مالک بن دینار کی توبہ
تفسیر روح البیان میں مذکور
ہے کہ مالک بن دینار سے اس کی توبہ کا سبب دریافت کیا گیا تو اس نے یہ داستان بیان
کی:
https://www.youtube.com/watch?v=8DV7irlRHKU
(آپ اس واقعہ کی ویڈیو دیکھنے کیلئے اوپر دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔)
میں ابتدا میں شرابی کبابی
شخص تھا۔ میں نے ایک کنیز خریدی جس سے مجھے بے حد پیار تھا اور اللہ تعالیٰ نے
مجھے اس سے ایک بیٹی عطا کی اور مجھے اپنی بچی بھی بے حد پیاری تھی ۔ میں سارا دن
اس سے لاڈ پیار میں بسر کرتا تھا۔ جیسے دو گھٹنو ں چلنے لگی تو میرے پیار میں مزید
اضافہ ہوتا گیا اور اب بچی اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکتی تھی اور تھوڑا تھوڑا چل سکتی
تھی اور جب وہ میرے ہاتھ میں شراب کا جام دیکھتی
تو اسے ہاتھ مار کر گرادیتی تھی جس سے میرے کپڑے شراب سے بھیگ جاتے تھے۔
بہر نوع دہ بھی میری ساری کائنات اور میری آنکھوں کا تار اتھی۔
جب بچی کی عمر دو سال کی
ہوئی تو قضائے الہی سے وہ فوت ہوگئی ۔ مجھےبچی کی موت کا شدید صدمہ ہوا۔ پھر چند
دن گزرے تھے کہ ماہ شعبان کی شب جمعہ میں نے خوب شراب پی اور اس رات میں نے نماز
بھی نہ پڑھی اور سو گیا۔
عالم خواب میں مجھے دکھائی
دیا کہ قبریں پھٹ گئیں اور تمام مردے اٹھ کر میدان حشر کی طرف چلنے لگے اور میں بھی
ان کے ساتھ چلنے لگا۔ اسی اثنامیں مجھے اپنے عقب سے ایک آوازیں سنائی دی۔ جب میں
نےپیچھے مڑ کر دیکھا تو مجھے سیاہ سانپ نظر آیا جو کہ مجھے کاٹنے کے لئے آگے بڑھ
رہا تھا اور سانپ اتنا بڑا تھا کہ میں اس سے لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا
اسی لئے میں اس سے بچنے کے لئے دوڑ پڑا۔ جیسے ہی میں نے دوڑ لگائی تو سانپ بھی
تیزی سے میرا تعاقب کرنے لگا اور میں چاہتا تھا کہ کوئی ایسا شخص مجھے مل جائے جو
اس سے مجھے پناہ دلا سکے ۔ اسی اثنا میں میں نے ایک بوڑھے مگر انتہائی خوبصورت شکل
والےشخص کو دیکھا اور میں نے اسے سلام کیا۔ اس نے مجھے جواب دیا اور میں نے اس سے
فریاد کی کہ خدارا مجھے اس بلا سے بچائیں۔
اس نے جواب دیا: سانپ بڑا
طاقتور ہے اور میں کمزور ہوں ۔ لہذا میں تجھے اس سے نہیں بچاسکتا۔ اس سے مایوس ہو
کر میں بھاگنے لگا اور سانپ مسلسل میرے تعاقب میں رہا۔ دوڑتے دوڑتے میں دوزخ کے
کنارے پہنچ گیا اور قریب تھا کہ سانپ کے ڈرسے میں دوزخ میں ہی چھلانگ لگا دیتا۔
اسی اثنا میں ایک آواز میرے
کانوں سے ٹکرائی دوزخ میں چھلانگ مت لگانا تم اہل دوزخ میں سے نہیں ہو۔“
آواز سن کر مجھے کچھ سکون سا
محسوس ہوا اور میں وہاں سے پھر واپس دوڑنے لگا۔ پھر راستہ میں مجھے وہی نورانی شکل
والا بوڑھا دکھائی دیا میں نے اس سے کہا۔
مجھے تجھ سے شکوہ ہے، تو نے
مجھے سانپ سے بچانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا اور اس وقت بھی وہ اب میرے تعاقب
میں ہے۔ یہ سن کر وہ بوڑ ھارو پڑا اور کہنے لگا۔
میں بہت کمزور ہوں تجھے اس
سے بچانے کے قابل نہیں ہوں، البتہ کچھ مشورہ دیتا ہوں کہ اس پہاڑ کی پچھلی سمت چلے
جاؤ وہاں مسلمانوں کی امانتیں ہیں ۔ اگر وہاں تمہاری امانت ہوئی تو وہ امانت تجھے
اس مصیبت سے بچائے گی۔
بوڑھے کی بات سن کر میں پہاڑ
کی جانب دوڑ پڑا اور سانپ بھی مسلسل میرے تعاقب میں رہا۔ جب میں پہاڑ کی دوسری
جانب پہنچا تو وہاں میں نے دیکھا کہ لا تعداد کمرے بنے ہوئے تھے اور ان کے دروازے
پر پردے پڑے ہوئے تھے اور ان کمروں کے دروازے زرسرخ اور یاقوت اور موتیوں سے بنے
ہوئے تھے۔ جب میں دوڑتے دوڑتے ان کمروں کے قریب گیا تو ایک فرشتہ نے آواز دی ’’پردے
ہٹا لو اور دروازے کھول لوممکن ہے اس بے چارے کی یہاں کوئی امانت موجود ہو جو اسے
دشمن کے شر سے نجات دے سکے ۔“
اس آواز کے بلند ہونے کے
بعدان کمروں سے چاند کی طرح خوبصورت بچے برآمد ہوئے اور وہ سانپ بھی میرے نزدیک
آچکا تھا۔ اچا نک میں نے دیکھا کہ میری مری ہوئی بچی نمودار ہوئی اور باقی بچوں کو
پکار کر کہا: جلدی سے آو یہ میرے والد ہیں انہیں دشمن سے بچاؤ۔ '
ا اور یہ کہہ کر میری بچی نے
میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور دائیں ہاتھ سے اس نے سانپ کی طرف اشارہ کیا تو
وہ مڑا اور بھاگ گیا۔ میں بیٹھ گیا اور میں نے اسے اپنی گود میں بٹھالیا۔
بچی نے پیار سے اپنے ہاتھوں
کو میری داڑھی پر پھیرا اور کہا:
ابا جان! الم يان للذین امنوا أن تخشع
قلوبهم لذكر الله ....»، یعنی کیا اہل ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا جب
ان کے دل ذکر خداوندی سے نرم ہوجائیں۔
بچی کی زبان سے قرآن مجید کی
یہ آیت سن کر میں رونے لگا اور اس سے کہا بیٹی! تو کیا آپ نے قرآن بھی پڑھ لیا ہے؟
میری بیٹی نے جواب دیا: ابا
جان! ہم آپ سے قرآن کو بہتر جانتے ہیں۔ میں نے کہا: بیٹی! مجھے یہ بتا کہ وہ سانپ
کیا تھا؟
میری بیٹی نے کہا: ابا جان !
یہ آپ کے وہ برے اعمال تھے جنہیں آپ نے پروان چڑھایا ہے اور اب وہ برے اعمال سانپ
کی صورت اختیار کر چکے ہیں جو آپ کو دوزخ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
میں نے کہا: وہ بوڑھا کون
تھا؟
میری بیٹی نے بتایا: وہ
بوڑھا آپ کے نیک اعمال تھے جنہیں آپ نے کمزور کیا ہوا تھا اور اسی لئے وہ آپ کی
مدد سے قاصر تھا۔
پھر میں نے کہا: بیٹی! آپ
یہاں دامن کوہ میں کیا کر رہی تھیں؟
میری بیٹی نے کہا: یہاں
مسلمانوں کے وہ چھوٹے بچے رہتے ہیں جو بچپن میں فوت ہو جاتے ہیں اللہ نے ہمیں
قیامت تک کے لئے یہاں ٹھہرایا ہوا ہے اور ہم یہاں اپنے والدین کا انتظار کر رہے
ہیں اور ان کی شفاعت کریں گے۔
اس خواب کے بعد میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا اور میں نے شراب اور دیگر گناہوں سے توبہ کر لی۔