جواہر لعل نہرو ۔۔۔۔۔تاریخ کے گوشوں میں

یہ تحریر بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر پہلی مرتبہ اگست 2020 میں شائع کی گئی تھی، جسے آج قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن 14 اگست 1947 کی شام کراچی سے دلی واپس آرہے تھے تو وہ طیارے سے وسطی پنجاب میں سیاہ دھواں آسمان کی جانب بلند ہوتے صاف دیکھ سکتے تھے۔ اس دھویں نے نہرو کی سیاسی زندگی کے سب سے بڑے لمحے کی چمک کو بہت دھندلا کردیا تھا۔

14 اگست کی شام کو سورج ڈوبا تو جواہر لعل نہرو کے 17 یارک روڈ مکان کے سامنے دو سادھو ایک کار سے اترے۔ ان کے ہاتھوں میں سفید ریشمی پیتامبر (ایک قسم کا شال)، تنجور ندی کا مقدس پانی، بھبھوت اور نٹراج مندر میں صبح کے وقت نذر کیے جانے والے چاول تھے۔

جوں ہی نہرو کو ان کے بارے میں پتا چلا تو وہ باہر آئے۔ انھوں نے نہرو کو پیتامبر پہنایا، اس پر مقدس پانی چھڑکا، اور ان کے ماتھے پر مقدس راکھ لگائی۔

نہرو پوری زندگی اس طرح کی تمام رسومات کی مخالفت کرتے رہے تھے لیکن اس دن انھوں نے مسکراتے ہوئے سادھوؤں کی ہر درخواست قبول کی تھی۔

لاہور میں ہندو علاقوں کو پانی کی فراہمی منقطع کی گئی

تھوڑی دیر کے بعد اپنی پیشانی پر لگی راکھ دھو کر نہرو، اندرا گاندھی، فیروز گاندھی اور پدماجا نائیڈو کھانے کی میز پر بیٹھے تھے کہ بغل کے کمرے میں فون کی گھنٹی بجی۔

ٹرنک کال کی لائن اتنی خراب تھی کہ نہرو نے فون کرنے والے شخص سے کہا کہ وہ اپنی بات کو دہرائے۔ جب نہرو نے فون رکھا تو ان کا چہرہ سفید تھا۔

ان کے منھ سے کچھ نہیں نکلا اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ جب انھوں نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹایا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انھوں نے اندرا کو بتایا کہ فون لاہور سے آیا تھا۔

وہاں کی نئی انتظامیہ نے ہندو اور سکھ علاقوں میں پانی کی فراہمی منقطع کر دی تھی۔ لوگ پیاس سے پاگل ہو رہے تھے۔

انی کی تلاش میں نکلنے والی خواتین اور بچوں کو چن چن کر ہلاک کیا جا رہا تھا۔ لوگ سٹیشن پر تلواریں لیے گھوم رہے تھے کہ وہاں سے بھاگتے ہوئے سکھوں اور ہندوؤں کو مارا جائے۔

فون کرنے والے نے نہرو کو بتایا کہ لاہور کی گلیوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ نہرو نے تقریباً سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ ’میں آج ملک سے کیسے خطاب کر پاؤں گا؟ میں یہ اظہار کس طرح کروں گا کہ میں ملک کی آزادی پر خوش ہوں، جب مجھے معلوم ہے کہ میرا لاہور، میرا خوبصورت لاہور جل رہا ہے۔‘

اندرا گاندھی نے اپنے والد کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ آپ اپنی تقریر پر دھیان دیں جو آپ کو آج رات ملک کے سامنے کرنی ہے۔ لیکن نہرو کا مزاج بدمزہ ہو گیا تھا۔

نہرو کی تقریر ’ٹرائیسٹ ود ڈیسٹینی‘

نہرو کے سکریٹری ایم اے متھائی اپنی کتاب 'ریمیننسیز اف نہروز ایج' میں لکھتے ہیں کہ نہرو کئی دنوں سے اپنی تقریر کی تیاری کر رہے تھے۔ جب ان کے پی اے نے تقریر ٹائپ کر کے متھائی کو دی تو انھوں نے دیکھا کہ نہرو نے ایک جگہ پر ’ڈیٹ ود ہسٹری‘ کا محاورہ استعمال کیا ہے۔

متھائی نے روجٹ کی بین الاقوامی لغت دیکھنے کے بعد انھیں بتایا کہ اس موقع کے لیے 'ڈیٹ' کا لفظ صحیح نہیں ہے کیونکہ امریکہ میں اس کا مقصد خواتین یا لڑکیوں کے ساتھ گھومنا ہے۔

متھائی نے انھیں تجویز پیش کی کہ وہ ڈیٹ کے بجائے ’رینڈاوو‘ یا ’ٹرائیسٹ‘ کا استعمال کریں۔ لیکن انھوں نے یہ بھی بتایا کہ روزویلٹ نے جنگ کے دوران اپنی تقریر میں ’رینڈاوو‘ لفظ کا استعمال کیا ہے۔

نہرو نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور اپنے ہاتھ سے ٹائپ کردہ لفظ کاٹ کر 'ٹرائیسٹ' لکھا۔ نہرو کی تقریر کا وہ مضمون ابھی تک نہرو میوزیم لائبریری میں محفوظ ہے۔


جب پوری دنیا سو رہی ہوگی

پارلیمان کے مرکزی ہال میں ٹھیک 11 بج کر 55 منٹ پر نہرو کی آواز گونجی ’بہت سال پہلے ہم نے تقدیر سے وعدہ کیا تھا۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اس وعدے کو نبھائیں… شاید مکمل طور پر تو نہیں لیکن ایک حد تک ضرور۔ نصف شب کے وقت جب پوری دنیا سو رہی ہے انڈیا آزادی کا سانس لے رہا ہے۔‘

اگلے دن کے اخبارات کے لیے نہرو نے اپنی تقریر میں الگ سے دو سطریں شامل کیں۔ انھوں نے کہا: 'ہمارے پاس ایسے بھائی بہن بھی ہیں جو سیاسی حدود کی وجہ سے ہم سے الگ تھلگ ہیں اور آج جو آزادی ہمارے پاس آئی ہے وہ اس کی خوشی منا نہیں سکتے۔ وہ لوگ بھی ہمارا حصہ ہیں اور ہمیشہ ہمارے رہیں گے، چاہے کچھ بھی ہو۔‘

جوں ہی گھڑیال نے بارہ بجائے شنکھ بجنے لگے۔ وہاں موجود لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور مرکزی ہال ’مہاتما گاندھی کی جے‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔

ساٹھ کی دہائی میں اتر پردیش کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے والی سوچیتا کرپلانی نے پہلے علامہ اقبال کا گیت 'سارے جہاں سے اچھا' اور پھر بنکم چندر چٹرجی کا 'وندے ماترم' گایا جو بعد میں انڈیا کا قومی ترانہ بن گیا۔ ایوان کے اندر سوٹ بوٹ میں ملبوس اینگلو انڈین رہنما فرینک اینٹونی نے دوڑ کر جواہر لعل نہرو کو گلے لگا لیا۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر موسلا دھار بارش میں ہزاروں ہندوستانی اس گھڑی کے منتظر تھے۔ جیسے ہی نہرو پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر آئے ہر کوئی ان کو گھیرنا چاہتا تھا۔ یہاں تک کہ 17 سال کے اندر ملہوترا بھی اس لمحے کی ڈرامائی کیفیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔

جیسے گھڑی میں رات کے بارہ بجے انھیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کی آنکھیں بھی دوسرے لوگوں کی طرح بھری ہوئی ہیں۔

مشہور مصنف خوشونت سنگھ بھی وہاں موجود تھے، جو سب کچھ چھوڑ کر لاہور سے دلی پہنچے تھے۔ انھوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم سب رو رہے تھے اور اجنبی بھی خوشی سے ایک دوسرے کو گلے لگا رہے تھے۔‘

خالی لفافہ

آدھی رات کے تھوڑی دیر بعد جواہر لعل نہرو اور راجیندر پرساد لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو باضابطہ طور پر انڈیا کے پہلے گورنر جنرل بننے کی دعوت دینے پہنچے۔

ماؤنٹ بیٹن نے ان کی درخواست قبول کرلی۔ انھوں نے پورٹ وائن کی ایک بوتل نکالی اور اپنے مہمانوں کے گلاس بھرے۔ پھر اپنا گلاس بھر کر انھوں نے ہاتھ اٹھا کر کہا 'ٹو انڈیا'۔

ایک گھونٹ لینے کے بعد، نہرو نے اپنا گلاس ماؤنٹ بیٹن کی طرف اٹھا کر کہا ’کنگ جارج ششم کے لیے۔‘ نہرو نے انھیں ایک لفافہ دیا اور کہا کہ اس میں ان وزرا کے نام ہیں جو کل حلف لیں گے۔

جب ماؤنٹ بیٹن نے نہرو اور راجیندر پرساد کے جانے کے بعد لفافہ کھولا تو وہ ہنس پڑے، وہ خالی تھا۔ جلدی میں نہرو وزرا کے ناموں کا کاغذ رکھنا بھول گئے تھے۔


پرنسز پارک میں لاکھوں کا مجمع

اگلے دن دلی کی سڑکوں پر لوگوں کا سیلاب امڈ آيا۔ شام پانچ بجے ماؤنٹ بیٹن انڈیا گیٹ کے قریب پرنسز پارک میں انڈیا کا ترنگا پرچم لہرانا تھا۔

ان کے مشیروں کا خیال تھا کہ وہاں قریب 30 ہزار افراد ہوں گے لیکن وہاں پانچ لاکھ افراد جمع تھے۔

اس وقت تک کمبھ میلے کو چھوڑ کر انڈیا کی تاریخ میں اتنے زیادہ لوگ کبھی بھی کسی جگہ پر جمع نہیں ہوئے تھے۔ بی بی سی کے نامہ نگار اور کمنٹیٹر ونفورڈ وان تھامس نے اپنی پوری زندگی میں اتنا بڑا مجمع نہیں دیکھا تھا۔

ماؤنٹ بیٹن کی ویگن کے آس پاس لوگوں کی اتنی تعداد تھی کہ وہ اس سے نیچے اترنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ لوگوں کے اس بے تحاشا ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے پرچم کشائی کے قریب بنائے گئے ایک چھوٹے سے پلیٹ فارم کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔

ہجوم کو روکنے کے لیے بنائے گئے باڑھ، بینڈ کے لیے تیار کردہ سٹیج، سخت محنت سے بنائی جانے والی گیلری، ناظرین کے لیے دونوں جانب لگی رسیاں سب ہجوم کے سیل رواں میں بہہ گئیں۔ لوگ ایک دوسرے کے اتنے قریب بیٹھے تھے کہ ان کے درمیان ہوا کا گزر بھی مشکل تھا۔

فلپ ٹالبوٹ اپنی کتاب ’این امریکن وٹنس‘ میں لکھتے ہیں کہ 'بھیڑ کا دباؤ اتنا تھا کہ ماؤنٹ بیٹن کے ایک باڈی گارڈ کا گھوڑا زمین پر گر پڑا۔ اس وقت سب کی جان میں جان آئی جب کچھ دیر بعد وہ اٹھ کر خود چلنے لگا۔'

پامیلا کی اونچی ایڑی کے سینڈل

ماؤنٹ بیٹن کی 17 سالہ بیٹی پامیلا بھی دو افراد کے ساتھ تقریب دیکھنے گئیں۔ نہرو نے پامیلا کی طرف دیکھا اور چیخ کر کہا کہ لوگوں کے سروں سے پھاندتے ہوئے سٹیج پر آ جاؤ۔

پامیلا نے بھی چیخ کر کہا: 'میں یہ کیسے کرسکتی ہوں؟ میں نے اونچی ایڑی کے سینڈل پہن رکھے ہیں۔ نہرو نے کہا سینڈل ہاتھ میں لے لو۔ پامیلا اس طرح کے تاریخی موقع پر یہ سب کرنے کا خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں۔

پامیلا اپنی کتاب ’انڈیا ریممبرڈ‘ میں لکھتی ہیں کہ ’میں نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ میں سینڈل نہیں اتار سکتی تھی۔ نہرو نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ تم سینڈل پہنے ہوئے ہی لوگوں کے اوپر پاؤں رکھتے ہوئے آگے بڑھو۔ انہیں ذرا بھی اعتراض نہیں ہوگا۔ میں نے کہا میری ہیل انھیں چجھیں گی۔ نہرو نے پھر کہا بیوقوف لڑکی سینڈل کو اپنے ہاتھ میں لے لو اور آگے بڑھو۔'

پہلے نہرو لوگوں کے سروں پر پیر رکھتے ہوئے سٹیج پر پہنچے اور پھر انھیں دیکھ انڈیا کے آخری وائسرائے کی بیٹی بھی سینڈل اتار کر انسانوں کے سروں کے قالین پر پاؤں رکھتی ہوئی سٹیج پر پہنچیں، جہاں سردار پٹیل کی بیٹی منیبن پٹیل پہلے سے موجود تھیں۔

ڈومینک لا پیئر اور لیری کولنز اپنی کتاب 'فریڈم ایٹ مڈ نائٹ' میں لکھتے ہیں: ’سٹیج کے اردگرد ایسی ہزاروں خواتین تھیں جنھوں نے اپنے سینوں سے دودھ پیتے بچوں کو لگایا ہوا تھا۔ اس خوف سے کہ شاید بچے بڑھتی ہوئی بھیڑ میں نہ پھنس جائیں وہ انھیں ربڑ کی گیند کی طرح ہوا میں اچھال دیتیں اور جب وہ نیچے گرنے لگتے تو پھر سے اچھال دیتیں۔ ایک لمحے میں سینکڑوں بچوں کو اس طرح ہوا میں پھینکا جا رہا تھا۔ پامیلا ماؤنٹ بیٹن کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں اور وہ سوچنے لگیں، 'اوہ میرے خدا، یہاں بچوں کی بارش ہورہی ہے۔'

بگھی سے ہی ترنگے کو سلام

دوسری طرف اپنی بگھی میں قید ماؤنٹ بیٹن اس سے نیچے نہیں اتر پا رہے تھے۔ انھوں نے وہاں سے نہرو کو چیخ کر کہا، 'بھیڑ کے بیچ بینڈ کہیں کھو گیا ہے۔ چلیں جھنڈا لہرائيں۔'

بینڈ کے اردگرد اتنے لوگ جمع تھے کہ وہ اپنے ہاتھ تک نہیں ہلا سکے۔ سٹیج پر موجود لوگوں نے خوش قسمتی سے ماؤنٹ بیٹن کی آواز سنی۔ ترنگا پرچم اوپر چلا گیا اور لاکھوں افراد کے آس پاس موجود ماؤنٹ بیٹن نے بگھی پر کھڑے کھڑے اسے سلامی دی۔

لوگوں کے منھ سے بے ساختہ نکلا: 'ماؤنٹ بیٹن کی جے۔۔۔ پنڈت ماؤنٹ بیٹن کی جے!'

انڈیا کی پوری تاریخ میں پہلے کبھی کسی دوسرے انگریز کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا تھا کہ لوگوں نے ایسے دلی جذبات کے ساتھ یہ نعرہ لگایا ہو۔ اس دن انھیں وہ کچھ ملا جو نہ تو ان کی پرنانی عظیم ملکہ وکٹوریہ کو ملا اور نہ ہی بعد میں ان کی کسی دوسری اولاد کو۔

قوس قزح نے آزادی کا خیرمقدم کیا

اس حسین لمحے کے جوش و خروش میں انڈیا کے عوام پلاسی کی جنگ، 1857 کے مظالم اور جلیانوالہ باغ کی خونی داستان سب بھول گئے۔ جیسے ہی پرچم لہرایا اس کے بالکل پیچھے ایک قوس قزح ابھرا، گویا قدرت نے بھی انڈیا کے یوم آزادی کے استقبال اور اسے مزید رنگین بنانے کا عزم کر رکھا ہو۔

وہاں سے بگھی پر اپنے سرکاری گھر لوٹتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن سوچ رہے تھے کہ ایسا لگتا ہے کہ لاکھوں لوگ ایک ساتھ پکنک کے لیے نکلے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اتنا لطف اٹھا رہا ہے جتنا زندگی میں پہلے کبھی نہیں اٹھایا تھا۔

اسی دوران ماؤنٹ بیٹن اور ایڈوینا نے تین خواتین کو اپنے ساتھ لے لیا جو تھک کر نڈھال ہو چکی تھیں اور ان کی بگھی کے نیچے آتے آتے رہ گئی تھیں۔ یہ خواتین کالی جلد سے سلی ہوئی نشست پر بیٹھ گئیں جس کے گدے انگلینڈ کے بادشاہ اور ملکہ کے بیٹھنے کے لیے بنائے گئے تھے۔

اسی بگھی میں انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اس کے ہڈ پر بیٹھے تھے کیونکہ ان کے لیے وین میں بیٹھنے کی کوئی نشست باقی نہیں تھی۔


دلی میں چراغاں

اگلے دن ماؤنٹ بیٹن کے پریس اتاشی ایلن کیمبل جانسن نے اپنے ایک ساتھی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا: 'آخر دو سو سال بعد برطانیہ نے ہندوستان پر فتح حاصل کر ہی لی۔'

اس دن پوری دلی میں چراغاں کیا گیا۔ کناٹ پلیس اور لال قلعے کو سبز، زعفران اور سفید روشنی سے نہایا گیا تھا۔ رات کے وقت ماؤنٹ بیٹن نے اس وقت کے گورنمنٹ ہاؤس اور آج کے راشٹرپتی بھون میں 2500 افراد کے لیے عشائيہ پیش کیا۔

کناٹ پلیس کے سینٹرل پارک میں ہندی کے معروف ادیب کرتار سنگھ دگل نے آزادی کا بہانہ لیتے ہوئے پہلی بار اپنی خوبصورت معشوقہ عائشہ جعفری کو چوما۔ کرتار سنگھ دگل سکھ اور عائشہ مسلمان تھیں۔

بعد میں دونوں نے زبردست سماجی مخالفت کا سامنا کرنے کے بعد شادی کرلی۔





(بشکریہ بی بی سی۔ نوٹ: ایڈمن کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)




 

Ali

a fare looking young man with nice speaking and smile face

Post a Comment

Previous Post Next Post