بٹ کوائن کے گمشدہ خزانوں کے متلاشی ‘ٹریژر ہنٹرز‘ کی بڑھتی مقبولیت

رونڈا کیمپرٹ ایک ارلی اڈوپٹر یعنی کسی بھی ٹیکنالوجی کو جلد ہی اپنانے والی خاتون تھیں۔
انھوں نے 2013 میں چھ بٹ کوائن خریدے جب ان کی قیمت 80 ڈالر تھی اور بٹ کوائن پر بات انٹرنیٹ کے کسی کونے میں کی جاتی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘میں ایک ریڈیو شو سنا کرتی تھی جس پر انھوں نے کرپٹو اور بٹ کوائن پر بات چیت کی اور میری اس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت معاملہ کافی پیچیدہ تھا اور انھوں نے بڑی مشکل سے اپنے کوائن خریدے۔
امریکی ریاست النائے میں مقیم رونڈا نے اگلے سال اپنے ڈیجیٹل پیسے کچھ تو استعمال کیے اور پھر بھول گئیں۔
جب 2017 میں انھوں نے شہ سرخیاں دیکھیں کہ بٹ کوائن 13000 ڈالر کا ہو گیا ہے تو وہ انتہائی خوش ہوئیں اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا بٹ کوائن بیچیں گی۔
مگر اس میں ایک مسئلہ تھا۔ ان کے پاس اپنے بٹ کوائن والٹ کے لاگ ان کی تفصیلات نہیں تھیں۔ بٹ کوائن والٹ وہ کمپیوٹر پروگرام یا ڈیوائس ہوتی ہے جس میں خفیہ نمبرز یا پرائیویٹ کیز رکھی جاتی ہیں۔
’مجھے اس وقت پتا چلا کہ میں نے جو کاغذ پرنٹ کیا تھا اس میں میرے والٹ کے شناختی نمبر کے کچھ حروف موجود نہیں تھے۔ میرے پاس میرا پاس ورڈ تھا مگر مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ میری والٹ آئی ڈی کیا ہے۔‘
‘یہ انتہائی برا تھا۔ میں کئی ماہ تک کوشش کرتی رہی اور پھر ناامید ہو گئی۔ اس لیے پھر میں نے دل ہار دیا۔‘
ٹریژر ہنٹر: خزانے کے متلاشی
اب آ جائیں گذشتہ موسمِ بہار میں جب بٹ کوائن کی قیمت 50000 ڈالر سے زیادہ ہوگئی۔ رونڈا نے 8 سال پہلے جو پیسے دیے تھے یہ اس سے 600 گنا زیادہ تھی۔
اپنے کوائن حاصل کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر پرعزم ہوکر رونڈا نے انٹرنیٹ پر حل تلاش کرنے کی کوشش کی تو اسے ایک باپ بیٹا کرس اور چارلی ملے جو کہ کرپٹو کے ٹریژر ہنٹر تھے۔

رونڈا کہتی ہیں کہ ان لوگوں سے کچھ دیر بات کر کے ‘مجھے ان پر اعتبار آ گیا کہ میرے پاس جو معلومات تھیں وہ میں ان کو دیتی۔ اور پھر میں نے انتظار کیا۔‘
‘آخرکار ہم ایک ویڈیو کال پر بیٹھے اور سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھا۔ کرس نے والٹ کھول لیا تھا اور سب وہاں ہی تھا! میں بہت خوش ہوئی۔‘
رونڈا کے والٹ میں ساڑھے تین بٹ کوائن اب تقریباً 175000 ڈالر کے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘میں نے کرس اور چالی کو ان کا 20 فیصد دیا اور پھر میں نے پہلا کام یہ کیا کہ 10000 ڈالر نکال کر اپنی بیٹی کو دیے تاکہ اس کے کالج کے اخراجات میں مدد ہوسکے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اب انھوں نے باقی کو لاک کر کے ایک ہارڈ ویئر والٹ میں رکھا ہوا ہے۔ یہ ایک سیکیورٹی آلہ ہوتا ہے جو کہ ایک یو ایس بی سٹیک کی طرح ہوتا ہے اور ان کی معلومات آف لائن محفوظ رہتی ہیں۔ ان کے نئے ہارڈ ویئر والٹ کی تفصیلات ان کے ذہن میں ‘کنندہ‘ ہیں۔
رونڈا کو امید ہے کہ ان کے کوائن (جن میں ہر ایک کی اس وقت قیمت تقریباً 43000 ہے) کی قیمت میں پھر اضافہ ہوگا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کو وہ بطور اپنا ریٹائرمنٹ فنڈ دیکھتی ہیں اور ان کا خواب ہے کہ وہ اپنی نوکری بطور سٹاک اور کرپٹو ٹریڈر چھوڑ سکیں گی۔
اربوں کا نقصان
دنیا میں اس وقت بہت سے لوگ رونڈا کی طرح ہیں۔ کرپیٹو محقق چین انیلیسس کا کہنا ہے کہ اس وقت گردش میں 18.9 ملین بٹ کوائن میں سے 3.7 ملین کھوئے جا چکے ہیں۔
اور کرپٹو کرنسی کی ڈی سنٹرلائزڈ دنیا میں کوئی منتظم نہیں ہے تو اس لیے اگر آپ اپنے والٹ کی لاگ ان تفصیلات بھول جائیں تو کوئی نہیں ہے جس سے آپ سوال کر سکیں۔
کرس اور چارلی کا اندازہ ہے کہ ان جیسی سروسز جس میں کمپیوٹرز کی مدد سے ہزاروں ممکن لاگ ان اور پاس ورڈ لگائے جاتے ہیں، تقریباً 2.5 گم شدہ بٹ کوائن نکال سکیں گے جن کی مالیت تقریباً 3.9 ارب ڈالر ہے۔
کرس نے اپنا کاروبار کرپٹو ایسٹ ریکوری 2017 میں شروع کیا مگر پھر اسے روک دیا کیونکہ وہ کچھ اور پروجیکٹس پر توجہ دے رہے تھے۔ اپنے بیٹے کے ساتھ ایک سال پہلے بات چیت کے بعد انھوں نے یہ کام دوبارہ شروع کیا۔
20 سالہ چارلی کہتے ہیں کہ ‘میں کالج سے چھٹی پر آیا ہوا تھا، اور میں بس گھر میں بیٹھا اپنے والد کے ساتھ کاروبار کے آئیڈیا سوچ رہا تھا۔‘
‘ہم نے اس کاروبار کو دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں سوچا اور پھر چند ہفتوں میں کچھ سرور خریدے اور سب کچھ چلا دیا۔‘
جب نومبر 2021 میں بٹ کوائن کی قیمت عروج پر پہنچی تو نیو ہیمپشر میں اپنے گھر کی ورکشاپ میں کام کرتے ہوئے انھیں روز کی 100 ای میلیں اور کالیں ممکنہ گاہکوں سے آنے لگیں۔

اب جب یہ پھر گر گئی ہے تو وہ اپنے پرانے کیسز پر کام کرنے لگے ہیں۔
یہ کاروبار اتنا کامیاب جا رہا ہے کہ چارلی اپنی کمپیوٹر سائنس کی ڈگری مکمل کرنے کا ارادہ ترک کر چکے ہیں۔ مگر دونوں باپ بیٹا کہتے ہیں کہ ان کا زیادہ وقت مایوسی میں گزرتا ہے۔
اپنے گاہکوں کی نامکمل یاداشت یا پرانے کاغذ کے ٹکڑوں سے کام کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً 30 فیصد ہی کامیاب ہوتے ہیں۔
اور اس کے ساتھ وہ والٹ کھل جانے پر جو اندر تلاش کر پاتے یہں وہ اس سے بھی اکثر مایوس ہوتے ہیں۔
چارلی کہتے ہیں کہ ‘اکثر ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ والٹ کے اندر کیا ہے تو اس لیے ہمیں اپنے گاہکوں پر اعتبار کرنا پڑتا ہے کہ اندر سے جو ملے گا وہ ہماری محنت کے مطابق ہوگا۔‘
‘ہمارے پاس گذشتہ سال ایک کیس آیا جس میں ایک شخص نے ہمیں کہا کہ ان کے والٹ میں 12 بٹ کوائن ہیں۔ ہم نے ان کے سامنے تو ایک پیشہ وارانہ مزاج برقرار رکھا مگر پیچھے ہم ممکنہ آمدنی کا سوچ کر خوشیوں سے ایک دوسرے کو تالیاں مار رہے تھے۔‘
‘ہم نے تقریباً 60 گھنٹے اپنے کمپیوٹر کا وقت لگایا۔ تقریباً 10 گھنٹے گاہک کے ساتھ لگائے اور پھر جب والٹ کھول پائے تو وہ اندر سے خالی نکلا۔‘
چارلی اور کرس کہتے ہیں کہ صرف ایک مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ان کے گاہک نے اس بات کا تخمینہ کم لگایا ہو کہ اندر سے کیا نکلے گا۔ یہ ان کی سب سے بڑی تلاش نکلی، تقریباً 280000 ڈالر کے بٹ کوائن۔
وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ ایک سال میں انھوں نے تقریباً ایک ملین ڈالر سے زیادہ کے بٹ کوائن لوٹائے ہیں۔
ہارڈ ویئر ہیکنگ
یہ باپ بیٹا ایک بڑھتی ہوئی صنعت کا حصہ ہیں جو کہ ایماندار ہیکر ہیں اور اپنے ہنر کو وہ گمشدہ کرپٹو کرنسی کی تلاش میں استعمال کرتے ہیں۔
ان ہی کی طرح جو گرینڈ ہیں، جنھوں نے بطور ایک نوجوان ہیکنگ شروع کی تھی۔ وہ 1998 میں امریکی سینیٹ کے سامنے بیان دینے کے حوالے سے بھی معروف ہیں جس میں انھوں نے انٹرنیٹ کے ابتدائی دنوں میں کمزوریوں کا ذکر کیا تھا۔

حال ہی میں انھوں نے ایک یوٹیوب ویڈیو بنائی تھی جس میں انھوں نے ایک ہارڈویئر والٹ کھول کر اپنے صارف کو دیا تھا جس میں تھیٹا نامی کرپٹو کرنسی کے دو ملین ڈالر پڑے تھے۔
جو کو اوریگون کے شہر پورٹ لینڈ میں اپنی ورکشاپ میں ایک نیا طریقہ تیار کرنے اور دوسرے ہارڈویئر والٹس پر ہیکس کی تیاری اور مشق کرنے میں مہینوں لگے۔
آخر کار انھوں نے ہارڈویئر والٹ میں ایک کمزوری ڈھونڈی اور اسے پہلے سے دریافت شدہ دو کمزوریوں کے ساتھ ملا کر حل نکالا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اگر کوئی احتیاط سے صحیح وقت پر اس والٹ کو بجلی کے جھٹکے لگائے تو وہ اپنا پن کوڈ دے سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘جب آپ ایک کرپٹو والٹ کو توڑتے ہیں، میرا مطلب ہے کہ جب آپ واقعی کسی بھی سیکیورٹی کو توڑتے ہیں، تو یہ جادو کی طرح محسوس ہوتا ہے، چاہے آپ اسے کتنی ہی بار کرتے ہیں۔‘
‘حالانکہ میں نے اپنے ٹیسٹوں میں متعدد بار ثابت کیا تھا کہ میں اس والٹ کو ہیک کر سکتا ہوں، میں اس دن پریشان تھا کیونکہ آپ کبھی نہیں جانتے تھے کہ کیا ہونے والا ہے اور ہمارے پاس صرف ایک ہی گولی لگی یا ساری چیز ٹوٹ سکتی ہے اور سکے ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جائیں گے۔‘

‘والٹ کو کھولنا ایک بہت بڑا ایڈرینالین رش تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ خزانے کی تلاش کے تکنیکی ورژن کی طرح ہے۔‘
جو مینوفیکچررز کو سکھاتے ہیں کہ کہ اپنی مصنوعات کو ہیکرز سے کیسے محفوظ کیا جائے لیکن وہ کہتے ہیں کہ اب انھیں گمشدہ کرپٹو کرنسی کی بازیابی کی امید رکھنے والے لوگوں کی طرف سے بہت سی کالیں موصول ہو رہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں ‘اگر کوئی میرے پاس کافی بڑا والٹ لائے اور اتنا بڑا خزانہ ہو کہ میں اپنا وقت وقف کر سکوں، تو ہم کوشش کریں گے۔‘