چشم آپ ﷺ کی اطاعت کی جائے ۔آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ علی ؑ سے محبت کرو ۔ آپ ﷺنے علی ؑ سے محبت کا حکم دیا ہے ۔اور اللہ نے آپ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ سب لوگوں سے اپنے قرابتداروں کی مودت(محبت) مانگو۔اس لیے محبت ِ علی ؑ حکم خدا اور حکم رسول خدا ﷺ ہے ۔لہٰذا اس سے فرار ممکن نہیں۔ پھر محبت ِ علی ؑ کے ثمرات کا اگر آپ جائزہ لیں تو دنیا میں جتنے بھی اولیاء اللہ ہیں سب کا ڈنکا محبت ِ علی ؑ سے ہی بج رہا ہے۔ خلقت آج اگر ان کے دروازوں پر جھکی ہوئی ہے تو محبت ِ علی ؑ کا ہی نتیجہ ہے۔ اسی درِ سے ہی نورِ ولایت کی شعاعیں لے کر لو گ دنیا میں ولی بن گئے۔ اور انسانیت کی مرادیں بر لا رہے ہیں۔ معصوم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی پتھر بھی ہم سے محبت رکھے گا تو وہ ہمارے ساتھ محشور ہو گا۔ ان کی محبت کو معمولی نہ سمجھنا۔ محبت علی ؑ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کا نعم البدل کائنات میں کوئی نہیں ہے۔ اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ محبت ِ علی ؑ ہمارے دلوں میں اللہ نے ڈال دی ۔محبت ِ علیؑ کے ثمرات اور انعامات جو دنیا میں ملتے ہیں ان میں سب سے پہلا انعام یہ ہے کہ انسان اپنے مقام ابدی کو پہچان لیتا ہے۔ اس عارضی اور فانی دنیا کی حقیقت کو بھانپتے ہوئے وہ اوج ثریا تک پہنچنے کی سعی شروع کر دیتا ہے۔ دنیا کی حقیقت اُس کے سامنے عیاں ہوجاتی ہے ۔اور پھر وہ اِس دنیا کی چند روزہ فانی زندگی اوراس کی رنگینوں میں محو ہونے کی بجائے سکونِ ابدی کی طرف مائل ہو جاتا ہے ۔لمبی امیدوں اور خواہشؤں کے چراغ جلانے کی بجائے قرآن حکیم اور سیرتِ علی ؑ سے اُس کی زندگی روشن ہوجاتی ہے۔ پھر نہ تو دنیاوی خوف اُس پر مسلط ہو سکتا ہے اور نہ ہی زندگی کے پیچ و خم اُسے متزلزل کر سکتے ہیں بلکہ وہ محبت ِ علی ؑ میں ایسا دیوانہ ہو چکا ہوتا ہے کہ اب اُس کی نگاہ ِ شوق دنیاوی عشق و محبت کو چیرتی ہوئی دریچہ ءِ وحدت میں جھانکنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے ۔جب وہ محبت ِ علی ؑ اس کی زندگی میں رچ بس جاتی ہے تو پھر اُس کا اپنا کچھ نہیں رہتا یعنی اُس کی زندگی کا ہر کام صرف اور صرف رضائے مولا کی خاطر ہوتا ہے وہ اٹھتے ،بیٹھتے ،سوتے ،جاگتے ،بولتے ،چلتے گو یا ہر لمحہ زندگی میں اپنے محبوب کو Followکرنے کی کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایسے ہی زندگی گزارے۔





ایسی ہستی جس کی محبت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے پوری کائنات خلق کر دی۔ اور ایک نظام قدرت رواں دواں کر دیا جیسا کہ حدیثِ کساء میں فرمان الہٰی ہے کہ اے جبرائیل ۔۔۔۔۔۔۔

یہ سب کچھ میں نے ان کی محبت میں بنایا(پیدا) کیا ہے۔

تو پھر ضروری ہے کہ ان سے محبت کی جائے ۔ان کے چاہنے والوں سے محبت کی جائے اور محبت کے جتنے بھی تقاضے ہیں سب کو پورا کیا جائے صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر محبتِ علی ؑ کا حق ادا کیا جائے تاکہ بروز محشر مولائے کائنات سے جب ملاقات ہو تو مولا ؑ فرمائیں کہ یہ میرا محب آرہا ہے۔ دعا ہے خالقِ لم یزل مولائے کائنات امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ سے محبت کرنیوالوں کو ہمیشہ آباد و شاد رکھے۔ آمین۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَــــّدٍ۔




Ali

a fare looking young man with nice speaking and smile face

Post a Comment

Previous Post Next Post